پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے رسالے آہنگ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ریڈیو پاکستان ملتان سے بہت جلد بلوچی سروس شروع کی جا رہی ہے۔ جو کہ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان کی کاوشوں کا نتیجہ ہے اور وزیر اعلیٰ ہی بلوچی سروس کا افتتاح کریں گے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلوچی سروس میں روڑن (روشنی) ادنیک (آئینہ) گچیں (انتخاب) گندء نند (روبرو) مرچگیں مہمان (آج کا مہمان) کھڑوکشار (کھیتی باڑی) سنج (دھنک) اور مستاگ (سوغات)سروس کے ناموں سے پروگرام نشر ہوں گے، رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بلوچی سروس وزیر اعظم عمران خان کے وڑن کے مطابق شروع کی جارہی ہے، جس کا مطلب دور افتادہ علاقوں کو ترقی اور نشریاتی سہولتیں مہیا کرنا ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈی جی خان سے ملحقہ تمن بزدار، تمن لغاری، تمن ل±نڈ اور تمن کھوسہ وغیرہ کے افراد سرائیکی اور بلوچی زبان بولتے ہیں، رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اہل قلم نے بہت سراہا ہے، افتتاحی تقریب میں وفاقی وزیر چودھری فواد حسین اور ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان شفقت جلیل کی شرکت متوقع ہے۔
ملتان سے بلوچی سروس کسی بھی لحاظ سے درست نہیں، ریڈیو پاکستان کا اپنا قانون اور قاعدہ ہے جس کے مطابق ہر ریجنل جنرل اسٹیشن خطے کی مقامی زبان میں پروگرام نشر کرتا ہے، ملتان ریجن سے ریڈیو پاکستان ملتان قریباً نصف صدی سے اردو ، سرائیکی پروگرام دیتا آرہا ہے جبکہ بلوچستان کے اسٹیشن اردو کے ساتھ مقامی زبانوں میں بھی نشریات دیتے ہیں ریڈیو پاکستان کے قواعد و ضوابط میں تبدیلی کرکے ملتان سے بلوچی سروس اگر شروع کرنی ہے تو پھر ریڈیو پاکستان کوئٹہ، خضدار اور سبی سے سرائیکی سروس پہلے شروع کی جائے کہ وہاں کی کثیر سرائیکی آبادی صدیوں سے وہاں کی مقامی آبادی ہے اور یہ لوگ ا±س وقت سے آج کے بلوچستان میں آباد ہیں جب بلوچستان نام کا کوئی خطہ یہاں موجود نہ تھا اور اس وقت سے جب بلوچ قبائل نے ایران اور عراق سے نقل مکانی نہیں کی تھی اگر یہ وزیر اعظم کا وڑن ہے اور اس سے قومی یکجہتی میں اضافہ ہو گا تو پھر وزیر اعظم کے وڑن کو بلوچستان کی سرائیکی آبادی کو بھی حق دینا چاہئے یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جو چیز خود کیلئے مانگتے ہیں دوسروں کو دینے کیلئے تیار نہیں، سردار عثمان خان بزدار کے پاس مینڈیٹ سرائیکی خطے کا ہے، سرائیکی خطے کی وجہ سے ہی وہ وزیر اعلیٰ بنے ہیں لیکن عجب بات ہے کہ وہ اپنے سرائیکی مینڈیٹ کو پامال کر کے بات بلوچی کی کرتے ہیں۔ رپورٹ میں بالکل غلط لکھا گیا ہے کہ جنوبی پنجاب کے اہل قلم شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں نے بلوچی سروس کے اجراءکا خیر مقدم کیا ہے۔ بلوچستان یا بلوچی زبان سے نفرت نہیں یہ بھی ہمارے پاکستان کی زبان ہے لیکن بات اصول کی ہے سرائیکی وسیب کی حق تلفی نہیں ہونی چاہئے اگر سردار عثمان بزدار یا وزیر اعظم عمران خان کو بلوچی سے ہمدردی ہے تو ریڈیو پاکستان لاڑکانہ اور ریڈیو پاکستان خیر پور سے بلوچی سروس شروع کرائیں کہ ان ریڈیو اسٹیشنز کی رینج میں بلوچستان کے بہت سے علاقے آتے ہیں ہم تو کہتے ہیں کہ بلوچی زبان کو ترقی ملنی چاہئے ویسے بھی وہ پاکستان کی خوش قسمت زبان ہے کہ سب سے قلیل ہونے کے باوجود ا±س کا ٹیلی ویڑن اسٹیشن بولان صرف بلوچی زبان میں پروگرام دیتا ہے ہم تو کہتے ہیں کہ ایک تو کیا دو چار نئے اسٹیشن دے دیں لیکن ملتان پر بوجھ نہ بڑھائیں کہ ریڈیو کا ڈرامہ میوزک اور دوسرے اہم پروگرام فنذ نہ ہونے سے بند ہیں اور فنکار فاقوں سے مر رہے ہیں۔
میں اپنی بات کو پھر دہراتا ہوں کہ قومی اسمبلی سے منظور شدہ پالیسی کے تحت ہر ریجنل اسٹیشن مقامی زبان میں پروگرام کرتا ہے، پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی ذاتی خواہش پر پنجاب براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی قومی پالیسی اور اصول و ضوابط کو بلڈوز کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ ریڈیو ملتان کے اسٹیشن ڈائریکٹر متنازعہ قدم اٹھانے سے باز رہیں ، اگر ریڈیو ملتان نے ریڈیو پاکستان کی منظور شدہ پالیسی کے بر عکس قدم اٹھایا تو وسیب میں احتجاج ہو گا یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ کوہ سلیمان پر بزدار قبیلہ اور دوسرے ایسے قبائل ہیں جو بلوچی اور سرائیکی بولتے اور سمجھتے ہیں ، جبکہ بلوچستان میں ڈیرہ مراد جمالی ،بارکھان اور موسیٰ خیل، کوئٹہ ، سبی اور نصیر آباد میں زمانہ قدیم سے بلوچوں کی آمد سے بھی پہلے آباد ہیں۔ وہاں ان کے لئے کوئٹہ ، خضدار اور دوسرے اسٹیشنوں سے پروگرام نشر کیوں نہیں کئے جاتے ؟ اگر ریڈیو کے ارباب اختیار کو بلوچی میں پروگرام شروع کرنے کا شوق ہے تو لاڑکانہ اور خیر پور سندھ سے نشر کیوں نہیں کرائے جاتے؟ وسیب کو کمزور سمجھ کر ان کے حقوق پر ڈاکہ نہ ڈالا جائے ملتان سے بلوچی سروس کے اجراءپر سرائیکی قوم پرستوں کا یہ رد عمل بجا اور درست ہے کہ سرائیکی زبان و ادب کی اتنی حق تلفیاں ہوئی ہیں کہ لوگ حساس ہو گئے ہیں اس کا تقاضہ ہے کہ طارق چیمہ کی طرح عثمان بزدار ایسے اقدامات سے اجتناب کریں ، جس سے تنازعات کھڑے ہوں اور لسانی منافرت کو فروغ حاصل ہو۔وسیب کے لوگوں سے حق تلفیوں کے ازالے اور صوبے کے نام پر ووٹ لئے گئے مگر ہر آئے روز ایسے تنازعات کو جنم دیا جا رہا ہے جس سے صوبے کی منزل دور ہوتی جا رہی ہے۔
وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے وزیر اعلیٰ بننے سے سرائیکی وسیب میں خوشی کا اظہار کیا گیا تھا اور لوگوں کو امید تھی کہ وہ اپنے وسیب کیلئے بہت کچھ کریں گے، دوسرے ترقیاتی کاموں کے علاوہ سرائیکی زبان و ادب کی ترقی کیلئے اقدامات کریں گے، ادارے قائم ہوں گے، سرائیکی شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کی حوصلہ افزائی ہو گی، مگر سردار صاحب سرائیکی کو نظر انداز کرکے سرائیکی وسیب میں بلوچی سروس شروع کروانا چاہتے ہیں، مجھے حیرانی ہوئی کہ ڈیرہ غازیخان کی ڈویڑنل انتظامیہ کے پاس وزیرا عظم سیکرٹریٹ سے ہدایات آئی ہیں کہ ثقافتی سرگرمیاں سرائیکی کے ساتھ بلوچی میں بھی ہونی چاہئیں اور ڈی جی خان آرٹس کونسل میں اس طرح کے پروگرام بھی کرائے گئے ہیں، وزیر اعلیٰ اگر اپنے مینڈیٹ کے مطابق سرائیکی وسیب سے سوتیلی ماں کا سلوک کریں گے تو ا±ن کا شمار محمد علی درانی اور طارق بشیر چیمہ جیسے افراد میں ہو گا اور وہ وسیب کی محبتوں سے محروم ہو جائیں گے، جہاں تک سرائیکی وسیب اور ا±س کے کروڑوں افراد کی بات ہے تو وہ رنجیت سنگھ اور انگریز سامراج کے ساتھ ساتھ وسیب کے سرداروں، جاگیرداروں اور تمنداروں کے ساتھ ساتھ دوسرے وسیب مخالف حکمرانوں کو بھگتتے آرہے ہیں ان کا عرصہ اقتدار بھی گزر جائے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ