گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے اپنے دورے کے دوران ڈی جی خان میں ریڈیو پاکستان ملتان کے بلوچی پروگرام ’’ روش‘‘ کا بھی افتتاح کیا۔ وزیراعلیٰ نے بلوچی پروگرام ’’روش‘‘ کیلئے بلوچی زبان میں پیغام ریکارڈ کر ایا۔ وزیراعلیٰ نے اپنے پیغام میں کہا کہ 70برس بعد بلوچ عوام کو اپنی آواز آ گے پہنچانے کیلئے ایک موثر پلیٹ فارم ملا ہے۔ بلوچستان میں بسنے والے ہمارے دل کے بہت قریب ہیں۔ بلوچ عوام محب وطن ہیں اور ان کی پاکستان سے محبت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریڈیو پاکستان ملتان کے بلوچی پروگرام کے آغاز سے بلوچ عوام کو اپنی آواز آگے پہنچانے میں آسانی ہوگی اور اس اقدام سے یکجہتی، بھائی چارے کو فروغ ملے گا۔ ڈی جی خاں میں بلوچی سروس کا افتتاح حیران کن ہے کہ ریڈیو اسٹیشن ملتان میں ہے اور افتتاح ڈی جی خاں میں ہو رہا ہے اور یہ بھی نہیں کہ وزیر اعلیٰ کو ملتان آنے میں کوئی امر معنی ہے۔ جس دن افتتاح ہوا ہے اُسی دن محض ایک گھنٹہ پہلے وزیر اعلیٰ ملتان سے ڈی جی خاں پہنچے تھے پھر یہ بھی کہ وزیر اعلیٰ کا تعلق صوبائی حکومت سے ہے اور ریڈیو پاکستان وفاقی حکومت کا ادارہ ہے۔ افتتاح کیلئے نہ تو وفاقی وزیر اطلاعات موجود تھے نہ سیکرٹری اطلاعات اور نہ ہی ڈی جی ریڈیو پاکستان۔ نہ جانے یہ کیسا افتتاح ہے، جس پر لوگ طرح طرح کے سوالات اٹھا رہے ہیں،و سیب میں بہاولپور اور ملتان کے نام پر تفریق پیدا کرائی جا رہی ہے۔ تھل صوبے کی آوازیں نکالی جا رہی ہیں اسی طرح بلوچ سرائیکی تفریق پیدا کرائی جا رہی ہے۔ 21ویں صدی میں کوئی نادان نہیں سب جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ وسیب کے لوگوں کو محروم رکھنے اور صوبے کا راستہ روکنے کے سوا کچھ نہیں۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ وسیب میں تفریق پیدا نہ کی جائے۔ ملتان سے بلوچی سروس کسی بھی لحاظ سے درست نہیں، ریڈیو پاکستان کا اپنا قانون اور قاعدہ ہے جس کے مطابق ہر ریجنل جنرل اسٹیشن خطے کی مقامی زبان میں پروگرام نشر کرتا ہے، ملتان ریجن سے ریڈیو پاکستان ملتان قریباً نصف صدی سے اردو ، سرائیکی پروگرام دیتا آرہا ہے جبکہ بلوچستان کے اسٹیشن اردو کے ساتھ مقامی زبانوں میں بھی نشریات دیتے ہیں ریڈیو پاکستان کے قواعد و ضوابط میں تبدیلی کرکے ملتان سے بلوچی سروس اگر شروع کرنی ہے تو پھر ریڈیو پاکستان کوئٹہ، خضدار اور سبی سے دوسری زبانوں میں سروس پہلے شروع کی جائے، سردار عثمان خان بزدار کے پاس مینڈیٹ وسیب خطے کا ہے، وسیب خطے کی وجہ سے ہی وہ وزیر اعلیٰ بنے ہیں لیکن عجب بات ہے کہ وہ اپنے اس مینڈیٹ کو پامال کرتے ہیں۔ اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ قومی اسمبلی سے منظور شدہ پالیسی کے تحت ہر ریجنل اسٹیشن مقامی زبان میں پروگرام کرتا ہے، پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی ذاتی خواہش پر پنجاب براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی قومی پالیسی اور اصول و ضوابط کو بلڈوز کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ ریڈیو ملتان کے اسٹیشن ڈائریکٹر متنازعہ قدم اٹھانے سے باز رہیں ، اگر ریڈیو ملتان نے ریڈیو پاکستان کی منظور شدہ پالیسی کے بر عکس قدم اٹھایا تو وسیب میں احتجاج ہو گا یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ کوہ سلیمان پر بزدار قبیلہ اور دوسرے ایسے قبائل ہیں جو بلوچی اور سرائیکی بولتے اور سمجھتے ہیں ، جبکہ بلوچستان میں ڈیرہ مراد جمالی ،بارکھان اور موسیٰ خیل، کوئٹہ ، سبی اور نصیر آباد میں زمانہ قدیم سے بلوچوں کی آمد سے بھی پہلے آباد ہیں ۔ وہاں ان کے لئے کوئٹہ ، خضدار اور دوسرے اسٹیشنوں سے پروگرام نشر کیوں نہیں کئے جاتے ؟ اگر ریڈیو کے ارباب اختیار کو بلوچی میں پروگرام شروع کرنے کا شوق ہے تو لاڑکانہ اور خیر پور سندھ سے نشر کیوں نہیں کرائے جاتے؟ وسیب کے لوگوں سے حق تلفیوں کے ازالے اور صوبے کے نام پر ووٹ لئے گئے مگر ہر آئے روز ایسے تنازعات کو جنم دیا جا رہا ہے جس سے صوبے کی منزل دور ہوتی جا رہی ہے۔ موروثی سیاستدان پنجاب کے حکمران اور ڈی جی خاں کے سردار، تمندار سردار عثمان بزدار کو نہیں چاہتے البتہ اُن کے وزیر اعلیٰ بننے سے وسیب میں خوشی کا اظہار کیا گیا تھا اور لوگوں کو امید تھی کہ وہ اپنے وسیب کیلئے بہت کچھ کریں گے، دوسرے ترقیاتی کاموں کے علاوہ زبان و ادب کی ترقی کیلئے اقدامات کریں گے، ادارے قائم ہوں گے، مقامی شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کی حوصلہ افزائی ہو گی، مگر تاحال کچھ نہیں ہوا۔ تحریک انصاف اس وقت مرکز اور صوبے میں وسیب کے مینڈیٹ کی وجہ سے برسراقتدار ہے اُس نے صوبے کا بھی وعدہ کر رکھا ہے۔ تحریک انصاف نے وسیب کی محرومی ختم کرنے کے بھی وعدے کئے ہوئے ہیں۔ عجب بات ہے کہ وزیر اعلیٰ جس مینڈیٹ پر برسراقتدار ہیں اُن کو وسیب کی زبان، ثقافت اور ترقی کے حوالے سے کوئی غرض نہیں۔ سرائیکی زبان و ادب کا ادارہ بنانے کی بات بھی بھولی ہوئی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ