کیا سول اور عسکری ادارے میں کشیدگی موجود ہے ؟ یہ ریاضی کا ایسا سوال نہیں جو سمجھ نہ آئے ۔ مانتے ہیں کہ ن لیگ کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں ۔ بظاہر نیا معاملہ ریٹائرڈ جنرل راحیل شریف کو لاہور میں الاٹ ہونے والی 868 کنال اراضی کا ہے ۔ الاٹمنٹ کی خبریں حکومتی ذرائع سے اس تواتر کے ساتھ جاری کی گئیں کہ آئی ایس پی آر کو بیان جاری کرنا پڑا کہ یہ ادارے کو بدنام کرنے کی کوشش ہے اور یہ امر سول و ملٹری یکجہتی کی موجودہ فضا کے بھی خلاف ہے ۔ حکومت کے حامی صحافی آئی ایس پی آر کے بیان کو بھی ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ یہ صحافی یا ن لیگ کے حکومتی ذرائع لاہور کی 868 کنال کو تو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں لیکن سرائیکی وسیب میں جو لاکھوں ایکڑ زمین ناجائز طور پر الاٹ کر دی گئی کیا آج تک لاہور کے میڈیا نے اس پر بات کی ؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا لاہور کی زمین مقدس ہے اور سرائیکی خطے کی اراضی حرام کا مال ؟ زمینوں کی الاٹمنٹ کے مسئلے پر عرض کرنے سے پہلے میں بتانا چاہتا ہوں کہ کشیدگی کے عوامل اور اسباب پر غور کی ضرورت ہے ۔ جنگ کے نجم سیٹھی 29 جنوری 2017ء کی اشاعت میں لکھتے ہیں کہ ” اسٹیبلشمنٹ بدستور خبروں میں ہے اور بد قسمتی سے یہ خبر اچھی نہیں ہے ۔ یہ بات درست ہے کہ فوج جمہوریت کا نیا سفر شروع کرنے والی اس ریاست کا مرکزی کردار ہے ، چنانچہ اسے میز پر نمایاں مقام ملنا چاہئے لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ ملک کو متوازن حالت میں چلانے کیلئے خود پارسائی ، تنک مزاجی اور برہمی کے اظہار کی بجائے دانشمندی اور غیر متنازع کردار کی ضرورت ہے ۔اسی قسم کی رائے نوائے وقت کے مطیع اللہ جان نے بھی ایک کالم میںدی مذکورہ بالا دونوں سینئر صحافیوں نے اپنے مضامین میں بار بار اس بات کو دہرایا کہ معیار کے الگ الگ پیمانے کیوں ہیں ، تو یہی بات میں اپنے انہی سینئرز سے عرض کرتا ہوں کہ آپ جنرل راحیل شریف کو الاٹ کی گئی زمین پر ضرور بات کریں لیکن کیا کبھی آپ نے ناجائز الاٹمنٹوں کے حوالے سے سرائیکی وسیب پر ہونے والے مظالم کے بارے میں بات کی ؟ میں بتانا چاہتا ہوں کہ چولستان میں جو لوگ صدیوں سے آباد ہیں وہ وہاں پیاس ،افلاس اور مسلسل موت سے نبرد آزما ہیں مگر جوں ہی پانی کی سکیمیں آئیں تو وہ محروم کر دیئے گئے اور باہر سے آنے والی نئی مخلوق وہاں کی چودھری بن گئی ۔ میاں نواز شریف اور ان کے حامیوں کو ابھی تک رقبے الاٹ ہو رہے ہیں کہ ریونیو بورڈ لاہور میں ہے اور وہ سرائیکی وسیب کی دھرتی کے وارث ہیں جسے مرضی آئے دے دیں ، سرائیکی وسیب کی لاکھوں ایکڑ زمین دس روپے فی ایکڑ سالانہ کے حساب سے دی گئی ہے اور یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ سرائیکی وسیب میں ہونے والی الاٹمنٹوں کا مکمل ریکارڈ اٹھایا جائے تو بارہ آنے ، ایک روپیہ اور ڈیڑھ روپیہ فی ایکڑ تک بھی رقبے دیئے گئے اور وہ بھی اقساط کی شکل میں ۔ اس کے ساتھ بوگس قسم کی سکیموں مثلاً بھیڑ پال سکیم، گھوڑی پال سکیم ، بوٹی پال سکیم وغیرہ کے نام پر بھی الاٹمنٹوں کا طوفان سرائیکی وسیب میں اٹھایا گیا ، یہ اتنا بڑا فراڈ اور لینڈ سکینڈل ہے جس کی پوری دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ کیا کبھی کسی صحافی کو توفیق ہوئی کہ وہ اس ظلم کے خلاف بات کرے 1993ء میں نمبرداری سکیم کے تحت ہزاروں ایکڑ زمین سرکاری افسروںکو دی گئی ۔ اس سکیم کے تحت جنرل پرویز مشرف موضع نو آباد تحصیل یزمان ضلع بہاولپور کے نمبردار ٹھہرے ۔کیا کبھی کسی نے کوئی بات کی؟ سرائیکی وسیب پر ناجائز الاٹمنٹ کا ظلم انگریز دور سے آج تک جاری ہے ، قیام پاکستان کے فوری بعد سرائیکی وسیب کے تھل کا رقبہ ہڑپ کرنے کے لئے تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کی گئی اور قدیمی مالکان کے انتقال منسوخ کر کے رقبہ ٹی ڈی آئی کے نام کر دیا گیا ۔ تھل چھ اضلاع پر مشتمل ہے ، صرف ایک ضلع لیہ میں پانچ لاکھ اڑتالیس ہزار دو سو باسٹھ ایکڑ رقبے کی ملکیت سے اصل مالکوں کو محروم کر دیا گیا ۔ پھر ٹی ڈی آئی نے جو ظلم کئے وہ الگ داستان ہے جس کا اس چھوٹے سے مضمون میں احاطہ ممکن نہیں اور یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ مشرف دور میں سرائیکی وسیب کے رکھوک کی زمینیں حوالے کی گئیں اور یہ کام چودھری پرویز الٰٰہی وزیراعلیٰ پنجاب کے دستخطوں سے تکمیل پذیر ہوا ۔ اسی طرح سرائیکی وسیب کے علاقے ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں جائیں تو زمینوں کی ناجائز الاٹمنٹوں سے ہاتھ رنگنے والے مولانا فضل الرحمان ، ان کا خاندان اور ان کی جماعت کے پشتون رہنما بھی محروم نہ رہے اور وہاں بھی لاکھوں ایکڑ زمینیں ناجائز طور پر الاٹ ہوئی ہیں ۔ اس ظلم کے خلاف سب نے اپنے ہونٹ کیوں سی رکھے ہیں ؟ کیا سرائیکی وسیب کے لوگ پاکستانی نہیں ؟ ان کے وسائل اور انکی دھرتی لوٹ کا مال ہے ؟ موجودہ کشیدگی کے بارے میں طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں ، مجھے ایک سندھی دوست نے کہا کہ سرائیکی تنظیمیں فوج کے حق میں کیوں جلوس نکالے ہوئے ہیں؟ فوج سے توقع کی بجائے آپ صوبہ سرائیکستان کا مقدمہ جمہوری فورم پر کیوں نہیں رکھتے ؟ میں نے کہا کہ پہلے سوال کا درست جواب تو وہ دے سکتے ہیں جنہوں نے جلوس ’’برآمد‘‘ کئے ، البتہ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ ن لیگ نے پنجاب اسمبلی سے خود صوبے کی قرارداد پاس کرائی ، اپنے منشور میں بھی لکھا کہ ہم صوبہ بنائیں گے ، پھر یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں بھی زیر بحث رہا ،ا س مسئلے پر پیپلز پارٹی نے پارلیمانی کمیشن قائم کیا ۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ ایوان بالا یعنی سینیٹ جو کہ چاروں صوبوں کا منتخب آئین ساز ادارہ ہے اس نے دو تہائی اکثریت سے سرائیکی صوبے کا بل پاس کر کے صوبے کو آئینی تحفظ دےدیا تو کیا جمہوری قوتوں نے اس فیصلے کو تسلیم کیا ؟ نہیں بالکل نہیں کیا بلکہ چار سال سے سرائیکی وسیب کے زخموں پر نمک پاشی کی جا رہی ہے ۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم ، وزیراعلیٰ اور گورنر ایک ساتھ ملتان آئے تو انہوں نے سرائیکی وسیب کی بہتری کیلئے ایک لفظ تک نہ بولا ، ہم سمجھتے ہیں کہ سرائیکی وسیب کے لوگوں کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے تو ان حالات میں آپ خود بتائیں کہ وسیب کے لوگ کس طرف دیکھیں؟ تخت لاہور کے حکمرانوں نے سرائیکی خطے کے بل بوتے پراپنی بادشاہت قائم کر رکھی ہے ، آج سرائیکی صوبہ قائم ہو جائے تو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بھی محض اسی طرح کا وزیراعلیٰ ہوگا جیسا کہ سندھ کا یا دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ۔ اسی طرح میاں نواز شریف بھی محض اسی طرح کے وزیراعظم ہونگے جیسا کہ یوسف رضا گیلانی تھے ۔ نواز شریف اب تو اتنے طاقتور ہیں کہ وہ عدلیہ سے بھی ٹکر لے لیتے ہیں اور فوج سے بھی ۔ میری تجزیہ نگاروں سے اتنی درخواست ہے جلتی پر تیل کی بجائے غیر جانبدارنہ تجزیوں کے ذریعے مفاہمتی کردار ادا کریں ۔ آخر میں ایک بات اپنوں سے شکوے کے حوالے سے بھی بات کروں گا کہ مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ شاہ محمود قریشی نے اسمبلی میں کسی کے ” اشارے “ پر سخت تقریر کی ۔ میرا سوال یہ ہے کہ مخدوم جاوید ہاشمی خود کس کے ” اشارے “ پر ن لیگ میں نہ ہوتے ہوئے اس کی وکالت کر رہے ہیں ۔مخدوم جاوید ہاشمی ہوں ، مخدوم شاہ محمود قریشی ہوں ،مخدوم یوسف رضا گیلانی ہوں یا وسیب کے دوسرے سیاستدان جب تک یہ دوسروں کے اشاروں پر ناچتے رہیں گے ، انکی حیثیت کٹھ پتلی سے بڑھ کر نہ ہوگی ۔
فیس بک کمینٹ