گزشتہ روز محسن داوڑ اور علی وزیر کی سربراہی میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے کارکنوں نے سکیورٹی چیک پوسٹ پر حملہ کرکے متعدد اہلکاروں کو زخمی کر دیا۔ یہ حملہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے، یہ اچھی بات ہے کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ریاستی رٹ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور وزیرستان میں امن کے قیام کیلئے دفعہ 144 نافذ کی گئی ہے ، دہشت گردی کے واقعات کی تحقیق کرنے سے عیاں ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا تعلق انڈیا اور دوسرے ملک دشمن ملکوں سے ہے ، پچھلے دنوں ہمارے گاؤں دھریجہ نگر کے نزدیکی گاؤں بستی لاٹکی میں وزیرستان سے ایک نوجوان عنایت اللہ شہید کی میت آئی وہ نوجوان اپنے وطن سے محبت کرنے والا تھا اور وطن پر ہی نثار ہو گیااُس کی ملازمت کا بیشتر حصہ وزیرستان میں گزرا تھا وہ بتاتا تھا کہ آپریشن کے دوران جو دہشت گرد پکڑے جاتے تھے بظاہر اُن کے چہرے پر داڑھیاں اور ماتھے پر محراب ہوتے تھے مگر تحقیق کرنے پر اُن کا تعلق غیر مسلم بیرونی طاقتوں سے ثابت ہوتا تھا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دہشت گردی کی یہ جنگ اسلام اور پاکستان کے خلاف ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس ضمن میں بلاول زرداری اور مریم نواز کے علی داوڑ کے حق میں بیانات درست نہیں ہیں۔ اس کارروائی کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے پچھلے دنوں کہا گیا کہ پشتون تحفظ موومنٹ کیلئے مہلت ختم تو یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوا تھا کہ مہلت دینا ہی درست نہ تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا شکار ہوا ہے مگر دہشت گردی کے اسباب پر غور کیا جائے تو اس کے تانے بانے افغانستان سے شروع ہو کر افغانستان پر ہی ختم ہوتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ افغانستان کیلئے کون کام کرتے ہیں اور اُن کو سہولتیں دینے والے کون ہیں؟ جب سے فاٹا کو خیبرپختونخواہ کا حصہ بنایا گیا ہے تو شر پسندوں کے حوصلے اور بھی بڑھ گئے ہیں۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ مقتدر قوتوں کو فوری طور پر سرائیکی صوبے کے مسئلے پر غور کرنا چاہئے اور ٹانک و ڈی آئی خان کو خیبرپختونخواہ سے نکال کر سرائیکی صوبے کا حصہ بنانا چاہئے تا کہ گومل زون دہشت گردوں کی آمد و رفت سے بچ سکے۔ مجھے یاد آیا کہ میں نے ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کو ڈی آئی خان میں ٹارگٹ کلنگ بند کرانے کے حوالے سے درخواست بھیجی تھی ۔ میری درخواست جی ایچ کیو پنڈی سے ڈیرہ اسماعیل خان آئی ۔ مجھے بلایا گیا تو ٹارگٹ کلنگ ریکارڈ کی فراہمی کے سلسلے میں ملک اسلم اعوان صاحب نے میری بہت مدد کی ۔ میں نے اپنی درخواست میں لکھا کہ ’’ صوبہ خیبرپختوانخواہ کے سرائیکی علاقہ جات ڈیرہ اسماعیل خان و ٹانک میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے اور سرائیکی بولنے والوں کی نسل کُشی ہو رہی ہے، ان واقعات کا مقصد خطے میں خوف و ہراس کی کیفیت پیدا کر کے مقامی لوگوں کو اپنے قدیم وطن سے نقل مکانی پر مجبور کرنا ہے اور یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں گھرانے ڈیرہ اسماعیل خان و ٹانک سے دوسرے علاقوں میں منتقل بھی ہو چکے ہیں۔‘‘ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سرائیکی وسیب کی تہذیب خیبرپختونخواہ سے نہیں بلکہ اپنے سرائیکی وسیب سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک صدی سے زائدعرصہ گزر جانے کے باوجود ڈی آئی خان ڈویژن، تہذیبی ، ثقافتی ، کاروباری اور سیاسی لحاظ سے صوبہ سرحد ( کے پی کے ) کے ثقافتی ، معاشی اور سیاسی وجود کا جزو نہیں بن سکا۔تہذیب کے حامل قومیں اس بات کا ادراک رکھتی ہیں کہ ایک تہذیب اور ایک قوم کو ایک دوسرے سے الگ کرنا کتنا بڑا جرم ہے ، البتہ حملہ آور اس کا ادراک نہیں کر سکتے ۔ ہم مذہب کے ٹھیکیداروں کی بات بعد میں کریں گے لیکن پشتون قوم پرست جو کہ پونم کے چارٹر کے مطابق سرائیکی کو الگ قوم تسلیم کرتے ہوئے سرائیکی صوبے کی حمایت کرتے ہیں ، وہ ضرور سوچیںکہ آخر کیا وجہ ہے کہ ڈیرہ ڈویژن کے 100 فیصد کاروباری رشتے اور زرعی و تجارتی معیشت کا دارومدار ملتان پرہے ، یہاں کا باشندہ پشاور کا رخ نہیں کرتا بلکہ 100 فیصد کاروباری اور زرعی سرگرمیوں کا رخ سرائیکی وسیب کی جانب ہے۔ ڈی آئی خان ڈویژن کے تمام تہذیبی و ثقافتی مظاہر جن میں گھوڑا دوڑ ،نیزہ بازی ، کشتی ، کبڈی ،گسنی ، بیلوں اور دوسرے جانوروں سمیت تمام روایتی کھیل بھکر، دیرہ غازی خان ،ملتان اور سرائیکی وسیب سے گندھے ہوئے ہیں ۔ ڈی آئی خان کا کوئی کھلاڑی پشاور ، لکی مروت اور کوہاٹ نہیں جاتا اور نہ ہی وہاں کے کھلاڑی ڈیرہ اسماعیل خان آتے ہیں ۔ ڈی آئی خان جو اس خطے میں گولڈ اور کشیدہ کاری ( کڑھائی ) کی سب سے بڑی منڈی ہے، زرگری اور کشیدہ کاری کے شعبے میں تمام کام کرنے والی 100 فیصد لیبر ملتان اور سرائیکی وسیب کے دوسرے شہروں سے لائی جاتی ہے ۔ زرعی انجینئرنگ کے تمام آلات ، بیج ، کھادیں اور زرعی اجناس کے تخم تک ملتان اور جھنگ سے لائے جاتے ہیں ۔ ڈی آئی خان ڈویژن کے تمام مذہبی مسالک کے وابستگان اپنے مذہبی مناسک اور دینی وظائف کی بجا آوری کی خاطر سرائیکی وسیب کا رخ کرتے ہیں ۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی طرح ٹانک میں بھی بڑے بڑے سرائیکی شاعر، ادیب اور دانشور پیدا ہوئے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بر صغیر کی تاریخ میں ہندوستان کے شہنشاہ شیر شاہ سوری کا بہت بڑا نام ہے ، وہ پہلا شخص تھا جس نے سولہویں صدی میں ہندوستان کو مواصلاتی سہولتوں سے آشنا کیا اور سڑکوں کا جال بچھایا لیکن یہ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ اس کا تعلق سرائیکی وسیب کی ٹانک بستی روڑی سے تھا۔ سرائیکی رہنما ظہور دمانی شہید کا تعلق بھی اسی ضلعے سے تھا ۔ یہ خطہ صدیوں سے زرخیز ہونے کے ساتھ ساتھ مردم خیز بھی رہا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ یہاں بڑے بڑے حریت پسند اور مشاہیر پیدا ہوئے لیکن دہشت گردوں نے اس خطے کے اصل تہذیبی و ثقافتی پہچان کو مسخ کر دیا ہے اور توسیع پسندی کے نظریے سے یہاں بم دھماکے اور فرقہ ورانہ فسادات کرائے گئے اور وسیب کے لوگ نقل مکانی پر مجبور کر دیئے گئے۔چھوڑے گئے گھروں میں وہ آئے جن کا سرائیکی تہذیب اور ثقافت سے کوئی تعلق نہیں ۔ ضیا الحق دور میں ایک پلاننگ کے تحت افغان مہاجرین کے بڑے بڑے کیمپ یہاں قائم ہوئے ۔ اب اسلحہ بردار اس خطے کے مالک اور مقامی مہاجر نظر آتے ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ