6 ستمبر پاکستان کی تاریخ کا اہم دن ہے ۔ 6 ستمبر 1965ء کو بھارت کی بزدل افواج نے رات کی تاریکی میں پاکستان پر حملہ کیا ، پاک افواج نے اسے بری طرح ناکام بنایا۔ بھارت کو اپنی عددی برتری کا زعم تھا ، اس نے جنگ میں ہوائی جہاز، بحری جہاز ، توپ ، ٹینک اور تمام جنگی ساز و سامان استعمال کیا ، بھارت نے لاہورکے محاذ پر 13 اور سیالکوٹ کے محاذ پر 15 بڑے حملے کیے لیکن پاک افواج نے ان سب کو ناکام بنایا ۔ 17 دن کی اس جنگ کے بارے میں امریکا کے معروف جریدے ٹائمز کے لوئس کرار نے لکھا کہ پاکستان ناقابل شکست ہے کہ وہاں کے لوگ موت کو آنکھ مچولی سمجھتے ہیں ۔ یوم دفاع کے حوالے سے دوسری باتوں کے علاوہ وسیب کا بھی ذکر کروں گا اور بتاؤں گا کہ دوسرے علاقوں کے ساتھ ساتھ سرائیکی وسیب کی بھی بہت خدمات ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ 1849ء میں ملتان میں انگریز فوج کے ساتھ جو مڈ بھیڑ ہوئی تو انگریزوں نے سرائیکی وسیب کے لوگوں کے لئے نہ صرف فوج بلکہ دوسرے اداروں میں شمولیت کے دروازے بند کئے بلکہ صوبہ ملتان کو وسیب کے لوگوں کی منشا اور مرضی کے بغیر صوبہ پنجاب کا بھی حصہ بنا یا۔ یہ بھی ایک الگ المیہ ہے کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد بھی قلعہ ملتان پر ایک توپ سجا کر رکھی گئی ہے جس پر اس کا تعارف لکھا ہوا ہے کہ یہ عظیم الشان چینل فتح ملتان کے وقت کام آئی ، اسی طرح قلعہ ملتان پر وہ انگریز جو جنگ میں مارے گئے ان کے آسمان بوس مقبرے بنے ہوئے ہیں لیکن جن عظیم لوگوں نے ماں دھرتی کا دفاع کیا ، ان کی قبروں کا نام ونشان نہیں ۔ یوم دفاع کے موقع پر دوسری باتوں کے علاوہ ان باتوں پر بھی غور ضروری ہے کہ ہم نے بدیسی حملہ آوروں کے نشانات ختم کرنے ہیں اور پاک وطن کے اپنے جرات مندوں کی خدمات کو اجاگر کرنا ہے۔ جب ہم سرائیکی ادب کا مطالعہ کرتے ہیں تو کوئی شاعر ایسا نہیں جس نے پاکستان کی محبت خصوصاً پاک بھارت جنگ کے حوالے سے نہ لکھاہو۔ اس حوالے سے سرائیکی شاعروں کے ساتھ ساتھ گلوکاروں نے بھی ملی ترانے گا کر اپنے وطن سے محبت کا ثبوت دیا ۔ اس موقع پر ایک واقعہ درج کرنا چاہتا ہوں کہ ہم پہلی سرائیکی کانفرنس میں شرکت کیلئے دہلی گئے ، وہاں ملتان سے نقل مکانی کرنے والے پروفیسر ورما جی ملے ، جو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ1970ء میں ریڈیو ملتان شروع ہوا تو ہم سب گھر والے اکٹھے ہوکر اسے سنتے اور سرائیکی پروگرام ’’ جمہور دی آواز ‘‘کو سننے کیلئے نہ صرف ہم گھر والے بلکہ ہمارے آس پاس والے دوسرے سرائیکی بھی اکٹھے ہو جاتے اور ہم سب مل کر بڑی چاہت سے پروگرام سنتے اور بہت خوش ہوتے ۔ خصوصاً ملک صاحب اور مہر صاحب کے سرائیکی جملے تو ہمارے بچوں کو بھی یاد ہوگئے۔ سرائیکی وسیب کے شاعر عیش شجاع آبادی نے ’’ جنگ ستمبر 1965ء ‘‘ کے عنوان سے بارہ صفحات پر مشتمل نظم لکھی اور ان کی کتاب شاہنامہ پاکستان میں شائع ہوئی ، اس نظم میں پاک افواج کو خراج عقیدت پیش کیا ۔ عشی شجاع آبادی کی یہ کتاب 1997ء میں جھوک پرنٹرز کی طرف سے شائع ہوئی۔ سرائیکی وسیب کے لوگ پاک افواج میں بھرتی ہو کر خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور وسیب کے بہت سے بہادروں کو شہادت نصیب ہوئی۔ وسیب کی ایک جماعت سرائیکی قومی اتحاد کے سربراہ کرنل عبدالجبار خان عباسی ہیں ، میں نے ان سے یوم دفاع کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ’’ ہمیں پیار ہے پاکستان سے ، شہادت مطلوب و مقصود مومن ، نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی ، ملک و قوم کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانے پیش کرنے میں پاک آرمی کے بہادر سپوتوں کی بہادری اور لازوال قربانی کی داستانیں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کیلئے وسیب کی بہت خدمات ہیں ‘ خصوصاً سابق ریاست بہاولپور کی خدمات کو کسی بھی لحاظ سے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سرائیکی صوبے کے قیام کیلئے وسیب کے کروڑوں افراد کی پر امن جمہوری جدوجہد استحکام پاکستان کے لئے ہے۔ جتنا جلد ممکن ہو وسیب کے لوگوں کا صوبہ بننا چاہئے ۔ کرنل ریٹائرڈ اقبال ملک نے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ ہمارا تعلق وسیب سے ہے اور اس سے بھی بڑھ کر فخر ہے کہ ہم نے پاک وطن کیلئے خدمات انجام دیں ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ پاک فوج کیلئے وسیب کی بہت خدمات ہیں ، مختصر مضمون میں پورے وسیب کا حوالہ دینا ممکن نہیں صرف ایک ضلع کی بات کی جائے تو سرائیکی وسیب کے ضلع وہاڑی کو بھی اعزاز حاصل ہے کہ مادر وطن کی خاطر جان قربان کرنے والوں میں سے دوسرا نشان حیدر کا اعزاز حاصل کرنے والے میجر طفیل محمد شہید کا تعلق ضلع وہاڑی سے ہے۔ میجر طفیل محمد شہید نے 7 اگست 1958ء میں سابقہ مشرقی پاکستان کے علاوہ لکشمی پورہ کے محاذ پر ایسٹ پاکستان رجمنٹ کی کمانڈ کرتے ہوئے نہ صرف دشمن سے پاک سرزمین کو محفوظ رکھا بلکہ دشمن کو بھاگنے پر بھی مجبور کر دیا ۔ اس دوران مادر وطن پر اپنی جان قربان کر دی ان کی شہادت کے بعد حکومت پاکستان نے بے مثال جرات و بہادری پر نشانِ حیدر کا اعزاز عطا کیا۔ وہاڑی کے بہادر نوجوان پاک فوج کے سیکنڈ لیفٹیننٹ عبدالمعید شہید نے صرف 21 سال کی عمر میں شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لیتے ہوئے دہشت گردوں کی طرف سے پاک فوج کے جوانوں کی گاڑی پر حملہ کے نتیجے میں ایک ساتھی کے ہمراہ 13 دسمبر 2017ء کو جام شہادت نوش کر گئے ، ان کی شہادت پر ان کے والدین کا کہنا تھا کہ ہمارے بیٹے کو بچپن ہی سے پاک فوج میں جانے کا شوق تھا اور وہ کہا کرتا تھا کہ میں ملک و قوم کے دشمنوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا ہوں ۔ اللہ پاک نے اس کی سن لی اور پاک مٹی کی حفاظت کرتے ہوئے جان قربان کر دی ، ان کی شہادت پر انہیں فخر ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ڈی ایچ کیو ہسپتال وہاڑی کے ایک میڈیکل وارڈ کو سکینڈ لیفٹیننٹ عبدالمعید شہید کے نام سے منسوب کردیا ہے۔ وسیب کے ایک اور سپوت کرنل سہیل عابد عباسی نے 7 مئی 2018ء کو کوئٹہ کے علاقہ کلی الماس میں جرات و بہادری کی داستان رقم کرتے ہوئے مردانہ وار دہشت گردوں کا مقابلہ کیا ۔ سینہ پر گولیوں کا برسٹ کھا کر رہتی دنیا تک اپنا نام شہادتوں کی داستانوں میں محفوظ کر لیا ۔ ( جاری ہے )
یوم دفاع اور سرائیکی وسیب (2)
اہل ملتان خوش ہیں کہ ملتان کور کے درمیان یوم دفاع پاکستان کے موقع پر ایوب سٹیڈیم میں شہریوں کے لئے دو روزہ جنگی ساز و سامان کی نمائش شہریوں کی دلچسپی کا باعث ہے ۔ نمائش میں جدید اسلحہ ، گن شپ ہیلی کاپٹر، فائٹر ایئر کرافٹ، ٹینک ،راڈار سسٹم ، مشین گنز، برج فیلڈ ہسپتال اور دیگر سامان موجود ہے۔ نمائش میں خواتین و حضرات خصوصاً سکول و کالج کے طلبہ بہت زیادہ دلچسپی لیتے ہیں ۔ نمائش کے موقع پر وطن کی محبت سے سرشار ملی نغمے نوجوانوں کے دلوں میں ولولے بکھیرتے ہیں اور ہر شخص وطن کی مٹی کی محبت سے سرشار ہوتا ہے ۔فوجی بینڈ کی دھنیں نوجوانوں کو فوج میں شمولیت کی دعوت دیتی نظر آتی ہیں ۔ وسیب کا بچہ بچہ وطن کی محبت سے سرشار ہے ۔ ضروری ہے کہ اس موقع پر سرائیکی دھنوں میں گائے گئے ملی نغموں کا بھی اہتمام ہونا چاہئے اور وسیب میں کیڈٹ کالجوں کے قیام کے ساتھ ساتھ وسیب کے نوجوانوں کو فوج میں کمیشن حاصل کرنے کے مواقع مہیا کئے جانے ضروری ہیں ۔ اس کیلئے جس طرح سندھ رجمنٹ وجود میں لائی گئی،اسی طرح وسیب رجمنٹ ضروری ہے ۔ سرائیکی وسیب کے لوگ ایک عرصے سے مطالبہ کرتے آ رہے ہیں کہ پاک آرمی میں وسیب کے لوگوں کو بھی خدمات کے مواقع ملنے چاہئیں ۔ جس طرح کہ سندھ میں سندھ رجمنٹ وجود میں آئی ، اسی طرح وسیب رجمنٹ بھی ہونی چاہئے تاکہ وسیب کے پڑھے لکھے نوجوان کمیشن حاصل کر کے خدمات سر انجام دے سکیں ۔ وسیب کے لوگوں کا یہ مطالبہ ان کی حب الوطنی پر مبنی ہے ۔ ان کے مطالبے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان سے بھی محبت کرتے ہیں اور آرمی سے بھی محبت کرتے ہیں ۔ وسیب میں کیڈٹ کالج قائم نہیں ہو سکے ، کیڈٹ سازی میں کیڈٹ کالجوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ جس طرح حکومت نے بلوچستان کے لوگوں کو پاک آرمی میں شمولیت کیلئے مواقع مہیا کئے ہیں ، اسی طرح سرائیکی وسیب کے لوگوں کو بھی پاک آرمی میں شمولیت کے مواقع ملنے چاہییں ۔ حکومت نے بلوچستان کی پسماندگی ختم کرنے کیلئے آغاز حقوق بلوچستان کے نام سے پلان شروع کیاہوا ہے ‘ اسی طرح کا پلان سرائیکی وسیب کے لئے بھی ہونا چاہئے ، وسیب رجمنٹ کا مطالبہ اس لئے بھی جائز اور درست ہے کہ سرائیکی ریاست بہاولپور کی رجمنٹ موجود تھی ، ریاست کے پاکستان میں ضم ہونے پر وہ رجمنٹ پاک آرمی کا حصہ بنی ۔ اگرایک طرف سندھ کے لوگوں کو پاک آرمی میں نئی رجمنٹ کے قیام کی سہولت دی گئی ہے تو وسیب کا حق اس لئے زیادہ بنتا ہے کہ بہاولپور رجمنٹ پہلے سے موجود تھی اور اس کے افسران اور عام سپاہی بھی انگلینڈ سے تربیت یافتہ تھے ۔ سابق ریاست بہاولپور کی افواج کا پس منظر دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ’’پہلی جنگ کابل 1837ء شاہ شجاع کو کابل کے تخت پر بحال کرنے کی غرض سے بہاولپور کی ریاستی افواج نے خدمات پیش کیں ۔ اسی طرح دوسری جنگ کابل 1879ء میں بھی ریاستی افواج کا ذکر ملتا ہے۔ جنوبی افریقہ کی جنگ کے لئے بھی بہاولپور کے جنگی گھوڑوں نے حصہ لیا ۔ نواب محمد بہاول خان سوم نے ریاست بہاولپور کی افواج پر بہت توجہ دی اور فوجیوں کا انتخاب میرٹ پر کیا ۔ فوج میں بھرتی کیلئے فوجی کے پس منظر کو بھی سامنے رکھا جاتا۔ جیسا کہ ریاستی فوج میں چانڈیہ ، کھوسہ ، داؤد پوتہ ، دشتی ،شراور جتوئی قبائل کے لوگ قابلِ ترجیح رہے ۔ 1866ء میں نواب محمد بہاول چہارم کی وفات پر قائم ہونیوالی برطانوی ایجنسی نے فوج کی انتظامیہ کو ٹھوس بنیادوں پر مستحکم کیا ۔ نومبر 1879ء میں نواب صادق چہارم کو حکمرانی کے اختیار ملے تو انہوں نے بھی ریاستی افواج کی ترقی پر توجہ دی ۔ 1888ء میں نئی اصلاحات لائی گئیں ۔ اسی طرح 1890ء میں میجر ڈرومنڈ کی سفارش پر مزید بہتری لائی گئی ۔ 1900 ء میں جنگ چین شروع ہونے پر ریاست بہاولپور نے حکومت کو افواج کی خدمات پیش کیں ۔ نظام رجمنٹ کا قیام 1901ء میں عمل میںآیا ۔ ریاستی فوج نے 1904ء میں میڈیکل کا شعبہ قائم کیا گیا ۔ اس سال 5760مریضوں کا علاج کیا گیا۔‘‘ (بحوالہ کتاب: ریاست بہاولپور، مصنف ملک محمد دین ، صفحہ 372 تا 377، ناشر الفیصل لاہور ) ۔ قوموں پر جب بھی مشکل وقت آتا ہے تو جواں ہمت انسانوں نے جہاں بہادری کے جوہر دکھائے وہاں شاعر ،ادیب ، فنکار کسی سے پیچھے نہیں رہے ۔قومی امنگوں کو اجاگر کرنے اور قوم میں جذبہ حریت پیدا کرنے کی غرض سے 6 ستمبر 1965ء میں شعراء نے ملی اور رزمیہ گیتوں ، نظموں اور خصوصاً غزلوں اور غزل نما ترانوں کے ذریعے اپنے جذبہ حب الوطنی کا جو یادگار ثبوت فراہم کیا ہے وہ نہ صرف یہ کہ ایک قومی شعری سرمائے کے طور پر محفوظ ہو چکا ہے۔ بلکہ پوری قوم کے جذبات کی نمائندگی کرنے والے ہمارے شعراء کے قومی و ملی جذبہ کی ایک ایسی مثال کے طور پر ہمیشہ یاد رہے گا جس کا کوئی نعم البدل نہیں ۔1965ء کی جنگ کے موقع پر مسعود رانانے حمایت علی شاعر کے لکھے ’’ جاگ اُٹھا ہے سارا وطن ‘‘ ترانے گائے ۔ اس کے علاوہ ولی صاحب کا ’’ یہ غازی کا قافلہ ‘‘ ، جوش ملیح آبادی کا ’’ اے وطن ہم ہیں تیری شمع ‘‘ ، آشور کاظمی کا ’’ نعرہ حیدری ‘‘ بریگیڈیئر ضمیر احمد جعفری کا ‘‘ زندہ باد اے وطن کے غازیوں ‘‘ اور حبیب جالب کا لکھا ’’ کر دے گی قوم زندہ‘‘ ترانے گائے ۔ بہت سے دوسروں کے ساتھ مہدی حسن نے ’’ اپنی جاں نذر کرو ، اب فتح مبین ہے، وطن کی آبرو رکھ لی ، سیالکوٹ کے میدان خاردار کو دیکھ ، اس قوم کی شمشیر کی حاجت نہیں ہرتی ، تو نگہبان چمن ہے، ہم پسندوں کو نہیں جنگ گوارا، پاک شاہینوں کو سلام‘‘، عنایت حسین بھٹی نے ’’ وطن کو تم پر فخر ہے ، اے مرد مجاہد جاگ ذرا ، قدم بڑھاؤ ساتھیو اور زندہ دلوں کا گہواراہ ہے ، سرگودھا میرا شہر ‘‘ جیسے ترانے گائے ۔ عالم لوہار نے ’’ جگنی پاکستان دی ، ساڈے شیراں پاکستان دی ، جنگ دی جگنی ‘‘ جیسے فوک نغمے گائے۔ مجیب عالم نے ’’ اے میرے وطن ، پاکستان کے سارے شہروزندہ رہو پائندہ رہو ‘‘ اوراستاد امانت علی خان نے ’’ اے وطن تجھ کو جنت بنائیں گے ہم، وطن پاک کی عظمت کے سہارے ہو تم اور اے شہیدان وطن تم پر سلام ‘‘ رونا لیلی نے ’’ تم کو سلام میرا اور وطن کی راہ میں جو مرتے ہیں ‘‘ جیسے ملی و جنگی ترانے گا کر نہ صرف عوام بلکہ افواج کے لہو کو گرمایا اور ان میں جذبہ حب الوطنی اجاگر کیا ۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی زبانوں سندھی ،پنجابی ، بلوچی ، پشتو کے ساتھ ساتھ سرائیکی میں بھی بہت سے ترانے لکھے گئے ، ریڈیو پاکستان کے مختلف اسٹیشنوں پر نشر ہوتے رہے ۔ شاعروں ، ادیبوں اور اہل قلم کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز)
فیس بک کمینٹ