ملک میں ایک بار پھر اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کی بات ہو رہی ہے اور صوبوں کے اختیارات کم کرکے واحدانی طرز حکومت کا ذکر ہو رہا ہے۔ طرز حکومت صدارتی یا پارلیمانی؟ اصل بات عملدرآمد کی ہے۔ چھوٹی موٹی خامیاں ہر نظام میں ہوتی ہیں جسے درست کیا جا سکتا ہے کوئی بھی نظام جتنا ہی بہتر اور اچھا ہو اگر اُس پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو اُس کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ 1973ء کے آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ مارشل لاء کیلئے سزا مقرر کر دی گئی ہے اس لئے کبھی مارشل لاء نہیں لگے گا مگر 1973ء کا آئین اپنے خالق کو نہ بچا سکا۔ ملک میں مارشل لاء بھی لگ گیا نظریہ ضرورت کے تحت مارشل لاء کو جائز بھی قرار دے دیا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی بھی دے دی گئی۔ ہم 1973ء کے آئین پر سرسری نظر ڈالنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ تبدیلی کے دعویداروں نے اسمبلی میں پہنچنے کے بعد اسمبلی سے آئین سازی کا کتنا کام لیا لیکن افسوس کہ جب ہم آٹھ ماہ کی کارروائی کو دیکھتے ہیں تو آئین سازی کے بارے میں جواب صفر آتا ہے۔ جہاں تک صدارتی یا پارلیمانی طرز حکومت کی بحث ہے تو پوری دنیا میں پارلیمانی طرز حکومت کو بہتر سمجھا جاتا ہے۔ 1973ء کے آئین میں کہا گیا ہے کہ یہ آئین پارلیمانی طرز حکومت پر مبنی ہے جس میں وزیر اعظم اسمبلی کے سامنے جواب دہ ہو گا۔ صوبائی اسمبلیاں بھی بالغ رائے دہندگی کی بنیاد پر عوام کے منتخب ارکان پر مشتمل ہوں گی۔ صوبائی وزیر اعلیٰ صوبائی اسمبلی کے سامنے جواب دہ ہو گا۔ صدر مملکت کا انتخاب قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کریں گے، لیکن اس کے اختیارات رسمی ہوں گے۔ اصل انتظامی اختیارات وزیر اعظم کے پاس ہوں گے۔صوبوں کے اختیارات میں بھی 1973ء کے آئین میں سابقہ دونوں دساتیر کی نسبت زیادہ فراخ دلی سے کام لیا گیا۔ اس وجہ سے بھٹو صاحب کو ان صوبوں کی سیاسی جماعتوں سے تعاون حاصل کرنے میں خاصی مدد ملی، جہاں پیپلز پارٹی اکثریت میں نہیں تھی۔1973ء کا آئین اپنی اصلی شکل میں چار سال تک نافذ العمل رہا۔ 1977ء تا 1985ء آٹھ سال تک جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے تحت معطل رہا۔ صدر کے بحالی آئین آرڈر مجریہ 1985ء کی رو سے اس شکل میں بحال کر دیا گیا کہ مارشل لاء کے دوران میں اس کی 280دفعات میں سے 67 دفعات میں ترامیم کر لی گئی تھیں۔ حالانکہ آئین کی دفعہ 6 کے تحت آئین سے طاقت کے استعمال کے ذریعے یا طاقت کا مظاہرہ کرکے یا کسی اور غیر آئینی طریقے سے انحراف کو بغاوت قرار دیا گیا اور پارلیمنٹ کو یہ اختیار دے دیا گیا کہ اس قسم کا جرم ارتکاب کرنے والے شخص کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ چنانچہ 14ستمبر 1973ء کو پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا جس کی رو سے آئین سے انحراف کرنے والے باغی مجرم کو سزائے موت تجویز ہوئی۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ موجودہ اسمبلی نے ابھی تک کوئی آئین سازی نہیں کی حالانکہ قومی اسمبلی آئین ساز ادارہ ہے۔ اس کی اہمیت بھی ہے اور اس کا تقدس بھی مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسمبلی اکھاڑے کا منظر پیش کر رہی ہے۔ گزشتہ روز بلاول بھٹو زرداری نے کیا کہا اور اُس کے جواب میں کیا کچھ کہا گیا، اسے دھرانے کی ضرورت نہیں۔ مگر ایک سوال ہے کہ موجودہ اسمبلی کو 8 ماہ گزر گئے ابھی تک قانون سازی نہیں ہوئی جو کہ اسمبلی کا اصل مقصد ہے۔ وسیب سے سو دنوں میں صوبہ بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا ، صوبہ تو کیا بننا تھا ابھی تک صوبہ کمیشن بھی نہیں بن سکا۔ گزشتہ ماہ (ن) لیگ کی طرف سے صوبے کا بل اسمبلی میں پیش ہوا عجب بات ہے کہ اس بل پر نہ صرف یہ کہ غور نہیں ہوا بلکہ اُسے ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا۔ ان حالات میں وسیب کے لوگ پوچھتے ہیں کہ ہمارے ارکان اسمبلی کس مرض کی دوا ہیں؟ کیا پاکستان کے غریب لوگ ارکان اسمبلی کو اس بناء پر تنخواہیں دیتے ہیں کہ وہ اسمبلیوں میں گالم گلوچ کریں، ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کریں اور تنخواہیں اور ٹی اے ، ڈی اے لیں اور گھر واپس آجائیں؟ اپوزیشن کی طرف سے عید کے بعد حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایشو کیا ہے؟ کیا اپوزیشن اس بناء پر احتجاجی تحریک چلا رہی ہے کہ اسمبلی کو مذاق بنا دیا گیا ہے؟ کرسی اقتدار کا معاملہ ہے یا پھر باریاں لینے کے مسائل؟ وسیب کے کروڑوں لوگ نصف صدی سے سرائیکی صوبے کے لئے پر امن جدوجہد کر رہے ہیں۔ حکومتی جماعت کے ساتھ ساتھ تمام اپوزیشن جماعتوں نے اپنے اپنے منشور میں صوبہ دینے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ حکومت نے سو دن کا وعدہ کیا اب نو ماہ ہو گئے صوبے بارے ایک بھی قدم نہیں اُٹھایا گیا۔ وسیب کے لوگوں کا مطالبہ ہے کہ تحریک چلانی ہے تو دوسرے ایشوز کے ساتھ ساتھ صوبے کا ایشو بھی اس میں شامل کریں اور حکومت کو اپنا وعدہ پورا کرنے پر مجبور کریں ورنہ اس تحریک کو محض کرسی اور اقتدار کی تحریک سمجھا جائے گا اور کامیاب نہیں ہو گی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں سڑکوں پر آئیں اور حکومت سے پوچھیں کہ صوبے کا وعدہ کرکے سب سول سیکرٹریٹ کے لولی پاپ کیوں دیئے جا رہے ہیں؟ اور اس مسئلے پر بھی ملتان، بہاولپور اور لودھراں کو کیوں لڑایا جا رہا ہے؟ وفاقی کابینہ کے ایک وزیر نے چولستان میں ظلم و بربریت کی انتہاء کر دی اپوزیشن کیوں خاموش ہے؟ (ن) لیگ صوبے کا بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی بجائے اسے صحیح سمت دے اور صوبائی اسمبلی سے پہلے اس کی منظوری لے اور پھر یہ منظوری صوبہ کمیشن بنانے کیلئے قومی اسمبلی کو بھیجے تاکہ سنجیدگی نظر آئے۔ اگر وسیب کی محرومی، وسیب کی شناخت اور صوبے کا مسئلہ اپوزیشن کے احتجاجی ایجنڈے میں شامل نہیں تو ایسی کسی تحریک کا کوئی فائدہ نہیں۔ کتنے افسوس کی بات کہ اہم مسائل پر آئین سازی نہیں ہو رہی۔ (ن) لیگ کے دور حکومت میں اسے صوبائی اور قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل تھی وہ آئین سازی کر سکتی تھی۔ آئین میں ترمیم کرکے صوبہ بھی بنا سکتی تھی کہ اُس نے اپنے پارٹی منشور میں صوبے کا وعدہ کیا تھا ۔مگر اُس نے وعدہ وفا نہ کیا حالانکہ کسی بھی جماعت کا منشور نہایت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ آئین کی شق 62-63 وعدہ خلافی کے حوالے سے ہے مگر عملدرآمد کون کرائے؟ ظلم تو یہ ہے کہ سپریم آئین ساز ادارے سینٹ نے دو تہائی اکثریت کے ساتھ صوبے کا بل پاس کرکے ایک طرح سے صوبے کو آئینی تحفظ دیا مگر اُس کام کو آگے نہیں بڑھایا گیا۔ تحریک انصاف نے بھی سو دن کا وعدہ کیا مگر وہ وعدہ وفا نہیں ہوا۔ کیا آئین، قانون اور سزائیں صرف غریبوں کیلئے ہیں؟
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ