میرے کالم کا عنوان ” صدیوں کے دو شاعر“ ہے۔ اس سلسلے میں گزارش کرنے سے پہلے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے کل کے کالم میں شاکر شجاع آبادی کی وفات کے حوالے سے اڑائی گئی افواہوں کا ذکر کیا ،یہ بھی ذکر کیا تھا کہ 10 فروری کو عظیم شاعر سئیں احمد خان طارق کی دوسری برسی بھی ہے۔ برسی کی تقریب کے سلسلے میں شاہ صدر دین میں ہوں اور پورے وسیب سے سرائیکی ادیب ، شاعر اور دانشور شاہ صدر دین آئے ہوئے ہیں۔ وسیب کے شاعروں ‘ ادیبوں نے مجھے کہا کہ روزنامہ 92 نیوز میں شائع ہونیوالا شاکر شجاع آبادی کے حوالے سے آپ کا کالم نہایت ہی اہم ہے ‘ اس لحاظ سے بھی کہ شاکر شجاع آبادی کی موت کے حوالے سے جھوٹی افواہ کا زہریلا تاثر زائل کرنے کا موقع ملا۔ ان کا اسرار تھا کہ ابھی کچھ تشنگی باقی ہے ‘ ممکن ہو تو شاکر شجاع آبادی کے فن اور شخصیت کے حوالے سے مزید تذکرہ روزنامہ 92 نیوز میں شامل کیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شاکر شجاع آبادی کی شاعری دنیا کے تمام انسانوں کیلئے ہے ، وہ انسان اور انسانیت سے پیار کرتا ہے ، وہ نہ اشتراکی ہے نہ سامراجی ، وہ دنیا میں پائی جانیوالی نابرابری ، جبر اور لوٹ کھسوٹ کے خلاف بات کرتا ہے وہ اعلیٰ سوچ کا ایک نامور شاعر ہے ، نہایت سادہ اور عام لفظوں میں بات کرتا ہے اور وہ جو بات کرتا ہے وہ دلوں میں ا±تر جاتی ہے اس کی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں مگر میں اپنی ٹوٹی پھوٹی تحریر میں شاکر کی شاعری کے حوالے اس لئے کوڈ نہیں کر رہا کہ اس کی شاعری ہوا اور خوشبو کی طرح ایک ایسے لطیف جذبے کا نام ہے جسے ہم محسوس تو کر سکتے ہیں مگر گرفت نہیں کر سکتے۔ بلاشبہ شاکر شجاع آبادی ہمارے نوجوان نسل کا پسندیدہ اور مقبول شاعر ہے ، وہ جب پڑھ رہا ہوتا ہے تو ہزاروں کے مجمعے میںخاموشی اور ہو کا عالم طاری ہوتا ہے۔ سامعین ان کے کلام کو گوشِ جاں سے سنتے اور چشم قلب سے پڑھتے ہیں ، وہ سرائیکی زبان کا واحد خوش قسمت شاعر ہے جو سب سے زیادہ پڑھا اور سنا گیا ہے ، اس کی باتیں فکر اور دانائی کی باتیں ہوتی ہیں ، وہ جو بات کرتا ہے دل والی کرتا ہے اور ”دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے“ کی مانند اس کے شعروں کی باتیں پ±ر تاثیر اور پ±ر مغز ہوتی ہیں ، میں سمجھتا ہوں دانائی کی ایسی باتیں کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں بات ہیرا ہے ، بات موتی ہے بات لاکھوں کی لاج ہوتی ہے ”بات“ ہر بات کو نہیں کہتے بات مشکل سے ”بات“ ہوتی ہے یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ شاکر شجاع آبادی کو سینکڑوں کی تعداد میں ایوارڈز اور تعریفی سرٹیفکیٹ ملے مگر اکادمی ادبیات ایسے غیر منصفوں کو مصنف بناتی آ رہی ہے جو شاکر شجاع ا?بادی اور احمد خان طارق جیسے شعراءکو بھی اپنے حق سے محروم کرتے آ رہے ہیں ، میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ نوبل پرائز والوں کا زاویہ نگاہ محدود ہے ورنہ یہ ہو سکتا ہے کہ شاکر شجاع آبادی نوبل انعام سے محروم رہے ؟ سرائیکی شاعری عالمی ادب میں بہترین اضافہ ہے مگر یہ جگہ مناپلی ہے ، مگر کیا شاکر شجاع آبادی اور دوسرے سرائیکی شعراءکی سوچ کوئی ختم کر سکتا ہے ؟ یہ ممکن ہی نہیں۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ سرائیکی شاعر کی سوچ اور نقطہ نظر عالمگیر ہے اور وہ آنے والے وقت کا بھی ادراک رکھتا ہے۔ جیسا کہ غربت ، پسماندگی اور عدم مساوات پوری دنیا کا مسئلہ ہے تو شاکر شجاع آبادی نے بھی غربت کے خاتمے اور عام آدمی کے مسائل کی بات کی ہے۔ مقامی مسائل بھی عالمی مسائل کا حصہ ہوتے ہیں۔ شاعری کو خدا اور خدائی کے درمیان رابطے کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔ سرائیکی وسیب کے لوگ جنگجو نہیں لیکن شاعری ‘ موسیقی اور کلچر کے ہتھیار سے انہوں نے دنیا کے کروڑوں انسانوں کے دل فتح کیے۔ اللہ اللہ بول سرائیکی ،مٹھڑی بولی بول سرائیکی، شاعری کے ان میٹھے بولوں سے جو موسیقی ترتیب پاتی ہے اور پھر موسیقی کی لے پر جھمر کا جو پڑ سجتا ہے اور جھومری میدان میں آتے ہیں تو اس سے عسکری جنگ کے بڑے بڑے میدان نادم و شرمسار نظر آتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہر جگہ طاقت کا چلن ہے مگر طاقت کا غلط استعمال تہذیب کے زمرے میں نہیں آتا۔ اس کی روک تھام کیلئے شاکر کی شاعری طاقت ور آواز ہے ، باوجود اس کے کہ وہ بول نہیں سکتا۔ اس کا جسم مفلوج ہے لیکن وہ کہتا ہے : میڈے لولھے بازواں دے کجھ سہارے چا ونجو کہا جاتا ہے کہ محکوموں کی کوئی شناخت اور تہذیب نہیں ہوتی ، وہ کسی القاب یا خطاب کے بھی حقدار نہیں ہوتے۔ ان کے حقوق کے ساتھ ان کی زبان کو بھی مٹا دینے کے لائق سمجھا جاتا ہے مگر زبان کا تعلق زمین سے ہوتا ہے۔سب جانتے ہیں کہ یونان ، عرب ، افغانستان تو کیا سات سمندر پار یورپ سے بھی حملہ آور آئے مگر وہ سرائیکی تہذیب کو ختم کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ آج شاکر شجاع آبادی کی شاعری کا پوری دنیا میں چرچا ہے تو اس واقعے کو معمولی نہ سمجھا جائے کہ یہ آنے والے نئے وقت کی نوید ہے کہ صدیوں سے حملہ آور وسیب کو دیکھتے آئے ہیں ، اب سرائیکی وسیب کے لوگ ان کو دیکھیں گے۔ ہزار ہا سالوں سے کچل دی گئی سرائیکی زبان کو ایک بار پھر سے زندہ کر دینے کا واقعہ کسی معجزے سے کم نہیں۔ اس کا سہرا سرائیکی شاعروں کے سر ہے۔ شاکر شجاع آبادی سمیت وسیب کے تمام شعراءوسیب کے حقوق اور وسیب کی شناخت کیلئے جدوجہد بھی کر رہے ہیں اور انسانیت کیلئے بلا تفریق رنگ ، نسل و مذہب محبت کے زمزمے بھی بکھیر رہے ہیں۔
(بشکریہ:روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ