11 اگست ، اقلیتوں کا عالمی دن ہے ، 11 اگست 1947ء کو بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق مساوی ہونگے ۔ 11 اگست 2018 ء کو سرائیکی وسیب کے علاقے امان گڑھ (چولستان ) کا عظیم کھلاڑی رام درشن یوم آزادی کے کھیلوں میں حصہ لینے کیلئے لاہور جاتا ہے اور پریکٹس کے دوران گر کر زخمی ہو جاتا ہے ۔ اسے میو ہسپتال میں داخل کرایا جاتا ہے ، وہاں علاج پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور میو ہسپتال لاہور میں وہ لاوارثی کی موت مر جاتا ہے اور یہ سب کچھ اس دور میں ہو رہا ہے جب ملک کا وزیراعظم ایک کھلاڑی ہے ۔ اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ یہ ستم بھی ملاحظہ دیکھئے کہ درشن رام کے مرنے کے بعد بھی حکومتی عمائدین میں سے کسی نے تعزیت کرنا تک گوارا نہیں کی ۔تھوڑی دیر کے لئے سوچئے اس کا اقلیتی برادری کے ذہن پر کیا اثر پڑے گا ؟ گزشتہ روز رحیم یارخان سے ایک خبر شائع ہوئی ، جس کی تفصیلات نے سب کو رُلا دیا۔ خبر کی تفصیل کے مطابق لاہور میں 14 اگست کی تقریبات کی پریکٹس کے دوران زخمی ہونیوالا جمناسٹک کا کھلاڑی درشن رام منگی زندگی کی بازی ہار گیا۔ چولستان کے گاؤں امان گڑھ سے تعلق رکھنے والے درشن رام منگی نے کم عمری میں جمناسٹک کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کر لیا ۔ درشن رام 14 اگست کے حوالے سے لاہور میں ہونیوالی ایک تقریب میں پرفارم کرنے کیلئے چولستان سے لاہور اپنی جمناسٹک ٹیم کے ہمراہ گیا ہوا تھا ۔11 اگست کوپریکٹس کے دوران درشن رام گر کر شدید زخمی ہو گیا۔ سر اور گردن پر آنے والی چوٹ سے اس کے جسم کا نچلا حصہ مفلوج ہو گیا ۔ درشن رام میو ہسپتال کے نیورو سرجری وارڈ کے بیڈ نمبر 5 پر گیارہ دن زندگی کی جنگ لڑتے لڑتے ہار گیا ۔ جب اس کی ڈیڈ باڈی رحیم یارخان اس کے آبائی علاقے امان گڑھ پہنچی تو ہر طرف آہ و بقا تھی ۔ لواحقین نے بتایا کہ اس ہیرو کو زخمی ہونے پر حکومت نے بے یار و مدد گار چھوڑ دیا اور وہ میو ہسپتال میں لا وارثوں کی طرح پڑا رہا ۔ درشن کے دیگر اعزازات میں ڈسٹرکٹ جمناسٹک چمپئن شپ 2011ء میں فرست پوزیشن ، 2017 ء میں پنجاب انٹر ڈسٹرکٹ چمپئن شپ لاہور میں پہلی پوزیشن شامل ہے۔ درشن رام منگی کا والد رام داس چولستان کے گاؤں امان گڑھ میں درزی کا کام کرتا تھا ۔اس کے چار بھائی اور تین بہنیں ہیں ۔ اس کے بہن بھائیوں نے بتایا کہ درشن رام کو بچپن سے جانبازی والے کھیل پسند تھے ۔ وہ ٹی وی فلم میں ہیروز کو قلابازیاں کھاتے دیکھتا یا ٹی وی پر جمناسٹک کے کھلاڑیوں کی الٹی سیدھی قلا بازیاں دیکھتا تو ویسے کرنے کی کوشش کرتا ، درشن کا شوق تھا کہ وہ بھی کبھی بڑا کھلاڑی بنے گا۔ درشن رام کو کھیل کی دنیا سے عشق تھا ، دنیا کا کوئی ایسا کھیل نہیں جس سے اس کی دلچسپی نہ ہو۔ وہ اپنے شوق کی تکمیل کیلئے ہر جگہ جاتا اور کھیل کسی طرح کا بھی ہوتا ، اگر اس میں حصہ نہ لیتا تو اسے دیکھتا ضرور ۔ وہ اپنے شوق کی تکمیل کیلئے 2009ء میں رحیم یارخان جا کر اپنے استاد میاں زاہد سے ٹریننگ لینے لگا ۔ جمناسٹک کے سٹیپ جو کہ عام کھلاڑی دو سال میں سیکھتا ہے ‘ وہ دو ماہ میں سیکھ گیا ۔ وہ روزانہ امان گڑھ سے رحیم یارخان سائیکل پر آتا اور واپس جاتا ۔ اس کی قابلیت کو دیکھ کر اس کے استاد نے اپنے نیو سٹار جمناسٹک کلب کا جونیئر انسٹرکٹر مقرر کر دیا ۔ وہ بہت خوش تھا کہ میں نے کھیل میں بہت ترقی حاصل کر لی ہے ۔ آہستہ آہستہ اس نے جمناسٹک کے 40 سٹیپس میں مہارت حاصل کرلی ، اس کے بعد آہستہ آہستہ اپنا جمناسٹک کلب بنا لیا ، وہ اپنے گاؤں کے لوگوں کو بلا معاوضہ جمناسٹک کی تربیت دیتا ۔ اس دوران ان کو مختلف کھیلوں میں اعزازات حاصل ہونے لگے ۔ 2012ء اور 2013ء میں گورنمنٹ پائلٹ سکینڈری سکول رحیم یارخان کے سالانہ سپورٹس فیسٹیول میں لونگ جمپ، تھری سٹپ جمپ میں فرسٹ اور نیزا بازی ، گولا ، ہمبر تھرو ، Shot put throw، Javalain throw میں سکینڈ پوزیشن حاصل کر کے بہترین ایتھلیٹ کا خطاب حاصل کیا۔ گورنمنٹ خواجہ فرید پوسٹ گریجویٹ کالج کے 53 سالانہ سپورٹ فیسٹول 2014ء میں Javelin Throw، Disc Throw، Long Jump، 3000 میٹر سائیکل ریس میں سکینڈ پوزیشن حاصل کر کے بہترین ایتھلیٹ کا خطاب اپنے نام کیا ۔ 2015ء کے بھی سپورٹس فیسٹیول میں Discus Throw، Sack Race ، High Jump، Relay Race(4×100)میں فرسٹ پوزیشن ، 155 میٹر سائیکل ریس ، Javelin Throw ، Pillow Fighting میں سیکنڈ پوزیشن حاصل کی اور اپنے ہی کالج کا تین سالہ ریکارڈ توڑ کر اپنے نام کیا ۔ ڈسٹرکٹ جمناسٹک چمپئن شپ 2011ء میں فرسٹ پوزیشن بہاولپور، باڈی بلڈنگ ایسوسی ایشن 2014ء میں پانچویں پوزیشن ، 2017ء میں پنجاب انٹر ڈسٹرکٹ جمناسٹک چمپئن شپ لاہور میں پانچویں پوزیشن حاصل کی ۔ انکے پاس ان گنت ایوارڈز ، شیلڈیں اور تعریفی اسناد تھیں ۔ نہایت دکھ اور صدمے سے لکھ رہا ہوں کہ چولستان کے اس عظیم اور اکلوتے کھلاڑی کو گنوا کر ہم نے قومی نقصان کیا ، وہ انمول ہیرا تھا ۔ وہ تمام سرکاری تقریبات میں حصہ لیتا ۔ 23 مارچ، 14 اگست ، 25 دسمبر جو بھی تہوار آتا ۔ اس موقع پر اس کی خوشی دیدنی ہوتی ۔ غیر مسلم ہونے کے باوجود وہ مسلمانوں کی عید بھی اپنی ہولی کی طرح مناتا ۔ اپنی مٹی ، اپنی دھرتی اور اپنے وطن پاکستان سے اس کی محبت جذباتی تھی۔ لیکن وہ حکومتی رویئے سے مایوس تھا ۔ گزشتہ سال 14 اگست کو شیخ زید آڈیٹوریم میں جشن آزادی کی تقریبات میں اس نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا مگر جب منتظمین نے اس کے عظیم فن کی داد نہ دی اور صحیح معنوں میں اس کی حوصلہ افزائی نہ کی تو اس موقع پر کہا کہ آج میرا یہ آخری پروگرام ہے کیونکہ میں 9 سالوں سے اپنی مدد آپ کے تحت جمناسٹک کر رہا ہوں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ مجھے وسیب سے محبت کرنے والوں نے سینکڑوں اعزازات اور انعامات دیئے ہیں لیکن لیکن حکومت کی طرف سے پذیرائی نہیں ملی۔ درشن رام کا حوالہ چولستان کا ہے ، در اصل وہ پاکستان کا کھلاڑی تھا اور پاکستان کا سرمایہ تھا ۔ وہ اچھا کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھا سماجی کارکن بھی تھا اور بہت اچھا انسان بھی تھا ۔ غریب گھر میں پیدا ہونے کے باوجود اس کے پاس جو آتا وہ ضرورت مندوں کو دے دیتا ۔ اس کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ اس نے آج تک کسی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا ۔ اس نے بار ہا خون کا عطیہ بھی دیا اور اپنی ہندو کمیونٹی کے ساتھ ساتھ وہ بلا رنگ ، نسل و مذہب سب کے کام آتا ۔ اس کی وفات سے پورا وسیب سوگوار ہے ، میری وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب سے درخواست ہے کہ اس عظیم کھلاڑی کو قومی ایوارڈ تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا جائے اور اس کے لواحقین کو چولستان میں اراضی اور سرکاری ملازمتیں دی جائیں اور اس کے نام سے رحیم یارخان میں جمناسٹک سنٹر بنایا جائے ۔
(بشکریہ:روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ