ہم شہرکراچی کے بیچوں بیچ رہتے تھے اور اس کی رو قوں کے بارے میں س تے تھے لیک ہمیں گھر سے کسی بڑے کے بغیر کل ے کی اجازت ہیں تھی، اسکول میں داخل کرا ے کی بجائے گھر پر پڑھایا جاتا تھا، اس کے باوجود کبھی کسی شادی اور کبھی رشتہ داروں کے یہاں جا ے کے لیے گھر سے کل ے اور شاہی سواری فٹ میں بیٹھ کر شہرکو ترسی ہوئی گاہوں سے دیکھتے، کیسا بھلا م ظر ہوتا۔
ٹریفک بے ہ گم اور بے قابو ہیں تھا۔کبھی ٹ ٹ کرتی ٹرام دائیں بائیں سے کل جاتی اورکبھی کوئی بس گزرتی لیک یہ کبھی ہ دیکھا تھا کہ لوگ اس سے خطر اک ا داز میں لٹکے ہوئے ہوں۔ اسی طرح اس کا بھی تصور ہ تھا کہ ٹکٹ خرید ے کے باوجود صبح سے شام تک بوڑھے، بچے اور جوا اپ ی جا پرکھیل کر بسوں کی چھت پر سفرکریں اور یہ ا کا روزمرہ کا معمول ہو۔ اسکول بسیں ہوتی تھیں ج میں قاعدے قری ے سے بچے بٹھائے جاتے۔
یہ کام اسکولوں میں پڑھا ے والی استا یاں کرتیں اور اس بات کا خیال رکھتیں کہ ضرورت سے زیادہ بچے بسوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح ہ ٹھو سے جائیں۔ اب کی طرح ہیں کہ بچے سوزوکیوں، موٹر رکشوں اور چ گ چی رکشوں میں قربا ی کے جا وروں کی طرح سفرکرتے ہیں۔
عرصہ? دراز سے کراچی شہر ا پرساں ہوچکا۔ یہاں رہ ے والے لوگوں کو جا کی اما ہیں۔ یہاں بھائیوں ے بھائیوں کو قتل کیا۔ ایک دوسرے پر تشدد کر ے کے لیے اذیت گاہیں ب ائیں، ویرا ے میں ہیں بستیوں میں۔آس پاس رہ ے والے اذیت سہ ے والوں کی چیخیں س تے لیک کس کی مجال تھی کہ ا عقوبت گاہوں کے خلاف آواز اٹھائے۔کچھ اعصابی ا تشارکا شکار ہوئے اور ج کے لیے ممک تھا، وہ علاقہ چھوڑکرچلے گئے۔
آبادی میں بے تحاشہ اضافے کے ساتھ ہی زمی سو ے کے بھاﺅ بک ے لگی۔ لوگوں ے دی الے ہ چھوڑے، حد تو یہ ہے کہ قبرستا بھی بک گئے اور وہاں کئی م زلہ عمارتیں ب گئیں۔ اس شہرکی زمی کے ساتھ وہ ہوا جو غریب، بے آسرا اور وجوا بیوہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس یک کام میں وہ ادارے بھی شامل تھے ج کا شمار محافظوں میں ہوتا ہے۔ خدا ایسے محافظ دشم کو بھی ہ دے۔
ہم جیسے جو اس شہر میں بچے سے بوڑھے ہوئے، ہم ے صبرکیا اس لیے کہ اس کے علاوہ کچھ اورکر ا ہمارے لیے ممک ہ تھا۔ شہر کی یہ غارت گری پچاس برس سے جاری ہے، ایسے میں یہ خبر اقابل یقی ہے کہ سپریم کورٹ ے کارساز، شاہراہ فیصل، راشد م ہاس روڈ پر قائم تمام شادی ہال،گلوبل مارکیٹ سمیت ک ٹو م ٹ کے علاقوں میں تمام سی ما ،کمرشل پلازہ اور مارکیٹیں گرا ے کا حکم دے دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ ے عسکری پارک جو پرا ی سبزی م ڈی کی خالی زمی پر قائم کیا گیا ہے، اسے فوری طور پر سول ادارے کے سپرد کر ے اور عوام کے لیے کھول ے کا حکم دے دیا۔
جسٹس گلزار احمد ے ریمارکس دیے کہ کراچی کی صورتحال پر کسی قسم کا سمجھوتہ ہیں ہوگا۔ کراچی کو تباہ کردیا اورکوئی خوبصورت مقام ہیں چھوڑا۔ ا کا بس چلے تو یہ سڑکوں پر بھی شادی ہال ب ا ڈالیں۔ ا ھوں ے سوال اٹھایا کہ اسلحہ ڈپو کے قریب کس طرح شادی ہال ب سکتے ہیں۔ یہ کیا کررہے ہیں۔ سماعت کے دورا عسکری پارک سے متعلق معاملہ آیا جس پر سپریم کورٹ کا عسکری پارک سے متعلق بڑا فیصلہ سام ے آگیا۔ جسٹس گلزار احمد ے عسکری پارک فوری طور پر سول ادارے کے ماتحت کر ے اور پارک عوام کے لیے کھول ے کا کا حکم دے دیا۔ عدالت ے ہدایت کی کہ عزیز بھٹی پارک کو ماڈل پارک ب ایا جائے۔ جسٹس گلزار احمد ے ریمارکس دیے کہ اس شہر کے پارکوں کو شہیدوں کے ام پر بیچ دیا گیا۔
عدالت ے کراچی کا ا فرا اسٹرکچر تباہ کر ے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے شہر کی تباہی پر س دھ حکومت کو فوری طور پر کابی ہ کا اجلاس بلا ے کا حکم دے دیا۔ جسٹس گلزار احمد ے ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ ج رل صاحب ! ہمیں لوریوں سے سلا ے کی کوشش مت کریں۔ جسٹس گلزار احمد ے ایڈووکیٹ ج رل س دھ سے مکالمہ میں کہا کہ آپ لوگ کٹھ پتلی ہیں اورکسی کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔
جسٹس گلزار احمد ے کہا کہ کراچی کی صورتحال پرکسی قسم کا کوئی سمجھوتہ ہیں ہوگا۔ ہمیں 1950 کے بعد والا اصل ماسٹر پلا لاکردیں۔ اس شہرکی کم از کم 500 عمارتیں گرا ا ہوں گی۔ شہرکی تباہی میں سب اداروں کی ملی بھگت شامل ہے۔ عدالت ے س دھ حکومت کو شہر کی تباہی پر ماہری سے مشاورت کر ے کا حکم دے دیا اور کہا کہ بتایا جائے کہ شہرکی بے ہ گم اور غیر قا و ی عمارتوں کو کیسے گرایا جا سکتا ہے۔ جسٹس گلزار احمد ے ریمارکس دیے کہ کراچی کی ایک ا چ زمی پر بھی کوئی سمجھوتہ ہیں ہوگا۔ غیر قا و ی تعمیرات کے پیچھے کوئی بھی ہو آپ کو سب گرا ا ہوگا۔
عدالت ے ریمارکس دیے کہ بیرو ملک سے ٹاﺅ پلا رز کو بلائیں اور کراچی کو اصل شکل میں بحال کریں۔ ل د کے پاکستا ی ڑاد میئر صادق احمد سے پوچھیں کہ شہرکیسے بسائے جاتے ہیں۔ لاءز ایریا گراکر ملٹی اسٹوریز عمارتیں ب ائیں اور لوگوں کو آباد کریں۔ شہرکو تباہ کردیا ہے کوئی پوچھ ے والا ہیں۔ ٹیپو سلطا روڈ، شہید ملت روڈ اور کشمیر روڈ پر تباہی پھیر دی۔ شاہراہ فیصل پر دو وں اطراف خوبصورت ب گلے تھے اب عمارتوں کا ج گل ہے۔ بجلی کے تاروں کے بعد کیبلز ے شہر کی خوبصورتی بگاڑ دی۔ یہ کراچی کے ماتھے پر کل ک کا ٹیکا ہے۔
جسٹس گلزار احمد ے ریمارکس دیے کہ آپ لوگ پیسہ ب ا ے میں لگے رہیں اور یہ کل ک کا ٹیکا لگتا رہے آپ کو کوئی فرق ہیں پڑتا۔ ہر کوئی برطا یہ، امریکا اور کی یڈا میں جائیداد ب ا ا چاہتا ہے۔ جام صادق پارک سے تجاوزات ختم ہ کر ے پر عدالت برہم ہوگئی۔ ایڈووکیٹ ج رل س دھ کا موقف تھا کہ جام صادق ے وہاں جاکر پارک کا صرف اعلا کیا تھا زمی الاٹ ہیں ہوئی تھی۔ جسٹس گلزار احمد ے ریمارکس میں کہا کہ کیا وزیراعلیٰ کے اعلا کی کوئی اہمیت ہیں؟ بلائیں اپ ے وزیراعلیٰ کو ا سے پوچھتے ہیں کہ کیا چیف م سٹری کررہے ہیں۔
ڈائریکٹر ای ٹی ا کروچم ٹ کے ڈی اے جمیل بلوچ ے بتایا کہ ملیر دی کی زمی کور گی ا ڈسٹریل ایریا کو دے دی گئی تھی۔ اس زمی پر عمارتیں ب گئی ہیں۔ جسٹس گلزار ے ریمارکس میں کہا کہ کیا یہاں متوازی قا و چل رہا ہے؟ لوگوں کو بے وقوف ہ ب ائیں اے جی صاحب۔ عوام کے حقوق پر کوئی سمجھوتہ ہیں ہوگا۔ جام صادق پل کے اطراف شادی ہال اور بل د عمارتیں ب ادی گئیں، یہ سب غیر قا و ی ہے۔ جو بھی غیر قا و ی عمارت ہے وہ گرے گی ملک کی کوئی طاقت اسے گر ے سے ہیں روک سکتی۔
عدالت ے ملیر دی کی زمی واگزار کرا ے کا حکم دے دیا۔ سماعت کے دورا عدالت ے چیئرمی پی آئی اے کو وٹس جاری کردیے۔ جسٹس گلزار احمد ے ریمارکس دیے کہ س ا ہے کہ پی ا?ئی اے ہیڈ آفس کراچی سے اسلام آباد جا رہا ہے۔ ہیڈ آفس اسلام آباد گیا تو اس خالی جگہ کا کیا استعمال کریں گے۔
یہ تمام باتیں قومی اخباروں میں شائع ہوئی ہیں ج ھیں یہاں قل کردیا گیا ہے تاکہ اگرکسی ے بھول چوک سے یہ تفصیل اخبار کے ا درو ی صفحوں پر ہ پڑھی ہو تو اب پڑھ لے۔ یہ ایسے جملے ہیں اور ایسے فیصلے ج ھیں پڑھ کر کم سے کم مجھے تو یہی محسوس ہوا کہ میں خواب دیکھ رہی ہوں اور ابھی آ کھ کھل جائے گی۔ (جاری ہے)
(بشکریہ:روز امہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ