لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے کہا کہ جنوبی پنجاب صوبہ بنانا ہے ’’لیکن ‘‘کب بنے گا اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب صوبے کیلئے کمیٹی بنا دی ہے، دیکھیں کمیٹی کب اپنا کام مکمل کرے ،انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنوبی پنجاب صوبے کیلئے ججز ، وکلاء، بیورو کریٹس اور صحافیوں سے بھی مشاورت کی جائے گی ۔وزیراعلیٰ عثمان خان بزدار کی گفتگو سے اپوزیشن کی اس بات کو تقویت ملی ہے کہ حکومت صوبہ بنانے میں مخلص نہیں ۔ صوبہ بنانے کا وعدہ الیکشن سٹنٹ تھا ،اب لوگ یہ بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ 100 دن والی بات کہاں گئی؟ جہاں تک کمیٹی کی بات ہے تو جو کام نہ کرنا ہو ، اس کی کمیٹی بنا دی جاتی ہے۔ جیسا کہ گزشتہ دور حکومت میں ملتان سب سول سیکرٹریٹ کمیٹی بنائی گئی، ملک رفیق رجوانہ سربراہ تھے ، 36 اجلاس ہوئے ، رجوانہ صاحب کو گورنری دیکر معاملہ داخل دفتر کر دیا گیا ، سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی وزارت اعلیٰ کے بدلے ایسا کیا گیا ہے؟ سردار عثمان بزدار جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے رکن تھے ، جنوبی پنجا ب صوبہ محاذ نے تحریک انصاف سے 100 دن میں صوبہ بنانے کا تحریری معاہدہ لیا اور تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی ، میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ سردار عثمان بزدار کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ نہیں صوبہ لینا چاہئے تھا ۔ اگر وزیراعلیٰ بن بھی گئے تو ان کو یہ بات نہیں کرنی چاہئے کہ صوبہ تو بنے گا ’’لیکن ‘‘ یہ معلوم نہیں کب بنے گا ؟ وزیراعلیٰ کی گفتگو سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ مدعی کی بجائے مدعا علیہ بن چکے ہیں ۔ وہ صوبہ بنانے کی بات مشکوک بناتے نظر آتے ہیں ۔ ابھی ابتداء ہے ، وسیب کے لوگ 100 دنوں کا انتظار کر رہے ہیں مگر وہ فکر مند بھی ہیں کہ کیا اب بھی صوبہ نہیں بنے گا؟ عربی زبان کے لفظ ’’ ناصح‘‘ کا سرائیکی مترادف ’’ متو ‘‘ ہے ۔ وسیب میں میاں متو، متو خان ، جام متو اور ملک متو جیسے نام ہر جگہ موجود ہیں ۔ جس کا مطلب ہے مت دینے والا یعنی نصیحت کرنے والا ۔ میاں ناصح اور میاں متو ہر جگہ پائے جاتے ہیں ۔ مسئلہ کوئی ہو میاں متو کے نصیحت آموز فرمان پہلے جاری ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔ نصف صدی پر محیط سرائیکی صوبے کی جدوجہد میں نہ جانے کتنی زندگیاں کام آ گئیں ۔ نہ جانے کتنے لوگوں نے اپنا سب کچھ اس پر لُٹا دیا ۔ مگر بہت سے ایسے ’’ میاں نصیح الدین ‘ جن کا اس تحریک پر کچھ نہیں لگا ،نصیحتیں بکھیرنے کیلئے میدان میں کود پڑے ہیں ۔کوئی کہہ رہا ہے کہ 100 دن تک کوئی بات نہ کرو۔ چپ کا روزہ رکھ لو ، ہم کہتے ہیں کیوں بھئی ، کیا یہ معاہدہ ہوا تھا کہ ہم 100 دن تک نہیں بولیں گے اور گونگے بن جائیں گے ۔کوئی کہہ رہا ہے کہ جنوبی پنجاب پر اعتراض نہ کرو ،جو مل رہا ہے اسے فوراً لے لو ۔ میاں متو کی سوچ پر حیرانی ہوتی ہے کہ ابھی صوبہ تو کیا اس کا ہیولہ ہی وجود میں نہیں آیا، یہ شور پہلے مچا رہے ہیں ۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ لسانی صوبے کی بات سے اجتناب کرو ۔ ہم پوچھتے ہیں کہ کون لسانیت کی بات کر رہا ہے ؟ سرائیکستان صوبہ اسی طرح خطے کی شناخت کے حوالے سے ہے جیسے سندھ ، پنجاب ، بلوچستان وغیرہ ۔ یہ خطہ انسان دوستی کا اتنا بڑا مرکز ہے کہ یہاں آج تک ایک بھی لسانی جھگڑا نہیں ہوا ۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ مٹھائی کے ٹوکرے اٹھاؤ اور بنی گالہ پہنچ کر عمران خان کو مبارکباد دو اور صوبہ کمیٹی بنانے پر شکریہ ادا کرو ۔ میں کہتا ہوں کہ ہم مٹھائی نہیں چارٹرڈ آف ڈیمانڈ دیں گے اور شکریہ صوبہ بننے پر ادا کریں گے۔ وزیراعلیٰ صاحب! اپنی بات پر قائم رہئے اور 100 دنوں میں صوبے کیلئے پیشرفت کیجئے ۔ دو ارکان پر مشتمل صوبہ کمیٹی پر اکتفا کرنے کی بجائے پارلیمانی صوبہ کمیشن بنوائیے اور صوبہ کی بات وہاں سے شروع کریں جہاں صوبہ چھوڑا گیا تھا ۔سرائیکی صوبے کا بل سپریم اور آئینی ادارے سینیٹ دو تہائی اکثریت کے ساتھ پاس کر چکا ہے۔ صوبے کو ایک لحاظ سے آئینی تحفظ بھی حاصل ہو چکا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں اب اس بناء پر اس سے انحراف نہیں کر سکتی کہ اس کی ایڈوائس پر صوبہ کمیشن بنا تھا ۔ سرائیکی صوبے کا 80 فیصد کام ہو چکا ہے۔ سابقہ صوبہ کمیشن کی سفارشات بھی موجود ہیں ۔ اب ’’لیکن ‘چونکہ ‘چنانچہ ‘‘کی بجائے صوبہ بنایئے ، اگر کوئی جماعت مخالفت کرتی ہے تو تمام اسمبلیوں کا مشترکہ اجلاس بلا کر بھی یہ مسئلہ حل کیا جا سکتاہے۔ وزیراعلیٰ صاحب! آپ صوبہ کیلئے ججوں اور بیورو کریٹس سے بھی مشورہ ضرور کیجئے مگر اصل مشورہ سٹیک ہولڈرز سے بنتا ہے اور ان سے بنتا ہے جنہوں نے سرائیکی صوبے کیلئے زندگیاں دیں۔ درست پہلو یہ ہے کہ عمران خان خیبرپختونخواہ کے دو سرائیکی اضلاع ٹانک و ڈی آئی خان اور آپ بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب وسیب کے اضلاع واگزار کر کے سرائیکی صوبے کا قیام عمل میں لائیں ۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ