ہم جنھیں اپنے گھرانوں سے تعلیم یا سماجی اور سیاسی شعور کے اظہار میں کسی نوعیت کی بندش کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ وہ حمزہ واحد کی زندگی کی ابتدائی سختیوں کا اندازہ نہیں لگاسکتے جو انھیں اپنی والدہ کے ہاتھوں سہنی پڑیں۔
آج کا یادگاری لکچر حمزہ واحد کے نام ہے اور ہمیں جاننا چاہیے کہ فزکس کی اس پروفیسر کو ابتدائی دنوں میں تعلیم حاصل کرنے پر کوئی بندش نہیں تھی لیکن ان کی والدہ جو ایک سخت گیر مذہبی خاتون تھیں ان کے لیے بیٹی کی سماجی اور سیاسی سرگرمیاں ناقابل برداشت تھیں ۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے گھر کے ماحول میں تناؤ تھا ۔ ایک ایسی فضاء میں حمزہ پلی بڑھیں ۔ ان کے ضمیر نے انھیں انصاف ، صنفی مساوات ، انسانی حقوق اور سماجی شعور کے لیے ہمیشہ کام کرنا سکھایا ۔ وہ مزدوروں کے حقوق کے لیے نوجوانی سے سینہ سپر رہیں اور انھوں نے آخری سانس بھی ایک مزدور بستی میں لی ۔
وہ فزکس کی پروفیسر تھیں ، شادی انہو ںنے مزدور لیڈر اور عامل صحافی سے کی ۔ شوہر جیل جاتا تو وہ اس کی رہائی کے لیے جلوس نکالتیں ، ایک ایسے زمانے میں لاٹھیاں کھاتیں جب وہ ماں بننے والی تھیں ۔ حمزہ اس ملک کے ابتدائی دنوں کی وہ ہیروئن تھیں جو سماج کو بدلنے کے خواب دیکھتی تھی ۔ وہ ہیروئن ہم سے بچھڑ گئی ، افسوس کہ اب دور دور تک ایسی بے غرض استاد ، صنفی مساوات اور انسانی حقوق کا ادراک رکھنے والی انسان سے ہماری ملاقات نہیں ہوتی ۔
ارتقاء انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز سالہا سال سے ’’حمزہ واحد یادگاری لیکچر ‘‘کا اہتمام کرتی ہے ۔ اس مرتبہ ہم نے ابھی ڈاکٹر ناظر محمود سے ’’تعلیم اور معیشت‘‘ کے موضوع پر ایک عالمانہ مقالہ سنا ہے جس میں انھوں نے تعلیم ، معیشت اور معاش کے فرق پر گفتگو کی اور یہ بتایا ہے کہ انفرادی معاش کا سماجی و عالمی معیشت سے کیا تعلق ہے اور تعلیم معیشت پر اور معیشت تعلیم پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے ۔
انھوں نے یہ بات بھی واضح کی ہے کہ جب انسان نے علم کو تحریری شکل دینی شروع کی تو اس وقت سے ہی اس بات کا تعین ہونے لگا کہ تعلیم یا حصول علم فوری معاشی فائدے کے لیے نہیں ہے ۔ ڈاکٹر ناظر محمود نے گزشتہ کئی ہزار برس کے دوران حصولِ علم اور اس کے معیشت سے رشتے پر تفصیلی نظر ڈالی ہے ۔
اس عالمانہ گفتگو کے دوران مجھے بیسویں صدی کے نصف آخر میں ہمارے سامنے آنے والے کوفی عنان اور نیلسن منڈیلا یاد آئے ۔ افریقا کے ایک پسماندہ ملک گھانا میں پیدا ہونے والے کوفی عنان اثر پذیری اور شہرت کی بلندیوں کو پہنچے ، دس برس تک اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل رہے ، انھوں نے نوبل امن انعام حاصل کیا اور تعلیم کو وہ بہ طور خاص پسماندہ ملکوں کی تقدیر بدلنے کا سبب سمجھتے تھے ۔ وہ اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ ہم جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ، وہ مختلف مذاہب ، مختلف زبانوں اور مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھتے ہیں ، اس کے باوجود ہم سب ایک ہی نسل انسانی کے لوگ ہیں ۔
کوفی عنان کی طرح یہ نیلسن منڈیلا تھے جنہوں نے نوبل امن انعام کی جلیل القدر تقریب میں کہا تھا
’’ ہم یہاں جنگ اور امن ، تشدد اور عدم تشدد ، نسلی منافرت اور احترام آدمیت ، جبر اور مجبوری ، آزادی اور انسانی حقوق ، افلاس اور طلب سے آزادی کو چیلنج کررہے ہیں ۔
اس مقام پر ہماری حیثیت اپنے ملک کے اُن لاکھوں افراد کے نمائندوں سے کچھ زیادہ نہیں جنہو ں نے ہمت کرکے اُس سماجی نظام کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا ، جنگ ، تشدد ، نسلی منافرت ، ظلم و ستم ، جبر و تعدی اور عوام کا افلاس جس کا نچوڑ ہے ۔
منڈیلا نے کہا تھا کہ میں یہاں نمائندگی کررہا ہوں کرۂ ارض کے ان کروڑوں افراد کی ، نسلی عدم امتیاز کی تحریکوں ، حکومتوں اور اداروں کی جنہوں نے ہمارا ہاتھ بٹایا ہے ، ملک کی حیثیت میں جنوبی افریقا اور اس کے عوام سے لڑنے کے لیے نہیں ، بلکہ ایک غیر انسانی نظام کی مخالفت کرنے اور انسانیت کے خلاف نسلی امتیاز کے جرم کو ختم کرنے کے لیے ۔
یہ بے شمار افراد ، ہمارے ملک کے اندر بھی اور باہر بھی ، جن میں روحانی شرافت تھی ، بغیر کسی ذاتی منفعت کی طلب کے ، استبداد اور نا انصافی کی راہ میں ڈٹ گئے ۔ انھیں احساس ہوگیا تھا کہ کسی ایک فرد کو زخم لگانا سب کو زخمی کرنے کے مترادف ہے اور وہ انصاف اور عام انسانی نفاست کے دفاع کے لیے متحد ہوکر کمر بستہ ہوگئے ۔
ان کی ہمت اور ثابت قدمی ہی تھی جس کی بنا پر ہم ، آج ، تاریخ کا تعین بھی کرسکتے ہیں جب تمام انسانیت متحد ہوکر ہماری صدی میں ہونے والی انسانیت کی تاریخ کی سب سے نمایاں فتح کا جشن منائے گی ۔
جب وہ لمحہ آئے گا ، ہم سب ، ایک ساتھ مل کر نسلی منافرت پر ، نسلی امتیاز پر اور اقلیت کی حکومت پر باہمی فتح کی خوشی منائیں گے۔
وہ فتح بالآخر پانچ سو برس قدیم افریقی نو آبادی کی تاریخ کو دفن کردے گی ، پرتگالی سلطنت کے قیام کے ساتھ جس کی ابتدا ہوئی تھی ۔ اس طرح تاریخ میں ایک بڑا قدم اٹھایا جائے گا ،دنیا کے عوام کی خدمت کے لیے اور نسلی منافرت سے جنگ کرنے کے لیے ، وہ جہاں بھی ہو اور جس بھیس میں بھی ہو ۔
افریقی براعظم کے بالکل جنوبی سرے پر ان لوگوں کے نام پر ایک قیمتی یادگار تعمیر کی جارہی ہے جنھیں تمام انسانیت کے نام پر دُکھ اٹھانے پڑے تھے ، جب آزادی کے لیے ، امن کے لیے ، انسانی وقار کے لیے ، انسان کی تکمیل کے لیے انھوں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا۔
اس صلے کو سکّوں میں نہیں تولا جاسکتا ۔ نہ ان کا حساب کیا جاسکتا ہے ان تمام کمیاب دھاتوں اور قیمتی پتھروں کی قیمت سے ، جو افریقا کی دھرتی کے بطن میں پوشیدہ ہیں ، جن پر ہم اپنی پیش رو نسلوں کے نقوشِ قدم پر چلتے پھرتے رہتے ہیں ۔ اس کو ناپا جانا چاہیے خوشیوں اور بہبود سے ان بچوں کی ، ان باشندوں کی جو کبھی خطرے میں تھے کسی سوسائٹی میں اور ہمارے بیش بہا خزانوں میں ۔ بچوں کو بالآخر جنوبی افریقا کے کھلے میدانوں میں کھیلنا چاہیے ، جنھیں نہ بھوک کا درد ستاتا ہو نہ بیماریاں ان کو پامال کرتی ہوں ، نہ انھیں لا علمی کے، ایذار سانی کے اور بدسلوکی کے تازیانے لگتے ہوں، اور نہ انھیں ایسے کام کرنے پڑتے ہوں جن کے بوجھ ان کے معصوم و نازک جسم اٹھانے کے قابل نہ ہوں ۔
یہ منڈیلا تھے جنہوں نے ہمیں یاد دلایا تھا کہ اس کائناتِ اصغر کو ایک جمہوری دنیا ہونا چاہیے جس میں احترام انسانیت ہو ، جو افلاس کی ہولناکی ، بھوک سے ، محرومیوں اور جہالت سے پاک ہو ، جس میں خانہ جنگیوں اور بیرونی جارحیت کا عذاب نہ ہو ، جو لاکھوں افراد کو ہجرتوں کی صعوبتوں پر مجبور نہ کریں ۔
آج ہم جس صورت حال سے دوچار ہیں اس میں ہمیں علم و دانش کی ، امن کی اور انصاف کی جتنی ضرورت ہے ، شاید کبھی نہیں تھی ۔ آج ہمیں حمزہ ایسی بے غرض اور منصف مزاج استادوں کی ضرورت ہے جو سائنس پڑھاتے ہوئے ہمارے بچوں کے دلوں کو درد مندی سے بھردیں اور ان کے سینے سے نفرت دھودیں ، انھوں یہ بتائیں کہ نفرت سے دنیا کے دکھ بڑھ جاتے ہیں ۔
تعلیم وہ بنیاد ہے جس پر کسی بھی سماج کی عمارت استوار ہوتی ہے اور اس کی حیثیت بنیادی انسانی حقوق کی ہے۔ بنیادی انسانی حق کا حصول کسی بھی پسماندہ سماج کو سیاسی ، سماجی ، تہذیبی اور معاشی فواید سے ہم کنار کرتا ہے ۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب اقوام متحدہ کے رکن 192ممالک اور دوسری بین الاقوامی تنظیموں نے 2015 میں دنیا کے تمام ملکوں کو 8اہداف مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی ۔ افسوس کہ ہم پاکستان میں ان اہداف کو حاصل کرنے کا وعدہ کرنے کے باوجود انھیں پورا نہ کرسکے ۔ اس میں سراسر ذمے داری ہماری حکومتوں کی تھی جن کی ترجیحات تعلیم اور ترقی کے دوسرے نکات کی بجائے ہتھیاروں کی تیاری اور ان کے ڈھیر لگانا تھا ۔ کوفی عنان نے کہا تھا کہ تحمل ، رواداری ، ایک دوسرے کے ساتھ مکالمے کی میز پر روبرو ہونا اور ایک دوسرے سے اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنا ہماری بنیادی ذمے داری ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ تعلیم کا دوسرا نام امن کی تعمیر ہے ۔
ایک تعلیم یافتہ اور علم و ہنر سے آراستہ قوم سے زیادہ طاقتور کوئی اور نہیں ہوتا ۔
(ارتقا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے لیے لکھا گیا)
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ