اپنے موضوع پر بات کرنے سے پہلے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اخبارات میں وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار کی ایک تصویر شائع ہوئی ہے ‘ جس میں ان کو فیملی کے ساتھ جہاز میں سفر کرتے دیکھایا گیا ہے، اعتراض اس طرح ہو رہاہے کہ جیسے سابقہ وزرائے اعلیٰ گدھا گاڑی پر سفر کرتے تھے اور موجودہ وزیراعلیٰ نے جہاز کا انتخاب کر کے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا۔ سرائیکی کی ایک کہاوت ہے ’’ بھاندے دا سب کجھ بھاوے ، انڑ بھاندے دا گراں وی نہ بھاوے‘‘ اس کا مطلب ہے کہ دل پسند سب کچھ کھا جائے کوئی پرواہ نہیں اور جو پسند نہ ہو اس کا ایک نوالہ بھی برداشت نہیں ۔ تو میں وزیراعلیٰ صاحب سے اتنا کہوں گا کہ ابھی ابتدا ہے ، احتیاط سے کام لیں کہ ان کا تعلق لاہور سے نہیں تونسہ سے ہے۔ ڈھابوں پر چائے پینے اور جہازوں کی سیر کرنے کیلئے ابھی بہت وقت پڑا ہے ، لازم ہے کہ وہ دن رات صوبے کی ترقی اور اپنے وعدے کے مطابق سو دن میں نئے صوبے کے قیام کیلئے کام کر کے نئے صوبے کے وزیراعلیٰ بنیں تاکہ یہ الزام ختم ہو سکے کہ پنجاب میں نیا صوبہ بنانے کے نام پر ووٹ لینے والوں نے وزارت اعلیٰ کے بدلے مینڈیٹ کا سودا کر لیا۔ آئین میں ترمیم کر کے فاٹا کو صوبہ خیبرپختونخواہ میں ضم کر دیا گیا تو لازم تھا کہ سرائیکی وسیب کے اضلاع دیرہ غازی خان اور راجن پور میں بھی تمنداریوں کا خاتمہ کیا جاتامگر ایسا نہیں کیا گیا ۔ انگریزوں نے 1890ء میں اپنے مخصوص مقاصد اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کیلئے استعماری حربے استعمال کر کے سامراجی تمنداریاں قائم کیں اور وسیب کے انسانوں کو غیر انسانی رویوں کے حامل تمنداروں کے حوالے کیا، جنگل کا قانون بہت بڑا ظلم تھا اور اس سے بڑا ظلم انگریزوں کے جانے کے بعد بھی برقرار رکھنا ہے۔ تمندار تُرکی کے لفظ تومان دار کی تبدیل شدہ شکل ہے، جس کا مطلب ہے ہزاروں سپاہیوں کا سالار۔ آئین پاکستان کسی بھی نجی شخص یا گروہ کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کوئی لشکر بنائے یا اس کا سپہ سالار بنے۔ تمنداری بنیادی انسانی حقوق کے بھی خلاف ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے ، آزادی فطرت کا نام ہے۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انسان کی فطری آزادی کو سلب کرے۔ ہمارے نبی کریم ؐ آقائے دو جہاںؐنے فرمایا کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر ماسوا تقویٰ کوئی فوقیت حاصل نہیں تو ان حالات میں آقا و غلام پیدا کرنے والی تمنداریوں کا کیا جواز ہے ؟چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں پنجاب اسمبلی نے غیر انسانی ، غیر آئینی اور غیر اخلاقی تمنداریوں کے خاتمے کیلئے متفقہ قرارداد منظور کی مگر اس پر عمل نہیں ہو سکا ۔ عمران خان اور سردار عثمان خان کی پہلی تبدیلی تمنداریوں کے خاتمے کے نوٹیفکیشن کی صورت میں آنی چاہئے ۔ ورنہ لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ کیا جاگیرداری اور تمنداری کو مضبوط کرنے کا نام تبدیلی ہے ۔ 1973ء کا آئین پاکستان بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور آئین پاکستان میں اقوام متحدہ کی طرف سے لاگو کردہ قوانین کو تسلییم کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے یونیورسل ڈیکلیئریشن آف ہیومن رائٹس اور انٹرنیشنل کنوینٹ ، سوشل اینڈ پولیٹکل رائٹس جنرل اسمبلی کی قرارداد 2200A (XXI) بتاریخ 16 دسمبر 1966ء جسے 23 مارچ 1967ء کو نافد العمل کیا گیا ہے ، ان کے مطابق انسان کے بنیادی حقوق کا تحفظ ریاستوں کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے چند ایسے حقوق ہیں جو ریاستیں قانون سازی کر کے اپنے شہریوں سے ان کے حقوق چھین لیتی ہیں ، ان کا ذکر ضروری ہے۔تمام انسان پیدائشی طور پر آزاد ہیں اور حقوق اور وقار کے لحاظ سے برابر ہیں ، ہر شخص سارے حقوق اور آزادیوں کا مستحق ہے ۔ ہر شخص کو زندگی ،آزادی اور شخصی تحفظ کا تحفظ حاصل ہے اور قانون کے سامنے سب برابر ہیں ، ہر شخص کو بغیر مداخلت سوچنے، بولنے ، اپنی سوچ کو زبانی ، تحریری یا کسی بھی ذریعے تک دوسروں تک پہنچانے کا حق حاصل ہے۔ ہر شخص کو پر امن اجتماع کرنے اور جماعتیں بنانے کا حق حاصل ہے ۔ کسی کو بھی جماعت میں شامل ہونے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ ہر شخص کو قومی معاملات اور انتخابات میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے اور برابری کی بنیاد پر قومی ملازمت کرنے کا حق حاصل ہے۔ تمنداروں کے علاقے میں کسی انسان کو کسی طرح کے بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں ، وہاں ہونے والے الیکشن بھی ڈھونگ ہوتے ہیں ، وہاں تمندار سب کچھ ہے۔ انگریز چلا گیا ، مگر انگریز کے بنائے گئے قوانین اب بھی نافذ ہیں ۔ ہندوستان میں جاگیرداری اور تمنداری کو ختم کیا گیا مگر ہمارے ہاں اس کو ختم کرنے کی بجائے مضبوط سے مضبوط تر بنایا جا رہا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ انگریزوں نے اپنے وفاداروں کو جاگیریں دینے کے ساتھ ساتھ سرائیکی علاقے کے ضلع دیرہ غازی خان میں یہ ظلم بھی کیا کہ وہاں کے پہاڑی علاقوں میں تمنداریاں قائم کیں ، ان میں تمن مزاری ، تمن دریشک ، تمن گورچانی ، تمن لغاری ، تمن کھوسہ ، تمن لُنڈ ، تمن قیصرانی اور تمن بزدار شامل ہیں ۔ انگریزوں نے تمنداروں کی الگ الگ حد بندیاں قائم کیں اور ان کو مجسٹریٹوں کے اختیار کے ساتھ بارڈر ملٹری پولیس رکھنے کا اختیار دیا ، وہاںبنیادی انسانی حقوق سلب کر لئے گئے اور وہاں کے انسانوں کو قرون اولیٰ کی طرف دھکیل دیا گیا۔ تمن میں رہنے والے انسانوں کی تقدیر کے فیصلے وہاں کا تمندار کرتا ہے، آج بھی ان کو بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سرائیکی وسیب کے لوگوں کو جینے کا حق دیا جائے ۔ اور وسیب کے لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق مہیا کئے جائیں ۔ اگر آج بھی حقوق نہ ملے تو سوال یہ ہے کہ انسان کو اس کے بنیادی حقوق کب ملیں گے۔ ایک سروے کے مطابق ضلع دیرہ غازی خان اور ضلع راجن پور کے 11 ہزار مربع کلومیٹر پر تمنداریاں قائم ہیں ۔ ان میں 335 مواضعات شامل ہیں ۔ جبکہ 25بی این پی تھانے اور 17 پکٹس ہیںجو کہ صرف اور صرف تمنداروں کے رحم و کرم پر ہیں ۔ ان علاقوں کو نو گو ایریا بنا دیا گیا ہے ۔ یہ علاقے سماج دشمن عناصر کے لئے محفوظ پناہ گاہ سمجھے جاتے ہیں ۔ تاوان کی غرض سے انسانوں کو اغوا کر کے ان علاقوں میں پہنچایا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ منشیات فروشوں ، راہزنوں اور ڈاکوؤں کے یہ علاقے پناہ گاہ بنے ہوئے ہیں ۔ دہشت گرد اور ڈاکو بھی ان علاقوں میں چھپ جاتے ہیں کہ یہ علاقے صوبائی پولیس کی مداخلت سے آزاد ہیں ۔ سرائیکی علاقے میں بوسن گینگ ، چھوٹو گینگ اور اس طرح کے جتنے بھی گینگ وجود میں آئے ، ان کے تانے بانے کسی نہ کسی لحاظ سے ٹرائبل ایریا سے ملتے ہیں ۔ ٹرائبل ایریا میں بسنے والے لوگ معصوم اور پاکستان کے شریف شہری ہیں ، وہ اپنے بنیادی انسانی حقوق کیلئے بے تاب ہیں ۔ وقت آ گیا ہے کہ تبدیلی کا نعرہ لگانے والے پہلی تبدیلی اپنے گھر سے شروع کریں اور سردار عثمان خان بزدار اپنی تمنداری سمیت تمام تمنداریوں کے خاتمے کا اعلان کریں ۔ اس سے تمنداریوں میں بسنے والے انسانوں میںخوشی کی لہر آئے گی اور لوگ تبدیلی محسوس کریں گے۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ