مجھے خوشی ہے کہ میرے دھریجہ نگر کے سپوت نذیر احمد بزمی کی کتاب ’’ خانپور میں اردو غزل ‘‘ شائع ہوئی‘ کتاب میں شامل دو باتوں کا ذکرکروں گا ایک خواجہ فرید اور ایک ریختی ۔ نذیر بزمی باب پنجم کے اپنے محاکمہ میں لکھتے ہیں ۔ ’’خان پور میں اردو غزل کے پہلے شاعر خواجہ غلام فریدؒ ہیں۔ ان کا دور1865ء تا 1901 کا ہے۔ وہ معروف صوفی بزرگ اور سرائیکی زبان کے مشہور شاعر ہیں۔چوں کہ بہاول پور کے نواب صادق خان عباسی چہارم خواجہ غلام فرید ؒکے مریدین میں شامل تھے لہٰذا جب ریاست بہاول پور میں اردوزبان کو فروغ حاصل ہواتو خواجہ غلام فرید ؒ بھی اردو شاعری کی طرف راغب ہوئے ۔ ان کی اردو شاعری بالکل ابتدا ئی دورکی شاعری ہے اور تحقیق کے مطابق خواجہ غلام فرید نے اردو شاعری 30برس کی عمر تک کی اس کے بعد وہ مکمل طور پر سرائیکی شاعری کی طرف راغب ہوگئے۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ اردو دیوان خواجہ غلام فریدؒ کا نہیں ہے بلکہ ان کے کسی مرید نے کچھ کلام خود کہہ کر خواجہ غلام فرید سے منسوب کردیا ہے مگر اب تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ خواجہ غلام فرید کا ہی کلام ہے۔ ان کا اردو کلام پہلی مرتبہ 1882ء میں ڈیرہ غازی خان کے تاجرکتب نے چھاپا جس میں سرائیکی کافیوں کے ساتھ21اردو غزلیں بھی شامل ہیں۔1884ء میں مکمل اردو دیوان طبع ہوا جو آج کل دستیاب دیوان ہائے میں درج ہے۔ ‘‘ نذیر بزمی خود لکھتے ہیں:۔ ’’خواجہ غلام فریدؒ کے بعد خان پور شہر کی ادبی تاریخ میں سب سے اہم نام محسن خانپور ی کا ہے ۔انہوں نے تمام اصناف ِ سخن میں طبع آزمائی کی مگر ان کا اصل میدان ریختی تھا ۔ریختی لکھنؤ میں لکھی جانے والی خاص صنفِ شاعری تھی ،جس میں عورتوں کی مخصوص زبان میں محبوب سے شکوہ کیا جاتا ہے، لکھنؤ اور دلی میں اُس دور میںریختی مقبول صنفِ سخن تھی مگرادبی مراکزسے دور چھوٹے سے شہر خان پور میں محسن خان پور ی کی اس صنف میں طبع آزمائی کرنا غیر معمولی بات ہے۔ان کا ریختی دیوان ’’رنگیلی بیگم ‘‘کے نام سے 1906ء میں شائع ہوا جس میں ریختی کی جملہ خصوصیات موجود ہیں ۔ نذیر بزمی کے اقتباس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ خواجہ فرید اردو سے سرائیکی میں آئے اور سرائیکی میں شہرت پائی ، اس سے ثابت ہواکہ تخلیق ماں بولی میں ہی ہوسکتی ہے ، خواجہ فرید کی اردو شاعری تو موجود ہے مگر 99.99لوگ اردو شاعری کے بارے نہیں جانتے جبکہ خواجہ فرید کے سرائیکی شعر سب کوازبر ہیں ، نذیر بزمی نے خواجہ فرید کاذکر شامل کرکے بہت اچھا کیا کہ ان کے بغیر بات آگے نہیں چل سکتی ۔ خواجہ فرید نے صرف اپنی ماں بولی سے نہیں اپنی دھرتی اور اپنی مٹی سے بھی پیار کیا ہے انہوں نے اپنی روہی کے ٹیلوں کو اہمیت دی ہے ، انہوں نے روہی کی کانٹے دار جھاڑیوں کو بھی شمشاد صنوبر کہا ہے۔ خواجہ فرید نے ’’عرب وی تیڈٖی عجم وی تیڈٖی ،توں سندھ پنجاب راجہ‘‘ کہہ کر سندھ ماں دھرتی سے اپنے رشتے کو مضبوط کیا سندھ ہمارا نام ہے ،سندھ کا مطلب دریا ہے ،خواجہ فرید کا دیوان سندھ بمعنے دریائی علاقہ سے بھر پڑا ہے ۔ اسی طرح خواجہ فرید نے’’ میں تے یار فرید منْیسوں ،رل مل شہر بھنبھور‘‘کہہ کر اپنے وسیب اپنے خطے اور اپنے شہروں سے محبت کا اظہار کیا ہے۔ سرائیکی کے عظیم شاعر سے اپنی دھرتی اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے محبت اور’’ اپنْی نگری آپ وسا توں پٹ انگریزی تھانْے ‘ ‘کے حوالے سے حریت پسندی کا عظیم منصب کون چھین سکتا ہے۔ سرائیکی کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس کے مختلف نام جیسا کہ ملتانی ، بہاولپوری، دیروی، جھنگوچی، شاہ پوری، لہندا جٹکی اور ریاستی وغیرہ تھے ، جن کو بدل کر سرائیکی کر دیا گیا۔ہم نے کب کہا کہ نہیں تھے۔ سرائیکی پر اعتراض اپنی جگہ مگر میں پوچھتا ہوں کیا فارسی کو ’’پہلوی‘‘ نہیں کہا گیا؟ کیا پنجابی کولہوری، دوآبی یا ماجھے دی بولی نہیں کہا گیا؟ جہاں تک اردو کی بات تو آیئے میں بتاتا ہوں کہ اردو کے اردو سے پہلے کیا کیا نام تھے اور اردو کی تاریخی حقیقت کیا ہے؟اُردو کے مختلف نام کے متعلق مختلف روایات ہیں‘ ڈاکٹر انور سدید کی کتاب ’’ اردو ادب کی مختصر تاریخ ‘‘ کے مطابق:۔ ٭ اُردو بنیادی طور پر ترکی زبان کا لفظ ہے۔ چنگیز خان اپنے لشکر کے ہمراہ سامانِ حرب لے کر دنیا کوفتح کرنے کی غرض سے نکلا تو یہ لفظ ایشیاء اور یورپ کی کئی زبانوں میں شامل ہو گیا۔ ٭ ہندوستان میں یہ لفظ مغل لے کر آئے۔ ٭ سرسیداحمد خان کے مطابق ’’ جوزبان شاہی درباروں میں مروج تھی اِسی کو زبانِ اُردو کہتے ہیں۔‘‘ ٭ محمد حسین آزاد نے ’’ آبِ حیات ‘‘ کے صفحہ نمبر 13لاہور 1980ء میں لکھا ہے کہ ’’ ترکی میں اُردو بازار لشکر کوکہتے ہیں ۔ اُردو ئے شاہی اوردربار میں ملے جلے الفاظ زیادہ بولتے تھے۔ وہاں کی بولی کا نام اُردو ہوگیا۔‘‘ ٭علاقائی لحاظ سے اُردو کومختلف ناموں سے موسوم کیا گیا۔(1)دکن میں دکنی (2) گجرات میں گوجری (3) دہلی میں دہلوی (4) لکھنو میں لکھنوی (5) ہریانہ میں ہریانی ٭ منشی درگا پر شاد نادر نے خزینتہ العلوم میں اس زبان کو ریختہ اُردو کا نام دیا۔ ٭ محمد حسین آزاد نے اپنی کتاب ’’ آبِ حیات‘‘ کے صفحہ نمبر 14میں لکھا ہے کہ ’’ اس زبان کوریختہ بھی کہتے ہیں کیونکہ مختلف زبانوں نے اسے ریختہ کیا ہے۔ جیسے دیوار کواینٹ ،مٹی ، چونا اور سفیدی وغیرہ سے ریختہ کرتے ہیں یا یہ کہ ریختہ کے معنی ہیں گری پڑی چیز۔ ٭ ابتدا میں ایسے اشعار کو جن میں ایک مصرعہ فارسی کا اور دوسرا اُردو ( ہندی) کا ہوتا تھا۔ ریختہ کہا گیا چنانچہ میرتقی میر نے لکھاہے کہ ریختہ اول قسم وہ ہے جس کا ایک مصرعہ فارسی کا ہوتا ہے دوسرا ہندی کا۔ دوسری قسم وہ ہے جس میں نصف مصری ہندی اور نصف فارسی کا ہوتا ہے۔ اس قسم کے اشعار امیر خسرو ،شیخ باجن ، حسن دہلوی، عشقی خان عشقی اور منشی دِلی رام نے لکھے اور ریختہ گوئی کی ابتدائی خدمات انجام دیں۔ ٭مصحفیؔ کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ اس نے ریختہ کے فروغ کے زمانے میں اس زبان کے لیے ’’ اُردو‘‘ کا مفرد الفظ رائج کیا۔ ٭ اُردو کا پرانا نام ہندوی ہے ۔ اس طرح کے مقالہ جات وسیب کے ہر شہر اور ہرضلعے کے بارے میں ہونا چاہئے ۔ کم از کم سرائیکی زبان ادب کے حوالے سے تو ایم اے سرائیکی کرنے والے نوجوان اور ریسرچ سکالروں کو بلا تاخیر شروع کر دینا چاہئے کہ قومیں کتابوں کے ساتھ بڑی ہوتی ہیں۔ آخر میں ایک بار پھر نذیر احمد بزمی کو ایم فل کا بہترین مقالہ لکھنے پر مبارکباد دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ پی ایچ ڈی کریں گے اور ہم اسے پروفیسر سے بڑھ کر ڈاکٹر لکھیں گے تو زیادہ خوشی ہو گی۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ