آج ہم تصور بھی نہیں کرسکتے کہ فرنگی راج میں سانس لیتے ہوئے ہندوستان نے کس شان سے خلافت تحریک چلائی تھی ۔ اس میں مسلمان اور ہندو ، مرد ، عورتیں اور بچے سب ہی شامل تھے ۔ یہاں اس پرکیا بحث کرنا کہ یہ تحریک جس میں ہزاروں مسلمان اور ہندو عورتوں نے اپنے ہاتھ کے کنگن اورکانوں کی جھمکیاں عطیہ کی تھیں۔ایک، پانچ، دس اور سوکے نوٹ خلافت فنڈ می ں دیے گئے تھے‘ وہ کیوں ناکام رہی ۔ سادہ سا جواب ہے کہ جب ہم ترکوں کے لیے خلافت کا نسخہ تجویز کر رہے تھے‘ عین اسی وقت ترکو ں کی نوجوان نسل ’ ینگ ٹرکس‘کے نام سے یورپ کے مرد بیمار ترکی کے لیے اپنے خون سے نسخہ شفا لکھ رہی تھی۔
اس خلافت تحریک کی ہیروئن رام پورکی ایک بیوہ اور بوڑھی خاتون تھیں، جو بی اماں کے نام سے مشہور ہوئیں ۔ انھوں نے خلافت تحریک میں سرگرم اپنے دو بیٹوں مولانا محمدعلی اور مولانا شوکت علی سے خلافت کے لیے جان دے دینے کی بات کی ۔ ان ہی دنوں ان جذبات کو ایک شاعر شفیق رام پوری نے نظم کیا اور اس نظم کے چندمصرعے شمالی ہندوستان میں زبان زد عام ہوئے ۔ ہر بچہ اور نوجوان اس نظم کوگلی محلوں میں گاتا پھرتا تھا کہ:
بولیں اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
ساتھ تیرے ہی ںشوکت علی بھی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
دودھ ہرگزنہ بخشوں گی تم کو
میں دلاور نہ سمجھوں گی تم کو
یہ ایک طویل نظم ہے اور ہماری جدوجہدآزادی کا درخشاں حوالہ ہے۔ایک گھر یلو اور پردہ دار خاتون جو سیاست کو جذباتی اندازسے دیکھتی اور سمجھتیں تھیں ‘ انھوں نے جنگ آزادی میں اپنا حصہ ڈالا تھا جسے ان کے ایک ہم وطن شاعرنے زبان دے دی تھی۔
ان دنوں یہ نظم باربار یادآتی ہے ۔ اس کایہ سبب نہیں کہ تحریک خلافت پھر سے چلنے کے آثارہوئے ہیں ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ ترکی میں سوچنے ، سمجھنے، بولنے اور قلم اٹھانے والوں پر جوگزر رہی ہے ، وہ ایک ناقابل یقین داستان ہے ۔ ان دنوں یہ خیال آتا ہے کہ بی اماں اگر زندہ ہوتیں اور اپنی روایت کے مطابق اخبار پڑھتی ہوتیں توان کا کلیجہ کس طرح خون ہوتا ۔ وہ کیا سوچتیں اورکیا کہتیں ۔ وہ کون سا شاعرہوتا جو ان کے جذبات کو زبان دیتا۔
20کی دہائی میں ترکی نے آزادی حاصل کرلی ‘ خلافت عثمانیہ کو لپیٹ کر طاق نسیاں پر رکھ دیا گیا ۔ یورپ کا مرد بیمارآج اہم اور مستحکم ملکوں کی فہرست میں شمارہوتا ہے لیکن وہاں سے آزادی تحریروتقریراورآزادی اظہار کے بارے میں جوخبریں آتی ہیں‘ وہ خون میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہیں ۔ وہاں کی حکومت دانشوروں ، ادیبوں اور صحافیوں پر جو ستم توڑتی ہے‘ اسے کسی طور بھی روا سمجھا نہی ں جا سکتا ۔ کسی بھی صحافی ، ادیب یا دانشور کی رائے سے اختلاف حکومت یا اس کے حامیوں کا حق ہے لیکن اختلاف رائے کی بنا پرکسی کو موت یا عمرقید کی سزا سنانا ، اسے ’غدار‘ قراردینا، جمہوری اورانسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جو ترکی میں بے محابا کی جا رہی ہے۔
2016 میں اردوان حکومت کا تختہ الٹنے کے الزامات صحافیوں پر کھل کر لگائے گئے ۔ ان پر مقدمہ چلا اور پھر عدالتوں نے انھیں ’غداری‘ کا مرتکب ٹہرایا ۔ دو سگے بھائی احمت التان اور مہمت التان ترک سماج میں بہت محترم ہیں ۔اسی طرح معروف اور پسند کی جانے والی67 سالہ ترک صحافی نازلی ایلی کاک کا معاملہ ہے۔ وہ جنوبی ترکی میں اپنی چھٹیاں گزار رہی تھی جب اس نے25جولائی کو ٹیلی ویژن پر دیکھا کہ اس کی گرفتاری کے احکامات جاری ہوئے ہیں ۔ اس کے وکیل کا کہنا ہے کہ وہ اپنی گرفتاری پیش کرنے کے لیے پولیس اسٹیشن جارہی تھی جب اسے تھانے سے باہرگرفتارکرلیا گیا اورفوراً جیل بھیج دیا گیا ۔
اس کا جرم یہ بتایا گیا کہ جس دن اس کی حراست کے احکام جاری ہوئے‘ اس نے فوری طور پر ان احکام کی تعمیل کیوں نہیں کی ، یوں وہ مفرور ثابت ہوئی ۔ اسے کسی پیشگی علم و اطلاع کے جیل بھیجنے کا سبب یہ بتایا گیا کہ وہ ایک ایسے پروگرام کی میزبانی کر رہی تھی جو ناکام بغاوت سے ایک دن پہلے نشر ہوا تھا ۔ التان بھائیوں اور 67 سالہ نازایلی کاک کو ترک عدالت نے 2016کی بغاوت میں شریک کار ہونے کی سزا میں عمرقیدکی سزا سنائی اوراس کے علاوہ بھی15برس کی مزید قید کے احکامات بھی جاری کیے۔ یعنی جب آپ دنیا سے رخصت ہو جائیں تو اس کے بعد بھی 15 برس کی قید کاٹیں۔
اسی طرح قادری گرُ سل کا معاملہ ہے ۔ وہ مشہور ترک اخبار’’جمہوریت‘‘سے وابستہ ہے۔ وہ اسی اخبارکے 9صحافیوں میں سے ایک ہے جو نومبر2016 میں گرفتار کیے گئے تھے ۔ اس پربھی دہشت گرد وں کی حمایت کا الزام ہے‘ وہ 30برس سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہے اور اس کا سب سے بڑاجرم یہ ہے کہ 2016 میںگرُسل نے ایک کالم لکھا جس کا عنوان تھا’’اردوان ہمارا باپ بننا چاہتا ہے‘‘ اس کا کہنا تھا کہ وہ ہم پر طاقت کے ذریعے حکومت کرنا چاہتا ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس کے ان اقدامات کو رد کر دیں اور اس کے خلاف بغاوت کردیں‘ گرُسل نے یہ بھی لکھا ہمیں اس سلسلے میں تیونیشیا کے محمد بن عزیزی کی تقلید نہیں کرنی چاہیے جس نے احتجاج کرتے ہوئے خودکو چوک میں آگ لگالی تھی ۔ یہ اسی واقعے کا نتیجہ تھاکہ اس وقت بن علی کے خلاف بغاوت ہوئی اور تیونیشیا میں انقلاب آگیا۔
ترکی میں سب سے بڑا عذاب کرُد صحافیوں پر آیا ہوا ہے جنھیں حکومت پوری طاقت سے کچل رہی ہے۔ گرفتاریوں‘جھوٹے مقدموں اور سزاؤں کے علاوہ وہاں ماورائے عدالت قتل کردیے جانے والوں کی ایک طویل فہرست ہے۔1992 سے اب تک 1278صحافی ہلاک کیے جا چکے ہیں ۔820کو قتل کا نشانہ بنایا گیااور 704استثنا کے حق کے باوجود قتل کیے گئے۔وہ ترک صحافی جو غیرملکی اخباروں اور صحافتی اداروں سے وابستہ ہیں‘ انھیں بھی سخت نگرانی میں رکھا جاتا ہے‘ جب کہ کچھ کو ملک بدرکردیا گیا ہے۔ 156صحافتی اداروں پابندی لگنے سے ہزاروں صحافی بیروزگاری کے دیو سے لڑرہے ہیں ۔
اقوام متحدہ کے خصوصی مبصر برائے آزادی اظہار’ ڈیوڈ کے ‘ کاکہنا ہے کہ عدالتیں صحافیوں کو جس طرح جیل میں ڈال رہی ہیں اور کسی معقول اور مناسب ثبوت کے انھیں لمبی لمبی سزائیں سنا رہی ہیں وہ ترکی میں آزادی صحافت کے لیے بہت خطرناک ہے۔ پین انٹرنیشنل کی سارہ کلارک نے ان خبروں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اورکہا ہے کہ یہ فیصلے بہت سے دوسرے ترک صحافیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے ۔
2016کے ناکام انقلاب کے بعد 50ہزار افراد گرفتار کیے گئے اور ڈیڑھ لاکھ سرکاری ملازمین اپنی ملازمتوں سے برطرف کردیے گئے۔ان میں استاد ،نچلی عدالتوں میں کام کرنے والے اورسرکاری اخباروں سے وابستہ صحافی شامل تھے۔ صحافی کسی بھی ملک میں آزادی تحریر وتقریرکا استعارہ ہوتے ہیں ۔ ان کے ساتھ اگر سرکاری سطح پر تشدد کیا جائے یا انھیں ’’غدار‘‘ کہہ کر پکارا جائے۔ 60اور70برس کے نامور اور معتبر ادیبوں، صحافیوں کو عمرقید کی سزا سنائی جائے تو ملک کے عوام کا عدالتی نظام سے ایمان اٹھ جاتا ہے ۔ وہ سب کچھ اپنے اردگرد ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور عقل وشعور رکھتے ہیں۔
وہ لکھے ہوئے حروف میں سے سچ اور جھوٹ ‘ کھرے اورکھوٹے میں پہچان کی تمیز رکھتے ہیں ۔ ہمارے یہاں بھی آزادی کے فوراً بعد جس طرح عدالتوں کے ذریعے سیاسی کارکنوں ‘ صحافیوں اور ادیبوں پر غداری کی تہمت لگائی گئی، اس نے لوگوں کوان الزامات کی تہ تک پہنچنے کی صلاحیت بخشی ۔ یہی وہ مقدمہ تھا جو پنڈی سازش کیس کہلایا اور جس کا سرکاری سطح پر ڈھول پیٹاگیا ، اسے لوگوں نے مسترد کردیا ۔ سجاد ظہیر ، فیض احمد فیض ، سبط حسن ‘ ظفر اللہ پوشنی اور دوسرے گرفتار شدگان جن کے سر پر سولی کا سایہ تھا ، وہ برسوں کی ذہنی اور جسمانی اذیت کے بعد رہا ہوئے ۔ اس رہائی کا جشن عوامی سطح پر منایا گیا اور پنڈی سازش کیس میں گرفتار ہونے والے تمام شاعر، ادیب اور صحافی سر آنکھوں پر بٹھائے گئے۔
دنیا بھر میں لکھے ہوئے حرف کی حرمت کا احترام کرنے اور صحافیوں کے لیے اظہار رائے کے حق کی بات کرنے والی تنظیمیں ترک حکومت پر زورڈالتی رہی ہیں کہ وہ ملزمان پر لگائے جانے والے الزامات کو عدالت میں ثابت کریں ۔ ترک صدرکاکہنا ہے کہ وہ تمام 177لوگ جو مختلف جیلوں میں ہیں ، ان میں سے 175دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ 2کوقتل کے الزام میں گرفتارکیا گیا ہے۔ اس وقت ترکی میں جو لوگ جیلوں میں ہیں ، ان میں سے150مختلف اخباروں اور جرائد کے مدیر ہیں جب کہ رپورٹروں اورکالم نگاروں کو شامل کر لیا جائے توان کی تعداد200تک پہنچتی ہے۔ صحافیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کودیکھتے ہوئے بہت سے تجزیہ نگار ترکی کو صحافیوں کے لیے دنیا کی سب سے بڑی جیل کہتے ہیں۔
ترکی1949سے اسٹراس برگ میں حقوق انسانی کی یورپ کونسل کا ممبر رہا ہے، یہ کونسل ترکی میں حقوق انسانی کی عمومی طور سے اور بطور خاص صحافیوں کے ساتھ ناروااور تشددآمیز سلوک کے خلاف مسلسل آواز اٹھاتی ہے ۔ ترکی میں حقوق انسانی کے اہم وکیل اور دانشور کریم التی پر مارک نے کہا کہ ’’کونسل آف یورپ کے بنیادی ستونوں میں سے ایک قانون کی حکمرانی ہے اور ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ترکی میں قانون کی حکمرانی بحران سے دوچار ہے ۔ عدالتوں میںغیر جانبداری اور آزاد فیصلوں کی صلاحیت نہیں پائی جاتی۔
2016کی ناکام بغاوت کے بعد وہ لوگ بھی گرفتار کیے گئے اور ابھی تک جیل میں ہیں، جن میں سے کوئی ماہر معاشیات تھا اور کوئی سیاسی تجزیہ نگار ۔ ایسے بعض صحافیوں کوایک عدالت نے رہا کیا تو دوسری عدالت نے اس فیصلے کوکالعدم قرار دیتے ہوئے، چھوٹ جانے والے کو دوبارہ سے جیل بھیج دیا ۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ترکی میں2016کی ناکام بغاوت کی قیمت اس کے صحافی اورادیب کب تک ادا کرتے رہیں گے لیکن یہ ضرور ہے کہ ترک حکومت کے یہ اقدامات دوسرے بہت سے حکمرانوں کو اختلاف رائے سے نمٹنے کے نئے طریقے سکھاتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی یہ آزادی تحریرو تقریر پر یقین رکھنے والوں کو اس بات کا اشارہ بھی دیتے ہیں کہ اقتدار مطلق حاصل کرنے کے خواہش مند ادارے یا افراد ہمارے یہاں بھی کہاں تک جا سکتے ہیں اورکیا کچھ کرسکتے ہیں۔
(بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ