گورنر چودھری محمد سرور کو درخواست سے پہلے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ کالموں میں میں نے چولستان ڈیزارٹ ریلی اور چولستان کے مسائل کا ذکر کیا جسے چولستان کے دوستوں نے پسند کیا اور کہا کہ پندرہ سال قبل جس مقصد کیلئے چولستان ریلی شروع کی گئی تھی نہ صرف یہ کہ وہ مقاصد پورے نہیں ہوئے بلکہ مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی کے مصداق چولستان کے مسائل بڑھ چکے ہیں۔ آج بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ چولستان ریلی کے موقع پر چولستان میں ایسی کانفرنسیں، سیمینارز، سمپوزیم منعقد کئے جائیں، جس سے چولستان میں تعلیم، صحت اور روزگار کے ساتھ ساتھ پینے کے پانی کے مسائل اور ان کے حل کیلئے سفارشات پیش ہوں مزید یہ کہ حل چولستان کی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ وہاں کے آثار پر تحقیقی مقالے پیش ہوں اگر محکمہ سیاحت اور حکومت پنجاب ایسا کرنے سے ناکام رہتی ہے تو پھر پاکستانی شہزادوں کی عیاشی کیلئے چولستان کا انتخاب درست نہیں، میری وزیرا علیٰ کے ساتھ گورنر صاحب سے بھی گزارش ہے کہ وہ اس مسئلے پر ضرور توجہ دیں۔ اب میں اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں کہ وسیب میں نئی یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ سرائیکی تعلیم پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ صوبے کی تمام یونیورسٹیاں گورنر کے دائرہ اختیار میں آتی ہیں۔ بلحاظ عہدہ وہ تمام یونیورسٹیوں کے چانسلر ہیں۔ سرائیکی وسیب ایسا خطہ ہے جہاں آبادی کے لحاظ سے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعداد بہت کم ہے اور جو چند ایک یونیورسٹیاں ہیں ان کی حالت بھی قابلِ رشک نہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہدایت پر سابق گورنر جنرل ٹکا خان نے 1989ءمیں بہاﺅ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کے اجراءکا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ اسلامیہ یونیورسٹی نے سرائیکی شعبہ قائم کر دیا جبکہ زکریا یونیورسٹی نے سرائیکی شعبہ قائم نہ کیا۔ جس کی بناء پر بندہ ناچیز نے عدالت میں رٹ پٹیشن دائر کی اور پانچ سال کی جدوجہد کے بعد شعبہ قائم ہوامگر یونیورسٹی کی سیاست کرنے والے اساتذہ نے اپنے من پسند ایسے افراد کو بھرتی کیا جو آج تک تماشہ بنے ہوئے ہیں۔ اس واقعے کے علاوہ گورنر صاحب کو سرائیکی شعبے کے دوسرے معاملات کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ عہدے ہمیشہ کیلئے نہیں ہوتے لیکن اپنے وقت میں کوئی بھی شخص اچھا کام کر جائے تو اسے ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے۔
میرا صرف اتنا سوال ہے کہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے سرائیکی شعبہ کو تین کروڑ روپے ریسرچ کیلئے گرانٹ دی اس بات کی تحقیق ہونی چاہئے کہ وہ گرانٹ کہاں گئی؟ سرائیکی شعبے میں تادمِ تحریر ایم فل اور پی ایچ ڈی کیوں شروع نہیں ہو سکی؟ جبکہ ایم فل کا نصاب بھی منظور ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سرائیکی شعبے کو اردو شعبے کی مداخلت سے آزاد کر کے مکمل طور پر با اختیار شعبہ بنایا جائے، پہلے بہانہ تھا کہ سرائیکی پی ایچ ڈی دستیاب نہیں، اب ایک مانگیں چار ملیں گے۔ اس سلسلے میں موجودہ وائس چانسلر سے بھی خصوصی توجہ کی درخواست ہے کہ اگر وہ بھی سرائیکی شعبے کیلئے توجہ نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا؟ گورنر پنجاب صاحب کے نوٹس میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ سابقہ وائس چانسلر ڈاکٹر نصیر صاحب کی خدمت میں بار بار توجہ مبذول کرائی گئی مگر انہوں نے ہماری درخواستوں پر آج تک توجہ نہیں دی۔ جس کے نتیجے میں افسوسناک واقعات رونما ہوئے۔ اس طرح کے واقعات کسی شعبے یا ایک یونیورسٹی کی بدنامی کا باعث نہیں۔ اس سے پورا ملک متاثر ہوتا ہے۔ اگر وائس چانسلر نے سرائیکی شعبے کے مسائل پر توجہ دی ہوتی تو آج اس طرح کا واقعہ رونما نہ ہوتا۔ مزید یہ کہ ملتان اور بہاولپور میں خواتین یونیورسٹیاں قائم ہو چکی ہیں۔ ہم ایک عرصہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان یونیورسٹیوں میں سرائیکی شعبے قائم کئے جائیں۔ آج اگر خواتین یونیورسٹی میں سرائیکی شعبہ قائم ہوتا تو وہ متاثرہ بچی یقینا خواتین یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہی ہوتی اور یہ افسوسناک واقعہ پیش نہ آتا۔ آج بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طورپر خواتین یونیورسٹی ملتان اور خواتین یونیورسٹی بہاولپور میں سرائیکی شعبہ جات قائم کرنے کا حکم صادر فرمائیں۔ یہ لکھتے ہوئے دکھ ہو رہا ہے کہ سرائیکی طلبہ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، بہت سے لوگوں نے اپنی نجی لائبریریاں سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کیں ، سب کچھ بے کار اور بند پڑا ہے، نئے وائس چانسلر کا تعلق خوش قسمتی سے وسیب سے ہے، ان سے درخواست ہے کہ سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کے معاملات پر توجہ دیں اور سرائیکی ڈیپارٹمنٹ میں سرائیکی سند یافتہ تعینات کریں تاکہ سرائیکی پڑھنے والے طلبہ کا فائدہ ہو ، سرائیکی شعبے میں ایم فل اور پی ایچ ڈی شروع کرائی جائے، اور سندھیالوجی کی طرز پر ریسرچ کے کام کو وسعت دی جائے ، سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر کی بجائے اس کا نام سرائیکالوجی یا پھر سرائیکی ڈیپارٹمنٹ رکھا جائے اور اس شعبے کی بلڈنگ کا ایک کمرہ بھی کسی دوسرے شعبے کو نہ دیا جائے کہ یہ حساس معاملہ ہے۔ امید ہے چانسلر صاحب ان معاملات پر پہلی فرصت میں ضرور توجہ دیں گے تاکہ وسیب کے لوگوں کو اس بات کا احساس ہو سکے کہ ان کا تعلق اسی وسیب سے ہے۔
جناب گورنر صاحب! آپ وسیب سے ہمدردی رکھتے ہیں اس لئے آپ کی توجہ نہایت ہی اہم امور پر مبذول کرانا چاہتا ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آپ توجہ کریں گے؟ میں نے اسی طرح کی درخواست خیبرپختونخواہ کے سابق گورنر سے بھی کی تھی اور ان سے کہا تھا کہ گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کا سرائیکی ڈیپارٹمنٹ منظور ہے اور وہاں سابق ڈپٹی سپیکر فیصل کریم کنڈی کی طرف سے افتتاح کی تختی بھی لگی ہوئی ہے تو آپ مہربانی کریں سرائیکی ڈیپارٹمنٹ فوری قائم کریں ‘ آپ کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور آپ کو وسیب کے لوگ ہمیشہ کیلئے دعائیں دیں گے مگر انہوں نے ہماری درخواست پر توجہ نہ دی۔ میری اتنی درخواست ہے کہ بہاﺅ الدین زکریا یونیورسٹی کے سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر کی تمام آسامیاں فِل کرائیں ‘ تمام شعبہ جات کو فنکشنل کرائیں اور سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر کو وہی مقام اور مرتبہ دیں جو کہ سندھیالوجی کو حاصل ہے۔ تاکہ وسیب کے لوگ آپ کو ہمیشہ دعاﺅں میں یاد رکھیں۔
(بشکریہ:روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ