وزیراعلیٰ ایک روزہ دورے پر آج 29 جنوری کو ملتان آ رہے ہیں۔ وہ ملتان میں ملتان پولیس ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں پاسنگ آﺅٹ تقریب سے خطاب کریں گے۔ وزیراعلیٰ صاحب! وسیب کا سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری ہے۔ سرائیکی وسیب کے غریب اور مزدور دوہرے ظلم کا شکار ہیں۔ ایک ظلم یہ ہے کہ حکمرانوں نے ترقی کا معاشی ڈھانچہ اس طرح بنایا ہوا ہے کہ ترق یافتہ علاقے مزید ترقی کرتے جائیں اور پسماندہ علاقے مزید پسماندہ ہو کر بیگار کیمپ کی شکل اختیار کر جائیں۔ لوگ غربت اور پسماندگی کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ سرائیکی وسیب میں ٹیکس فری انڈسٹریل زون بنانے کی ضرورت ہے۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ سرائیکی وسیب میں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ گندم کے کھلے عام گودام بھرے ہیں ‘ مگر پیٹ کیوں خالی ہیں؟ سرائیکی وسیب وہ خطہ ہے کہ صرف ملک کے چاروں صوبے ہی نہیں بلکہ ہمسایہ ممالک کی بھی غذائی ضروریات پوری کرتا ہے۔ یہ خطہ دریاﺅں کی سرزمین ہے۔ اس خطے میں کسی چیز کی کوئی کمی نہیںلیکن یہ سب کچھ کہاں جا رہا ہے ؟ یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کہ وسیب کے لوگوں کا اپنا صوبہ نہیں ، اپنا اختیار نہیں اور وسیب کے جو لوگ اسمبلیوں میں جا رہے ہیں چاہے وہ جاگیردار ہوں یا وہ آباد کار اقتدار کے مراکز کے غلام بنے ہوئے ہیں۔ یہ ووٹ لینے کے بعد سب کچھ بھول جاتے ہیں ، یہ بولتے تک نہیں ، جب یہ بولیں گے نہیں تو کس طرح وسیب کے لوگوں کو حقوق ملیں گے۔
وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی ملتان آمد کے موقع پر وسیب اور ملتان کے مسائل کا تذکرہ کریں تو سب سے بڑا مسئلہ صوبے کا قیام ہے۔ وسیب کے مسئلے سب سول سیکرٹریٹ سے کسی بھی لحاظ سے حل نہیں ہونگے۔ ضروری ہے کہ جس طرح صوبے تہذیبی ، ثقافتی اور جغرافیائی شناخت پر ہیں ، اسی طرح نیاصوبہ ضروری ہے۔ ملتان بگ سٹی کافی عرصے سے منظور ہے ، وزیر اعلیٰ اپنی آمد پر بگ سٹی کا تحفہ ضرور دیں۔ دوسرے مسائل کے سلسلے میں چند قراردادیں حاضر خدمت ہیں جو کہ گزشتہ روز ملتان میں سید اختر گیلانی کی کتاب ” وسیب کی آواز “ کی تقریب رونمائی کے موقع پر پاس کی گئیں: ٭وسیب میں موٹرویز اور کھیت سے منڈی تک سڑکیں بنائی جائیں اور صحت کی سہولتیں مہیا کرنے کیلئے نئے ہسپتال بنائے جائیں۔ ٭ سرائیکی وسیب میں بیروزگاری کے خاتمے اور صنعتی ترقی کیلئے ٹیکس فری انڈسٹریل زون بنائے جائیں۔ ٭انٹری ٹیسٹ جیسا متنازعہ سسٹم ختم کر کے میڈیکل و انجینئرنگ کے داخلوں کیلئے اوپن میرٹ کو بحال کیا جائے۔ ٭ سرائیکی زبان کے فروغ کیلئے اسی طرح کا ادارہ قائم کیا جائے جیسا کہ سندھی ادبی بورڈ سندھیالوجی اور پنجابی کمپلیکس کے نام سے لاہور میں موجود ہے۔ ٭ملتان، بہاولپور‘ سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان آرٹس کونسلوں کا بجٹ لاہور آرٹس کونسل کے برابر کیا جائے اور رحیم یارخان، میانوالی، جھنگ، بہاولنگر اور مظفر گڑھ میں آرٹس کونسلیں قائم کی جائیں۔ ٭ انجینئرنگ یونیورسٹی ملتان اور غازی یونیورسٹی ڈی جی خان کو مکمل طور پر فنکشنل کیا جائے ، کیڈٹ کالج ڈی جی خان ‘ ملتان ، بہاولنگر، جھنگ، تونسہ و خانپور کی تعمیر شروع کی جائے۔ ٭ ملتان ، میانوالی روڈ براستہ ڈیرہ اسماعیل خان کو موٹر وے کا درجہ دیا جائے اور مظفر گڑھ علی پور روڈ کی فوری تعمیر کر کے کھولا جائے۔ ٭عرب شیوخ کو سرائیکی وسیب میں لاکھوں ایکڑ رقبے فارمنگ اور شکار کے نام پر دیے گئے فوری منسوخ کئے جائیں اور وہ تمام رقبے اس دھرتی کے اس وار ثوں کو دئیے جائیں۔ ٭جھنگ میں سلطان باہو یونیورسٹی ، پاکپتن میں بابا فرید یونیورسٹی اور کوٹ مٹھن میں خواجہ فرید یونیورسٹی بنائی جائے۔ ٭وسیب کے ہر کالج میں سرائیکی کے لیے سرائیکی لیکچرر کی اسامیاں دی جائیں۔میٹرک میں سرائیکی پڑھانے کیلئے وسیب کے ہر سکول میں اساتذہ کی کم از کم دو دو اسامیاں دی جائیں۔ ٭وسیب کے تمام علاقوں میں بچوں کو ابتدائی تعلیم سرائیکی میں دیکر اقوام کی ہدایات پر عمل کیا جائے۔ ٭زکریا یونیوورسٹی کا ڈپیارنمنٹ اور اس کی بلڈنگ برسوں کی عدالتی جووجہد کے بعد قائم ہوئی۔ سرائیکی ڈیپارٹمنٹ میں پہلے دن سے دوسرے ڈیپارٹمنٹ بھی شروع کیے گئے ہیںاور گورنر جو چانسلر بھی ہیں اس کا فوری نوٹس لیں اور بہاولپور میں خواجہ فرید چیئر فنکشنل کرائیں۔ ٭ جتنا رقبہ اسلام آباد کے متاثرین کووسیب کے علاقہ جات ملتان اور خانیوال میں دیا گیا اتنا رقبہ وسیب کے غریب متاثرین کو پنڈی میں دیا جائے۔ ٭وسیب کو کپاس ، گندم ، آم اور دوسری اجناس کے ساتھ یورینیم کی رائلٹی دی جائے اور زرعی آلات کھاد، بیج اور زرعی ادویات پر سبسڈی دی جائے۔ ٭وسیب میں ناجائز الاٹمنٹس منسوخ کر کے ان کو اپنے گھروں کے قریب زمینیں الاٹ کی جائیں اور خالی ہونیوالی زمین سرائیکی وسیب کے بے زمین کاشتکاروں کو دی جائے اور فصلوں کی انشورنس کی جائے۔ ٭ وسیب کی طرف سے مطالبہ ہے کہ وسیب اور قوم کو تقسیم کرنے کے ایجنڈے پر کام بند کیا جائے اور صوبہ وسیب کی شناخت کے مطابق ہو۔ ٭ وزارت اطلاعات و ثقافت سرائیکی شاعروں ، ادیبوں ، دانشوروں اور فنکاروں کا فنڈ الگ مختص کرے اور اس کا اختیار ہر ضلعے کے ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر کو دیا جائے۔
(بشکریہ:روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ