نواب مظفر خان تاریخ اسلام کا بہت بڑا کردار ہے جسے درباری تاریخ نویسوں نے فراموش کیا مگر وہ اسلام کے ہیرو کی حیثیت سے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ نواب مظفر خان 1757ء میں ملتان کے شاہی محل میں پیدا ہوئے اور ملتان کے عظیم صوفی بزرگ حضرت حافظ جمال اللہ ملتانی سے تعلیم و تربیت حاصل کی بعد میں یہ محل انہی کے نام سے موسوم ہوا یہ ستم ظریفی بھی ملاحظہ کیجئے کہ گزشتہ دور حکومت میں نواب مظفر خان محل کو مسمار کرکے دل کا ہسپتال بنایا گیا مگر اس کا نام نواب مظفر خان کی بجائے چودھری پرویز الٰہی کارڈیالوجی ہے حالانکہ پوری دنیا میں تاریخی مقامات کو محفوظ کیا جاتا ہے کہ یہ آثار قوموں کے اساس کہلاتے ہیں مگر ہمارے ہاں سب کچھ الٹ ہوتا ہے ایک ستم یہ کہ تاریخی ورثاء مسمار کیا گیا دوسرا یہ کہ نواب مظفر خان کا نام ہی مٹا دیا گیا۔ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ 2 جون 1818ء کو سقوطِ ملتان ہوا ۔ اس دن رنجیت سنگھ کی فوج نے سلطنتِ ملتان پر قبضہ کیا ۔ وسیب کے لوگ اور جماعتیں یہ دن یومِ سیاہ کے طورپر مناتی ہیں ۔ اس دن پورے وسیب میں سیمینار، ورکشاپس، کانفرنسیں اور احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں ۔ والئی ملتان نواب مظفر خان شہید نے سکھا فوج کی مزاحمت کرتے ہوئے ملتان کی سپاہ کے ساتھ ساتھ اپنی اور اپنے اہل عیال کی جوعظیم قربانی دی ، کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے ۔ ملتان کی جغرافیائی حیثیت اتنی وسیع اور کشادہ ہے کہ اس میں پاکستان تو کیا پورا جہاں سما سکتا ہے، ملتان کے بارے حضرت امیر خسرو نے کہا کہ ’’ چہار چیز است تحفہ ملتان ، گرد ، گرما ، گدا و گورستان ‘‘ اگر آج امیر خسرو زندہ ہوتے تو ہم ان سے سوال کرتے کہ کن کن حملہ آوروں نے ملتان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر اسے گرد آلود کر کے گورستان میں تبدیل کیا اور وہ ملتان جسے ’’ بیت الذہب ‘‘ یعنی سونے کا گھر کہا گیا ، کو کاسہ گدائی تک کس نے پہنچایا ؟ ملتان کی شان صرف اتنی ہی نہیں کہ اپنی کتاب کشف المحجوب میں حضرت داتا گنج بخش ؒ نے لاہور کو یکے از مضافات ملتان کہا بلکہ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی نے ملتان کے بارے میں کہا کہ ’’ ملتانِ ماء بجنت اعلیٰ برابر است ، آہستہ پابنہ کہ ملک سجدہ می کنند‘‘ ملتان کے بارے میں ایک سرائیکی کہاوت ہے ۔ اسی طرح ملتان کے بارے میں ایک ہندی کہاوت پورے ہندی ادب میں موجود ہے کہ ’’ آگرہ اگر ، دلی مگر ، ملتان سب کا پِدر ‘‘ ۔ 2 جون 1818ء کو نواب مظفر خان نے رنجیت سنگھ کی سکھا فوج سے جنگ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ٗسکھا فوج نے قلعہ ملتان پر قبضہ کر لیا ٗ نواب کی آل میں سے دو بیٹے اور چند سپاہی جو زندہ بچے قیدی کر لئے گئے اور انہیں لاہور بھیج دیا گیا تاریخ میں یہ ’’ قیدی تخت لہور دے‘‘ کہلائے ٗ سقوط ملتان کے بعد سکھا فوج نے لوٹ مار شروع کر دی ٗ سرکاری خزانہ لوٹنے کے بعد سکھا فوج گھروں میں داخل ہوئی ٗ وہاں بربریت کی انتہاء ہوئی ٗ وہاں لوٹ مار کے علاوہ انسانوں کو تہ تیغ کیا گیا ٗ بچوں کو سانگوں پر ٹانگ دیا گیا ٗ تاریخ کی کتب میں درج ہے کہ غیرت کا یہ عظیم واقعہ بھی ملتان کے حصے میں آیا کہ اپنی عصمت و ناموس کو سکھ ہوس پرستوں سے بچانے کیلئے ملتان کی سینکڑوں و ہزاروں دوشیزاؤں نے کنوؤں میں چھلانگیں مار دیں اور جب کنویں لاشوں سے بھر گئے تو ان کے منہ بند کر کے انہیں اجتماعی قبریں قرار دیدیا گیا۔ ملتان پر قبضے کے بعد سکھوں نے جس طرح لاہور میں مسجدوں کو اصطبل بنایا ٗ قرآن مجید کی بیحرمتی کی ٗ اذانوں کی آواز بند کر دی ٗ لائبریریاں جلا دیں یہی کچھ سکھوں نے ملتان میں بھی کیا۔ سقوط ملتان کے واقعات قلمبند کرتے ہوئے مورخین لکھتے ہیں ۔ جون کے مہینے میں سورج آگ برسا رہا ہے ٗ گرمی سے انسان تڑپ رہے ہیں ٗ بدنام زمانہ ڈاکوؤں کے جتھے پر مشتمل ’’سکھا فوج‘‘ نے قلعہ ملتان کا چاروں طرف سے محاصرہ کر لیا ہے ۔ راستے بند ٗ پانی اور راشن کی سپلائی بند ٗ بارود کی تڑ تڑاہٹ میں سکھ کمانڈر کھڑک سنگھ کی طرف سے ملتان کے فرمانروا کو پیغام آتا ہے کہ ہتھیار ڈال کر جان کی امان لے لو ٗ جواب ملتا ہے ہمیں جان کی نہیں ایمان کی امان چاہئے ٗ سکھا فوج قلعے کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرتی ہے ٗ ملتانی سپاہ کا قائد اور اس کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی سب سے آگے ہیں ٗ مسلم فرمانروا کے دو بیٹے شہید ہوئے تو سکھا فوج نے کہا ٗ بوڑھے نواب اب تمہاری کمر ٹوٹ چکی ہے ٗ تختِ ملتان کی چابیاں ہمارے حوالے کر دو ٗ مسلم فرمانروا کہتا ہے ملتان کی چابیاں میرے پیٹ میں ہیں ٗ سکھا فوج کی بربریت جاری ہے ٗ سورج سوا نیزے پر ہے ٗ گھمسان کی جنگ ہو رہی ہے ٗ ملتانی سپاہ کے ساتھ ملتان کے فرمانروا کی عظیم بیٹی دخترِ ملتان صبیحہ بی بی اور اس کے ایک اور بھائی کو قتل کر دیا جاتا ہے ٗ سکھ کمانڈر کی طرف سے پیغام آتا ہے کہ ضدی نواب! اب تمہاری آل اور نسل ختم ہونے کے قریب ہے اب تم ہاتھ کھڑے کر دو ٗ ملتانی فرمانروا کا واپسی جواب ہوتا ہے مجھے پیدا کرنے والے کی قسم پانچ تو کیا پانچ لاکھ بیٹے اور بیٹیاں ہوں تب بھی میں ایک ایک کر کے اپنی ماں دھرتی اور ملتان کی ’’ویل‘‘ دیدوں ۔ یہ ملتان کی تابناک تاریخ ہے ۔ملتان جو سرائیکی وسیب کا مرکز ہے کی بہادری کے حوالے سے تاریخ مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ