7 اپریل 2013ء لنگاہ صاحب کی وفات کا دن ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ کی وفات کے ذمہ دار پی پی کے سابقہ حکمران بھی ہیں جنہوں نے الگ صوبے کے لولی پاپ دیئے اور بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ کو سرائیکی صوبہ بنانے کا وعدہ کیا ۔ پنجاب اسمبلی سے صوبے کی قرارداد منظور کرائی اورسرائیکی قوم کو شناخت دینے ، سرائیکی بنک اور ملتان میں سپریم کورٹ کا بنچ بنانے کا عہد کیا مگر وہ سب سراب ثابت ہوا ۔ بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ نے پوری زندگی وسیب کے حقوق کی جدوجہد کیلئے وقف کی ، قومی اور عالمی فورموں پر صوبے کا مقدمہ نہایت جرات اور بہادری کے ساتھ پیش کیا ۔ بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ نے 7اپریل 1989ء کو پاکستان سرائیکی پارٹی کی بنیاد رکھی ، مورخہ 7اپریل 2013ء کو پاکستان سرائیکی پارٹی کی سالگرہ تھی ، رات کو وہ کافی دیر تک انتظامات کے سلسلے میں مصروف رہے ، اور ساتھ ہی نئے صوبے کے حوالے سے اقتدار پرست جماعتوں کی بے وفائی اور تخت لاہور کی عوام دشمنی کا ذکر کرتے رہے اور تحریک کے کارکنوں کو باور کراتے رہے کہ وسیب کے حقوق کی جدوجہدہمت اور جواں مردی کے ساتھ جاری رکھنی ہے اور جب تک الگ صوبہ نہیں بن جاتا چین سے نہیں بیٹھنا۔یہ بھی اتفاق ہے کہ پاکستان سرائیکی پارٹی کی سالگرہ کے دن ان کی وفات ہوئی۔ وسیب کے دوسرے ہزاروں سیاسی کارکنوں کی طرح سرائیکی کے عوام سے الگ صوبہ ان کا خواب تھا اور ان کی شدید تمنا تھی کہ صوبہ ان کی زندگی میں بنے۔ افسوس کہ ملک دشمن حکمرانوں نے ان کی تمنا اور ان کا خواب پورا نہیں ہونے دیا اور اسی طرح وسیب کی کئی نسلیں یہی آرزو اور تمنا دل میں لے کر اگلے جہان سدھار گئیں ۔ اگر وسیب میں رہنے والے تمام لوگوں نے اپنے حقوق اور اپنے صوبے کیلئے جدوجہد نہ کی تو ہماری آئندہ نسلیں بھی استحصال کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی۔ برسی کے سلسلے میں لنگاہ صاحب کی صاحبزادی اور پاکستان سرائیکی پارٹی کی چیئر پرسن ڈاکٹر نخبہ لنگاہ اور مرکزی صدر ملک اللہ نواز وینس ، مرکزی جنرل سیکرٹری محمد اکبر خان انصاری ایڈووکیٹ پارٹی کیلئے دن رات کام کر رہے ہیں اور انہوں نے برسی کے موقع پر وسیب کے ساتھ ساتھ دوسرے صوبوں سے بھی قوم پرستوں کو بلوایا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بیرسٹر صاحب اپنی مرقد سے بھی وسیب کی خدمت کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ سرائیکی تحریک میں بہت دیر سے آئے مگر پیپلز پارتی اور بعد ازاں خورشید حسن کی جماعت میں ہوتے ہوئے بھی ان کے دل میں وسیب کی محبت موجود تھی ۔ یہ ٹھیک ہے کہ پیپلزپارٹی میں ان کو اہم مرتبہ حاصل تھا اور آپ پی پی کے مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری تھے اور بھٹو صاحب سے بھی ان کو قرب حاصل تھا مگر ان کو بہت بلند مقام و مرتبہ سرائیکی تحریک میں حاصل ہوا ۔ اس سے ثابت ہوا کہ جو بھی اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے محبت کرتا ہے ، ماں دھرتی اس کو اعلیٰ و ارفع شان ‘مقام و مرتبہ عطا کرتی ہے۔ بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ 1939ء میں کہروڑ پکا کے دور دراز دیہی علاقے بہار دی گوٹھ میں پیدا ہوئے ، میٹرک بہاولپور اور گریجویشن لاہور اور 1964ء میں بار ایٹ لا کی ڈگری انگلینڈ سے حاصل کی ، تحصیل علم کے بعد وہ کچھ عرصہ حکومت برطانیہ کے قانونی مشیر بھی رہے ۔ دوران تعلیم برطانیہ میں ان کی ملاقات ذوالفقار علی بھٹو سے ہوئی جو دوستی میں تبدیل ہو گئی اور جب ذوالفقار علی بھٹو نے 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو وہ اس کے بنیادی رکن تھے ۔ 1970ء کا الیکشن انہوں نے ممتاز دولتانہ کے خلاف لڑا اور 75000 ووٹ حاصل کئے اور جب تک پارٹی میں رہے ان کا شمار صف اول کے رہنماؤں میں ہوا اور وہ مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہے ۔ سرائیکی وسیب کو جنوبی پنجاب کا نام دینا قطعی طور پر غلط ہے کہ بہت سے اضلاع پنجاب کے جنوب میں نہیں آتے ، دوسرا یہ کہ عظیم سرائیکی قوم کا خطہ سرائیکی وسیب کسی صوبے کی ایک سمت کا نام نہیں بلکہ وسیب ایک مکمل خطہ ہے ، تہذیبی ، جغرافیائی و ثقافتی طور پراس کی اپنی پہچان ہے اور وسیب کی صرف عورت ہی نہیں مرد بھی تنزلی و پسماندگی کا شکار ہیں۔آج ہر طرف لاہور کی حکمرانی نظر آتی ہے تو اس کا باعث لاہور کے تعلیمی ادارے ایچی سن کالج ( قائم شدہ 1886ء) ، کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی ( قائم شدہ 1860ء ) ، پنجاب یونیورسٹی ( قائم شدہ 1882ء ) ، جی سی یونیورسٹی ( قائم شدہ 1864ء ) ، ایف سی کالج ( قائم شدہ 1864ء ) ہیں جو انگریزوں نے قائم کئے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبہ بنوا کر ایچی سن ، کنگ، جی سی اور ایف سی طرز کے ادارے وسیب میں قائم کئے جائیں ، بصورت دیگر وسیب کے لوگ تعلیمی پسماندگی اور غلامی کی دلدل سے نہ نکل سکیں گے۔ آج سنجیدگی کی ضرورت ہے الگ صوبے کیلئے خلوصِ دل کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے‘ بہت سے لوگ جھوٹی عزت بنانے کی کوشش میں نا صرف آپ بے عزت ہوتے ہیں بلکہ تحریک کو بھی نقصان کا باعث بنتے ہیں ۔ اگر کسی کو شہرت ‘ دولت یا اقتدار چاہئے تو وہ خوشی سے اقتدار پرست جماعتوں میں شامل ہو سکتا ہے۔ تحریک کرسی و اقتدار کی نہیں وطن کی تحریک ہے ‘ وسیب کی تحریک ہے ‘ دیس اور صوبے کی تحریک ہے ‘ سرائیکی شناخت اور سرائیکی قوم ( فرد یا افراد نہیں ) کے اختیار کی تحریک ہے۔ وہ اختیار جو سندھیوں ‘ بلوچوں‘ پشتونوں اور پنجابیوں کو حاصل ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ