فون کی گھنٹی بجی ‘ میں نے ریسیور اٹھایا ، سلام دعا کے بعد وہ گویا ہوئے ’’ میرا نام خالد مسعود ہے اور قلمی نام خالد مسعود بزمی ، میں گاؤں چک 197 ہاکڑہ ہارون آباد سے بول رہا ہوں ، عرصہ دراز سے صحافت سے وابستہ ہوں ، بڑھاپے میں فالج کا مرض لاحق ہوا ۔ اس کے باوجود اخبار کا مطالعہ میرا معمول ہے ۔ بہاولنگر کی محرومیوں پر کالم پڑھا ہے یہ کہنے کے بعد خالد مسعود صاحب نے کہا کہ ’’ کچھ دیر بات ہو سکتی ہے ۔ ‘‘ میں نے کہا ’’کیوں نہیں ، آپ حکم فرمائیں ۔ ‘‘ انہوں نے فرمایا کہ’’ آپ نے لکھا کہ میاں نواز شریف نے 1990ء میں پانی کی تقسیم کے تحت سرائیکی وسیب کو پانی کا حصہ سندھ کو دیکر نعرہ بلند فرمایا تھا کہ بڑے بھائی (پنجاب) نے قربانی دی ہے جبکہ قربانی سرائیکی وسیب کو ذبح کر کے دی گئی اور یہ کہاوت سچ ثابت ہوئی کہ ’’وہی ذبح بھی کرے اور وہی لے ثواب اُلٹا‘‘۔ اپر پنجاب میں آج بھی جا کر دیکھیں تو پانی کھیتوں اور کھلیانوں سے باہر نکل کر آوارگی فرما رہا ہے جبکہ سرائیکی وسیب میں انسان اورجانور پیاس سے مر رہے ہیں۔ کھیتوں میں آج کل کپاس کی کاشت کا سیزن شروع ہونیوالا ہے مگر پانی نہیں۔ خالد مسعود صاحب نے کہا کہ ’’ میں آپ کے کالموں کا مستقل قاری ہوں ۔ آپ وسیب کے مسائل پر لکھتے ہیں ۔ میرا تعارف یہ ہے کہ 1982ء سے صحافت سے وابستہ ہوں آپ نے پانی کے متعلق لکھا ہے تو میں عرض کروں کہ غالباً 1985-86ء میں ضلع بہاولنگر کے پانی کے حصے پر اس وقت کے وزیراعلیٰ میاں منظور وٹو نے شب خون مارا اور ہمارے حصے کا پانی اوکاڑہ کو دے دیا جو آج تک واپس نہیں ہوا ۔اور پیاسی روہی کے لوگ آج بھی پیاس سے مر رہے ہیں ۔‘‘ وہ کہہ رہے تھے کہ ’’ ہر جگہ نئے اضلاع بنے مگر ہماری سابق ریاست بہاولپور میں آج تک کوئی ضلع نہیں بنا ۔ حالانکہ بہاولنگر میں دو نئے اضلاع اور ایک نیا ڈویژن بن سکتا ہے ۔ ‘‘ وہ کہہ رہے تھے کہ ’’ 1976ء میں بھٹو صاحب نے تحصیل فورٹ عباس سے ایک نئی تحصیل ہارون آباد بنائی اور اس طرح ہم تحصیل ہارون آباد میں آ گئے ۔بھٹو نے اعلان کیا تھا کہ چیچہ وطنی اور چشتیاں ریلوے لائن بحال ہوگی ۔ انہوں نے کام بھی شروع کرا دیا مگر جنرل ضیا نے ان کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا ۔ خالد مسعود بزمی صاحب کی بات کو میں آگے بڑھاتے ہوئے ایک بار پھر اس بار کو دہراتا ہوں کہ پوری دنیا میں دریائوں کو تہذیبوں کا مؤلد اور مسکن قرار دیا جاتا ہے ۔ بھارت میں دریائوں کو پوجا اور پرستش کا درجہ حاصل ہے ۔ ’’پانی کا نام زندگی اور زندگی کا نام پانی ‘‘ کے فلسفے کو سمجھنے والی قومیں دریائوں کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ارباب اختیار پاکستان کے قیام سے لیکر آج تک پانی کی اہمیت سے بے خبر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ چند کوڑیوں کے عوض پاکستان کے تین دریائوں کا سودا کر دیا گیا ۔ پاکستان میں سرائیکی وسیب کو زیادہ اہمیت حاصل ہے کہ یہ خطہ سات دریائوں کا سنگم ہے ۔ پاکستان کے تمام دریا کوٹ مٹھن آ کر اکٹھے ہو جاتے ہیں اور سر زمین خواجہ فریدؒ کی قدم بوسی کے بعد سندھ کیلئے روانہ ہوتے ہیں۔ پورے سرائیکی وسیب سے پانی پانی کی آوازیں آ رہی ہیں ، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سندھ طاس معاہدے کا سب سے زیادہ نقصان سرائیکی وسیب خصوصاً بہاولنگر ، بہاول پور ، رحیم یار خان ، لودھراں اور ضلع وہاڑی کو ہوا ۔ ستلج دریا خشک ہونے سے پانی کا لیول جو تیس فٹ پر تھا ، سے کم ہو کر ستر اَسی اور بعض جگہوں پر سو فٹ سے بھی زائد نیچے چلا گیا ۔ زمینداروں کو دو دو اور تین تین مرتبہ ٹیوب ویل کے نئے بور کرانے پڑے مگر پھر بھی مسئلہ حل نہیں ہوا ۔ کنویں اور نلکے بھی جواب دے گئے ، بہاولنگر کے بہت سے علاقوں میں پینے کا پانی تک ختم ہو گیا ۔لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے ، صورت حال اتنی خراب ہوئی ہے کہ ضلع بہاولنگر کی منڈی صادق گنج اور کچھ دوسرے علاقوں کے بڑے بڑے زمیندار اب کراچی میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔سندھ طاس معاہدے کے تحت تین دریاؤں کی فروختگی کے بعد حکمرانوں نے دریائے سندھ کا پانی چناب اور راوی میں ڈالا اور مصنوعی طریقے سے میلسی ، بہاول پور ، رحیم یار خان اور بہاولنگر کے علاقوں کو سیراب کرنے کی کوشش کی مگر یہ مصنوعی آکسیجن کب تک زمین کو زندہ رکھ سکے گی ؟ اگر حکومت نے بھارت سے مذاکرات کرکے ستلج کیلئے پانی حاصل نہیں کیا تو پھر یہ ایک دریا ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب کی موت بھی واقع ہو جائے گی۔ جناب خالد مسعود صاحب آپ نے یاد دلایا تو یاد آیا کہ بہاولنگر سب سے زیادہ متاثرہ ضلع ہے ۔ مجھے بہاولنگر کے دوستوں نے بتایا کہ تقسیم کے بعد بہاولنگر کو دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے ،جبکہ اس سے پہلے یہاں خوشحالی ہی خوشحالی اور ہریالی ہی ہریالی تھی ۔ اب خوشحالی کی جگہ بدحالی نے ڈیرے ڈال لئے ہیں اب وسائل کم اور مسائل زیادہ ہو گئے ہیںاس لئے ضروری ہے کہ ستلج کو زندہ کرکے ستلج ویلی تہذیب کو موت کے منہ میں جانے سے روکا جائے ،یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پانی کی کمی سے بہاولنگر کا بہت بڑا کینال سسٹم برباد ہو رہا ہے ۔ یہاں کینال کے تین ڈویژن مثلاً صادقیہ کینال ڈویژن ، فورڈ کنال ڈویژن اور ہاکڑہ کینال ڈویژن کی بڑی نہریں پوراسال چلتی رہتی تھیں ، اب ان میں بمشکل چند ماہ پانی رہتا ہے اور پانی کا لیول خطرناک حد تک نیچے چلا گیا ہے، پانی کے مسئلہ پر سب سے زیادہ لڑائیاں بہاولنگر اور بہاول پور میں ہو رہی ہیں ، پانی چوری کی وارداتیں بھی اس علاقے میں زیادہ ریکارڈ کی گئی ہیں۔ ہزاروں مسائل اور ہزاروں دکھ ہیں ، کس کس کا ذکر کریں۔ برادرم خالد مسعود صاحب! حرفِ آخر کے طور پرعرض کروں گا کہ جب تک صوبہ نہیں بنے گا ، وسیب کے مسئلے حل نہیں ہونگے اور سرائیکی صوبہ اس وقت تک نہیں بنے گا جب تک خطے مین بسنے والے لوگ ملکر جدوجہد نہیں کریں گے لیکن صوبے کے مسئلے پر نہ حکومت سنجیدہ ہے نہ اپوزیشن سیاسی پوائنٹ سکورننگ ہو رہی ہے۔ تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب صوبے کے نام سے قومی اسمبلی میں قرار داد منظور کرائی ہے جبکہ قرارداد کی بجائے پارلیمانی صوبہ کمیشن کی ضرورت ہے۔ (ن) لیگ نے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک نہیں جنوبی پنجاب بہاولپور صوبے کے نام سے دو صوبوں کے حامی ہیں۔ (ن) لیگ کی یہ بات بذات خود صوبہ بنانے کیلئے نہیں بلکہ صوبہ کا کیس خراب کرنے کیلئے ہے۔ (ن) لیگ اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ وسیب کے لوگوں کو بیوقوف بنا رہی ہے تو پھر ن لیگ کی قیادت سے بڑا بیوقوف کوئی نہیں ہو سکتا کہ وسیب کے لوگ سب کچھ سمجھتے ہیں کہ کون کہاں سے اور کس ارادے سے بول رہا ہے۔ صوبے کے مسئلے پر سنجیدگی کی ضرورت ہے کہ محروم اور پسماندہ خطوں کے ساتھ مذاق نہیں اُن کے مسئلے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ92نیوز)
فیس بک کمینٹ