لاہور سے واپس آ رہا تھا ، بزرگ دوست سئیں علامہ منظور احمد آفاقی نے عظیم سرائیکی شاعر سئیں قیس فریدی کی وفات کی افسوسناک خبر دی ‘وہ فرمارہے تھے کہ آج مورخہ 3اگست 2018ء بروز جمعتہ المبارک 4بجے صبح قصبہ مئو مبارک میں وفات ہوئی ۔یہ المناک خبر سن کر فوری طور پر میں نے قیس فریدی صاحب کا نمبر ڈائل کیا تو گھر سے رونے کی آواز آرہی تھی ،آہوں اور سسکیوں کے ساتھ نمبر اٹنڈ کرنیوالا شخص بتارہا تھا کہ چاچا سئیں اللہ کوں پیارے تھی گن۔غالباً یہ قیس فریدی صاحب کے اس بھتیجے کی آواز تھی جسے یتیمی کی حالت میں قیس فریدی صاحب نے پالا پوسا تھا ۔ قیس صاحب اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے انسان بھی تھے ۔ انہوں نے پوری زندگی صاف ستھری بسر کی ۔ ان پر مشکلات کے پہاڑ ٹوٹے مگر نہ کبھی مالی کرپشن کی نہ کسی دوست کو تنگ کیا ۔ وہ اپنی ذات میں انجمن تھے ۔ اداروں سے بڑھ کر ادبی کام کیا ۔ مشاعروں میں نہیں جاتے تھے مگر گوشہ نشینی میں بھی ان کا چرچا ہر جگہ موجود تھا ۔ ان کے شاگردوں اور دوستوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ قیس فریدی صاحب کی وفات صرف سرائیکی وسیب ہی نہیں پورے ملک کے ادبی حلقوں کیلئے نہایت ہی صدمے کا باعث ہے۔ہم ان کی وفات پر جتنا افسوس کریں کم ہے ، سچ تو یہ ہے کہ میرے پاس وہ لفظ نہیں جو تعزیتی کلمات کا احاطہ کرسکیں۔ عظیم سرائیکی شاعر قیس فریدی کا اصل نام مرید حسین اور والد کا نام حاجی قطب الدین ہے۔ 1950ء میں خان پور کے نواحی قصبے کھائی خیر شاہ میں پیدا ہوئے ، نو عمری یعنی چھٹی کلاس سے شاعری شروع کر دی ۔ اردو فاضل کرنے کے بعد وہ محکمہ تعلیم میں بحیثیت مدرس ملازم ہوئے ۔ان کا پہلا شعری مجموعہ ارداس کے نام سے 1980ء میں ممتاز اکیڈمی بھٹہ واہن نے شائع کیا اس کے بعد ان کے تین مجموعے نمرو،توں سورج میں سورج مُکھی اور آم شام جھوک پبلشر نے شائع کیے اورایک شعری مجموعہ 1995ء میں سرائیکی ادبی مجلس بہاولپور نے شائع کیا اسی طرح سرائیکی اصطلاحات کے نام سے دھریجہ ادبی اکیڈمی نے کتاب شائع کی ۔ سب سے اہم یہ کہ ادارہ جھوک نے ان کا مرتب کردہ دیوان فرید شائع کیا ، جسے بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی مگر بعض حاسدین نے اسے تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔اس کے علاوہ11جون 1990ء کو پہلا سرائیکی اخبار ’’جھوک‘‘ شائع ہوا تو اس میںقیس صاحب مضامین بھی لکھتے اور روزانہ ان کا قطعہ شائع ہوتا رہا ۔قیس فریدی کی بہت سے کتابیں ابھی غیر مطبوعہ ہیں ان کی ایک کتاب ’’گھاگھر‘‘ کے نام سے بزم ادراک خان پور نے شائع کی ہے ۔قیس فریدی بنیادی طو رپر سرائیکی کے شاعر تھے مگر انہوں نے اردو میں بھی شاعری کی ،ان کے استاد کا نام انعام اسعدی شاہجہان پوری ہے ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ قیس فریدی کی وفات پورے سرائیکی وسیب کیلئے بہت بڑے صدمے کا باعث ہے ،ان جیسے شاعر اور لکھاری روز روز نہیں بلکہ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں ۔ہم اس بات کا برملا اظہار کریں گے کہ قیس فریدی کئی سالوں سے کینسر کے موذی مرض میں مبتلاتھے ،ہم نے بارہا حکومت کی توجہ مبذول کرائی کہ ان کا علاج سرکاری خرچ پر کرایا جائے مگر حکومت نے کوئی توجہ نہ دی اور آخر وہ سسک سسک کر فوت ہوئے ،یہ صدمہ پورے سرائیکی وسیب کیلئے کسی بڑے صدمے سے کم نہیں ہے ۔پنجاب حکومت کو لاہور کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف نے پچھلے دنوں گلوکار سئیں ظہور کو پانچ لاکھ روپے کا چیک بھیجا کہ یہ آپ کی بیٹی کی شادی کیلئے ہے اسی طرح گلوکارہ ناہید اختر جب ملتان میں تھیں تو اسے کوئی پوچھتا نہ تھا لیکن جب وہ لاہور گئیں تو میاں شہبازشریف نے ایک کروڑ روپے کا چیک بھیجا کہ یہ آپ کے علاج کیلئے ہے۔ہم کہتے ہیں کہ پنجاب کے ادیبوں ،شاعروں اور فنکاروں کی خدمت ضرور ہونی چاہئے لیکن سرائیکی وسیب کو نظر انداز کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ آج اگر ہمارا صوبہ ہوتا تو کیا ہمارے سرائیکی شاعر ،ادیب اور فنکار اس طرح سسک سسک کر مررہے ہوتے ،ہماری عدالتِ عالیہ سے بھی درخواست ہے کہ وہ اس کا نوٹس لے کہ سرائیکی وسیب کو دیوار سے کیوں لگادیا گیا ہے ۔ قیس فریدی خان پور سے جس قصبے میں منتقل ہوئے اس کا نام مئومبارک ہے وہاں عظیم روحانی پیشوا حضرت حمید الدین حاکم کا مزار ہے اور عظیم سرائیکی شاعر مولوی لطف علی کا مقبرہ بھی اسی قصبے میں ہے ‘ علاوہ ازیں یہ مخادم میانوالی قریشیاں کا علاقہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ کسی مخدوم کو ان کے علاج کی طرف کیوں توجہ نہ ہوئی ؟ایک سوال یہ ہے بھی ہے کہ وہ قیس فریدی ذات کے سومرہ تھے مگر اپنے نام کے ساتھ فریدی لکھتے تھے یہ نسبت خواجہ فرید کے حوالے سے تھی اور انہوں نے فریدیات پر بھی بہت کام کیا لیکن افسوس کہ خانوادہ فرید کے کسی شخص کو ان کے علاج کی توفیق نہ ہوئی ۔ نہ ہی حکومت پنجاب کا محکمہ اوقاف اس طرف متوجہ ہوا حالانکہ محکمے کے پاس خواجہ فرید کی وقف اراضی ساڑھے بارہ ہزار ایکڑ سے زائد ہے۔ ایک پیر قیس صاحب کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ تمہارا وقت قریب ہے ، مر جاؤ تو ہمارے پاس دفن کرنے کی وصیت کر جاؤ۔ قیس صاحب سخت ناراض ہوئے اور مجھے فون کر کے کہا کہ کیا شفا یابی کی دعا ایسے ہوتی ہے؟ قیس فریدی نے جوکچھ کیا سرائیکی کی محبت میں کیا آج ان کا نام ہے ۔بڑے شہروں کی نسبت سے لوگ بڑے شاعر اور بڑے لکھاری بنے ہوئے ہیں ۔ حالانکہ دیہات کی گودڑیوں میں لعل موجود ہیں ۔ شاعر ہفت زبان، سب کو کہلوانے کا شوق ہے ۔ قیس صاحب اپنی زندگی میں ایسا کہنے سے منع کرتے تھے ، معروف رائٹر جناب نذیر لغاری نے ان کو سرائیکی کا غالب لکھا تو اس پر قیس صاحب نے کہا کہ غالب بہت بڑے شاعر ہیں مگر کسی بھی شخص کی پہچان اپنی ہوتی ہے ۔ شاعر ہفت زبان نہ سہی لیکن یہ حقیقت ہے کہ قیس صاحب نے سرائیکی ‘ اردو ‘ سندھی ‘ ماراڑی اور دوسری زبانوں میں شاعری کی ہے۔ شاعری کے علاوہ وہ نثر کے بھی بادشاہ تھے ۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے لسانیات پر بھی کام کیا اور گو کہ انہوں نے حکمت کو کبھی پیشہ نہ بنایا مگر وہ بہت بڑے حکیم تھے اور ہومیو ڈاکٹر خورشید محمد ملک سے ان کی بہت دوستی تھی ۔ ان کے ہزاروں دوست اور عقیدت مند تھے مگر ڈاکٹر خورشید محمد ملک ‘ غلام حسین کیفی اور مرحوم منیر احمد دھریجہ سے ان کی دوستی مثالی تھی ۔ وہ بہت عظیم تھے ، یہی وجہ ہے کہ قیس فریدی کا نام پورے وسیب میں احترام سے لیا جاتا ہے اور وہ اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ہمیشہ زندہ رہیں گے کہ بڑے لوگ کبھی نہیں مرتے وہ مر کر بھی زندہ رہتے ہیں اپنی سوچ ،اپنے فن اور اپنی شاعری کے حوالے سے ۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ