سندھ کی خاک میں سوتے ہوئے انھیں 198 برس ہوگئے۔ وہ درازا کے حافظ شیرازی کہلائے۔ ایک باغی شاعر جسے آٹھ دس برس کی عمر میں شاہ لطیف نے دیکھا تو اپنا جانشین قرار دیا تھا۔ برملا یہ کہاکہ ان کے مقصد کی تکمیل یہ جوان کرے گا۔ میں نے جس دیگ کو ابلنے کے لیے آگ پر چڑھایا اور جو کُھد بُد کرتی ہے ، اس کا ڈھکن یہ نوجوان کھولے گا۔
اکیسویں صدی کے ایک شاندار شاعر آغا سلیم نے سچل کا نقشہ ان لفظوں میں کھینچا ہے کہ میانہ قد، صاف رنگ، خوبصورت گلابی آنکھیں، لمبے بال، سرپر سفید کپڑے کی ٹوپی جس کو درویشوں کے محاورے میں ’’تاج‘‘ کہا جاتا ہے، پیروں میں سندھی جوتی اور ہاتھوں میں عصا۔ سارا دن ورد اور وظائف میں مصروف رہتے۔ ڈھولک پر تھاپ پڑتی اور سارنگی کے سُر سسکتے تو بے تاب ہوجاتے۔ آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی۔ کبھی کبھی تو عجیب طرح کی بیتابی سے اٹھ کھڑے ہوتے، جھومتے، صوفیوں والا رقص خرام کرتے اور گاتے:
جو دل پی لے عشق کا جام، وہ دل مست و مست مدام
عشق کی سرشاری اور سرمستی میں گویا ساری کائنات ملیا میٹ ہوجاتی اور صرف سچ باقی رہتا جو سراپا سرمستی ہوتا۔ یہ سچ سچل کی ذات ہوتی جو ازلی اور ابدی سچ میں مدغم ہوجاتی اور سچل کی آواز گونجتی:
میں تو ہوں اسرار، سکھی ری، تو کیا جانے بھید!
وہ ایک ایسے زمانے میں پیدا ہوئے جب سندھ میں کلہوڑا اور تالپور حکمرانوں کی چپقلش اپنے عروج پر تھی۔ انھوں نے اپنے ارد گرد مذہبی انتہا پسندی کی سپتی دیکھی اور بے اختیار یہ کہا کہ فرقوںنے لوگوں کو مایوس کیا اور پیری مریدی نے انھیں بھول بھلیوں میں دھکیل دیا۔ وہ ’’سچو‘‘ اور ’’سچل‘‘ کہلائے ۔انھیں ’’ہفت زبان‘‘ اور ‘‘سرتاج الشعرا‘‘ کہا گیا۔ ان کے کلام کو گانے والے فقیر اس وقت ان کا کام گاتے ہیں جب سماج میں کٹر پن اور تعصبات اپنے عروج پر ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ انھیں سولی کی سزا سنائی گئی تھی لیکن ان کی مقبولیت اور تالپور حکمرانوں کی سرپرستی کے سبب اس سزا پر عمل ممکن نہ ہوسکا۔
وہ اپنے زمانے سے سو دو سو برس پہلے پیدا ہوئے اور لاطبقاتی سماج پر ایمان رکھتے تھے۔ اجوانی صاحب نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک ہندو عامل جسے تالپوروں نے قید کررکھا تھا، اسے آزاد کرانے کے لیے سچل سر مست کسی شیر کی طرح جلالی انداز کے ساتھ اس کے قید خانے میں چلے گئے اور اسے وہاں سے آزاد کرالائے۔ سچل کے بعض مریدوں کا کہنا ہے کہ جب انھوںنے اس ہندو عامل کی کوٹھری میں قدم رکھا تو وہ محافظوں کو شیر کی صورت نظر آئے تھے، اسی لیے کسی کہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ ان کے قریب جاتا اور قیدی کی آزادی کی راہ میں مزاحم ہوتا۔
وہ لوگ جنہوں نے ان کی زیارت کی ہے، وہ بتاتے ہیں کہ وہ ہر وقت مست رہتے، گنگناتے رہتے اور ان کے لبوں سے جو کلمات ادا ہوتے انھیں سچل کے مرید لکھ لیتے اور اس طرح ان کا بہت سا کلام اکٹھا ہوا۔ ان کا کلام پڑھتے ہوئے ہمیں گیتا اور اپنشد کا خیال آتا ہے۔ ان کے سب سے اہم مفسر جیٹھ مل پرس رام کا کہنا ہے کہ سچل یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ میں کسی سے پیدا نہیں ہو ا اور نہ میری کسی نے پرورش کی۔
آغا سلیم سندھ دھرتی کے ایک بڑے شاعر ہیں، انھوں نے سچل کو داد یوںدی:
تصوف ایک ایسا مسلک ہے کہ جو انسان کو اپنے آپ سے ماورا کردیتا ہے اور انسان اس مقام پر جینے لگتا ہے جہاں ذات، نسل، علاقائیت، سماجی اونچ نیچ یہاں تک کہ میں اور تُوکے فاصلے بھی مٹ جاتے ہیں، ابن العربی نے اس مقام پر پہنچ کر کہا تھا:
آج سے پہلے میرا حال یہ تھا کہ جو بھی آدمی میرے دین کو نہیں مانتا تھا میں اس کا انکار کرتا تھا، اسے غیر سمجھتا تھا…لیکن میرا دل اب ہر صورت کو قبول کرلیتا ہے…میرا دل ہر نوں کی چراگاہ ہے۔…عیسائی تارکوں کا عبادت خانہ ہے۔…آتش پرستوں کا آتش کدہ ہے…حاجیوں کا کعبہ، توریت کے الواح، قرآن کا صحیفہ ہے…عشق کا قافلہ مجھے جہاں چاہے لے جائے…میرا دین بھی عشق اور ایمان بھی عشق ہے۔
سندھ کے صوفی شعرا نے بھی اس طرح خود سے ماورا ہوکر ایسی شاعر کی ہے جس میں انسانی محبت جھلکتی ہے۔ انسان اور جانداروں سے محبت ہی ان کی روحانیت ہے۔ ان کی روحانیت کا حوالہ آسمان اور عرش بریں نہیں بلکہ یہ دھرتی ہے۔ اور اللہ کا حوالہ دھرتی کے دھتکارے ہوئے وہ مفلس اور نادارا انسان ہیں کہ جن کی زندگی انسانی رتبے کے وقار کی توہین اور تذلیل ہے۔ وہ مچھیرے ہیں جو نوری جام تماچی لوک داستان کے منظر نامے میں بدبو کی بستی میں بستے ہیں جو بد صورت،بد ہیئت اور بدبودار ہیں۔ تھر کے وہ صحرائی ہیں جن کی زندگی پیاس سے چٹخی ہوئی ہے اور جو بارش کی آس میں اپنی پیاسی اور ملتجی نگاہیں اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جہاں سورج ان پر آگ برساتا ہے لیکن ایسے منظر نامے میں ہم سندھ کے حکمران جام تماچی کو مچھیروں کی اس بدبوار بستی میں داخل ہوکر ان پر رحمتیں برساتا دیکھتے ہیں۔ یہ وہ جام تماچی ہے جس کے متعلق شاہ عبداللطیف بھٹائی کہتے ہیں کہ
جنم لیا نہ جام نے، نہ ہی جنم دیا
اونچی نیچی ذات نہ دیکھی، سب کو اپنایا
لم یلد و لم یو لد، اس کا وصف ہے ایسا
کبر کبریا، تخت تماچی جام کا
تھر کی جہنم کی طرح جلتی ہوئی ریت پر بادل گھر آتے ہیں اور ایسی بارش ہوتی ہے کہ ریت کی طرح جلتی ہوئی، صحرائیوں کی زندگی جل تھل ہوجاتی ہے اور سچل سر مست بارش میں تھر اور تھر کے باسیوں کے لیے کہتے ہیں:
گھر کر کالے بادل آئے،پورب سے اے یار!
گھن گھن گرج رہا ہے بادل، بجلی کی چمکار
جھوم اٹھے سنگھار، مولا کی اب مہر ہوئی ہے
قحط کی حالت ختم ہوئی ہے، بادل کی یلغار
برکھارت میں جل تھل سارا، صحرا ہے گلزار
کرم تیرا ستّار، کہ مسکاتا ہے صحرا
انسان تو انسان سچل سر مست کا دل تو روجھوں (ایک قسم کا ہرن) کی پیاس کی حالت دیکھ کے روتا ہے اور برکھا رت میں بارش سے ان کی پیاس بجھتی ہے تو ان کا دل کھل اٹھتا ہے۔
آغا سلیم نے سچل سرمست کی شاعری کا منظوم ترجمہ خوب کیا ہے اور اسے ’’سچل، سچ ہے سارا‘‘ کا نام دیا ہے۔ کچھ دنوں پہلے سندھی کا یہ من موہنا شاعر ہم سے رخصت ہوا، اس رخصت سے پہلے انھوں نے ہمیں شاہ عبداللطیف بھٹائی کا دیوان اور سچل سرمست کے کلام کا اردو ترجمہ تحفے میں دیا۔
سچل سرمست امید میں زندہ رہنے والے شاعر ہیں، سندھ کا صوفی شاعر ہجر کی تاریک رات میں رہتے ہوئے وصل کی صبح کی امید میں جیتا ہے اور سندھی صوفی شاعروں کو پڑھ کر یہی کہاجاسکتا ہے کہ صوفی اور انقلابی کبھی بھی مایوس نہیں ہوتا۔ وہ آنے والے کل کا فرزند ہوتا ہے اوراسی کل میں جیتا ہے، انقلابی اس امید میں جیتا ہے کہ جب دھرتی کے سارے دکھ دھل جائیں گے اور دکھی انسانوں کے لبوں پر مسکراہٹوں کی پوپھٹے گی اور صوفی کہتا ہے کہ ہجر تو پل بھر کا ہے پھر تو وصل ہی وصل ہے۔ یہ باتیں کرنے والا اور ان باتوں سے مست ہونے والا درازاشریف میں سوتا ہے اور سندھ کے سینے میں امیدیں جاگتی ہیں، سرسبز دنوں کی اور مہربان راتوں کی امیدیں۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ