اپنے کالم کے عنوان ’’نہ میں اِدھر ہوں نہ اُدھر‘‘ کے بارے میں آگے چل کر گزارشات کروں گا کہ اپنی بات شروع کرنے سے پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں جو کچھ لکھ رہا ہوں یہ کسی سے عناد نہیں بلکہ حقائق کی بنیاد پر عرض کر رہا ہوں کہ میرا تعلق دھریجہ نگر خان پور سے ہے ‘ یہ سابق ریاست بہاولپور کا علاقہ ہے ۔ خان پور سے تھوڑے فاصلے پر والیانِ ریاست بہاولپور کی رہائش اور ان کے محلات ہیں ۔ اس سے تھوڑا آگے چولستان اور یزمان کا علاقہ ہیڈ رازقاں ہے۔ اسی مقام پر سمیجہ برادری کی قدیم آبادی جناح کالونی کے نام سے ہے، دن دیہاڑے ایک وفاقی وزیر کی ایماء پر لینڈ مافیا کے مسلح افراد نے چک نمبر 23ڈی این بی جناح کالونی میں چڑھائی کر دی ۔ گھروں میں موجود خواتین نے مزاحمت کی تو ان کو مار مار کر لہولہان کر دیا اور ان کی ہڈیاں پسلیاں توڑ دیں ۔ اور نہایت سفاکی اور درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے گھروں کو مسمار کرکے آگ لگا دی ۔ کہا جاتا ہے کہ مقامی انتظامیہ اور پولیس کو دھوکے میں رکھا گیا ۔ وہ بھی وفاقی وزیر کے حکم پر مسلح افراد کے ساتھ ہیں مگر جب انہوں نے بربریت دیکھی تو وہ وہاں سے رفو چکر ہوگئے ۔ زخمی مستورات کو بہاول وکٹوریہ ہسپتال لے جایا گیا وفاقی وزیر کی مداخلت پر پہلے تو ڈاکٹروں نے علاج سے انکار کیا مگر جب عوام کا پریشر بڑھا تو انہوں نے علاج شروع کیا۔ دوسرے دن اخبارات اور 92 نیوز چینل پر ظلم کی داستان رؤف کلاسرہ نے بیان کی اور کچھ اور لوگ بھی خوب بولے تو وسیب میں احتجاجی جلوس شروع ہوئے مگر پولیس نے محض خانہ پوری کے طورپر ملزموں کے خلاف ایف آئی آر درج کی مگر ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ۔ اس سے بڑھ کر ظلم یہ ہے کہ وسیب کے ارکان اسمبلی خاموش ہیں ۔ انسانی حقوق کے تنظیمیں بھی مہر بہ لب ہیں ہمارے علماء ، سجادگان اور وسیب کے سرداروں ، تمنداروں اور جاگیرداروں کو کسی بات کی کوئی پرواہ نہیں۔ آج بہاولپور صوبہ تحریک کے بڑے چمپئن محمد علی درانی کہاں ہیں؟ آج ریاست بہاولپور کے نواب کہاں ہیں؟ یہ مظلوموں کا ساتھ کیوں نہیں دیتے؟ آج نیلی اجرکیں پہن کر صوبے کے نام پر ووٹ لینے والے مخدوم خسرو بختیار ، مخدوم احمد عالم انورکیوں خاموش ہیں؟ مخدوم یوسف رضا گیلانی ، مخدوم شاہ محمود قریشی ، مخدوم احمد محمود، بلخ شیر مزاری اور نصر اللہ دریشک کیوں بات نہیں کرتے؟ جب بھی کوئی اس طرح کا معاملہ آتا ہے تو وہ خاموشی اختیارکر لیتے ہیں اور جب بھی کوئی اس طرح کی بات آتی ہے تو مفاداتی گروہ اور نام نہاد مصلحت پسند کہتے ہیں کہ نہ ہم اِدھر ہیں اورنہ اُدھر ۔ اس موقع پر مجھے یاد آیا ریڈیو پر شاہ بلیغ الدین پروگرام کرتے تھے ، ان کا پروگرام نصیحت آموز ہونے کے ساتھ ساتھ فصاحت و بلاغت کا اعلیٰ نمونہ ہوتا تھا ۔ ایک قارئین کی دلچسپی کیلئے ان کا ایک بہت پرانا خطاب حاضر خدمت ہے۔ کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں حضرت امام حسین ؑجب دشت کربلا میں یزید سے نبرد آزما تھے۔۔علیؑ کا بیٹا۔خدا کے محبوب کا نواسہ۔خلیفہِ وقت کے مقابل چٹان بن کر ڈٹا ہواتھا۔۔۔ تو میں کدھر تھا؟ اگر میں سبطِ نبی کے مظلوم جانثاروں کی صف میں ہوتا شہید ہوتا۔۔یزید کی فوج میں جو ہوتا تو حق کی آواز کودبانے پہ خلتِ فاخرائی پاتا۔۔۔مگر شہادت میرا مقدر نہیں بنی تھی۔۔نہ مجھ کو خلعت ہی مل سکی تھی تو۔۔میں کدھر تھا۔۔تو میں نے سوچا۔۔تو میں نے جانا۔۔نہ میں ادھر تھا۔۔نہ میں اْدھر تھا۔۔مجھے حسین ؓاور انکے سارے اصول سب ہی عزیز تر ہیں۔۔عزیز تر تھے۔۔پر میرے مفادات مجھ کو ان سے عزیز تر تھے۔۔میرے مفادات جو عبارت تھے۔۔میری ذات اور میری بچوں کی عافیت سے۔۔وہ حاکم وقت کی نگاہ کرم کے محتاج و منتظر تھے۔یہی سبب ہے کہ حق و باطل کے معرکے میں صحیح غلط کی تمیزکے باوجود خاموش ہی رہا میں۔۔مگر جب ایک بار کربلا اور یزید سب ہی گزر گئے تو۔۔حسین پیاسے ہی چل بسے تومیری حمیت نے جوش مارا۔۔یزید کو میں نے ظلم اور جبر کی علامت بنا کے چھوڑا۔۔حسین کو میں ہزار برسوں سے رو رہا ہوں۔۔کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں میرے آئمہ کہ جنکے علم و عمل کی خوشبو مسامِ جاں میں بسی ہوئی ہے۔۔میرے آئمہ کہ آج بھی جنکے پاک قدموں کی پاک مٹی کروڑوں آنکھوں کی روشنی ہے۔ ..انہی آئمہ کی پشت جب ظالموں کے ہاتھوں خوں چکاںتھی تو خلیفہِ وقت کے عقوبت کدوں میں انکی تمام ہستی لہو لہاں تھی۔۔تو میں کدھر تھا؟وہ حق پہ ہیں میں یہ جانتا تھا۔۔امام بھی انکو مانتا تھا۔۔ مگر جب ان پہ عتاب آیا تو میں نے حاکم کا ہاتھ روکا۔۔نہ میں نے جلاد ہی کو ٹوکا۔۔کہ ہر شریف آدمی کی مانند مجھے بھی اپنی اور اپنے بچوں کی عافیت ہی عزیز تر تھی۔۔مگر یہ سیلاب ٹل گیا تو زمانہ کروٹ بدل گیا تو میری عقیدت بھی لوٹ آئی۔۔میں ان آئمہ کی ذات کو روشنی کا مینار کہہ رہا ہوں۔۔کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ جب وہ منصور کو سرِ دار لارہے تھے۔۔جب اسکے جرم خودآگہی پر۔۔ وہ اپنے فتوے سنارہے تھے۔۔جب اسکو زندہ جلارہے تھے۔۔تو میں کدھر تھا ؟؟؟یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ جس خلیفہ نے انکے فرمانِ قتل پہ دستخط کیے تھے۔۔وہ میں نہیں تھا۔۔وہ ہاتھ جس نے عظیم انساں کی زندگی کا دیا بجھایا میرا نہیں تھا۔۔مگر یہ سچ ہے کہ یہ سب کچھ میں نے دیکھا۔۔مجھے یہ اچھا نہیں لگاتھا۔۔مگر یہ بھی سچ ہے کہ چپ رہا میں۔۔۔کہ ہر شریف آدمی کی مانند مجھے بھی اپنی اور اپنے بچوں کی عافیت ہی عزیز تر تھی۔۔مگر وہ طوفاں گزر گیا تو۔۔خلیفہِ وقت مر گیا تو ضمیر میرا بھی جاگ اٹھا۔۔میں اب یہ ساری دنیا میں اعلان کررہا ہوں۔۔حسین و منصور میری نظر میں ذی حشم ہیں۔۔کہ ہر وہ حق ہے جو مسند دار تک پہنچ جائے وہ محترم ہے۔۔کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ سارے نمرود۔۔سارے شداد۔۔سارے فرعون اور انکی اولاد سب صحیح تھے۔۔وہ سب صحیح تھے کہ اپنے اپنے مشن کی تکمیل کررہے تھے۔۔ وہ سب صحیح ہیں کہ اپنے اپنے مشن کی تکمیل کررہے ہیں۔۔غلط تو میں تھا۔۔غلط تو میں ہوں۔۔کہ ہرزمانے سے اجنبی سا گزر گیا میں۔۔نہ ٹھیک سے جی سکا کبھی میں۔۔نہ ٹھیک سے مرسکا کبھی میں۔۔غلط تو میں تھا کہ مری تکویمِ روز و شب میں کبھی کسی فیصلے کی کوئی گھڑی نہیں تھی۔۔۔میرے قبیلے کے واسطے تو کوئی قیامت بڑی نہیں تھی۔۔کہیں کوئی کربلا بپا ہو۔۔کہیں عقوبت کدے کے زنداں میں کوئی سورج ہی بجھ رہا ہو۔۔فراز دار و رسن سے کوئی صدائے حق بھی لگارہا ہو۔۔تو ہر شریف آدمی کی مانند میں اپنے حقِ خود آگہی کے با وصف سوچتا ہوں۔۔نہ میں ادھر ہوں۔۔نہ میں ادھر ہوں۔۔۔۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ