ظہور احمد دھریجہکالملکھاری
جاگیرداروں کی سیاست .. ظہور دھریجہ

نواب مشتاق خان گورمانی ، ملک خضر حیات ٹوانہ ، ممتاز خان دولتانہ ، نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان ، ملک غلام مصطفی کھر ، نواب صادق حسین قریشی ، نواب عباس خان عباسی ، مخدوم سجاد قریشی ، فاروق خان لغاری ، سید یوسف رضا گیلانی سمیت سرائیکی وسیب کے جاگیرداروں کی ایک لمبی فہرست ہے جو قیام پاکستان سے لیکر کسی نہ کسی حوالے سے بر سر اقتدار چلی آ رہی ہے ۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ملک رفیق رجوانہ پنجاب کے گورنر تھے اور آج سردار عثمان خان بزدار پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں ۔ جب ہم لاہور جاتے ہیں تو ہمیں یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ آپ کے اپنے علاقے کے جاگیردار ہمیشہ بر سر اقتدار رہے ، اگر انہوں نے اپنے علاقے کے لئے کوئی کام نہیں کیا تو آپ ان سے کیوں نہیں پوچھتے اور اگر لاہور کے میاں برادران بر سر اقتدار آئے اور انہوں نے اپنے لاہور کیلئے ترقیاتی کام کئے تو آپ کو حسد نہیں رشک کرنا چاہئے ۔ میری یہ تمہید اس لئے ہے کہ سردار عثمان خان بزدار کو اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے ‘ وہ ایک پڑھے لکھے آدمی ہیں ‘ ان کے والد بھی استاد رہے ، ان کا گھرانہ تعلیم سے محبت کرنے کے حوالے سے مشہور ہے، تو ضروری ہے کہ وہ وسیب کے لئے کچھ کر جائیں تاکہ ان کا نام ، ان کے جانے کے بعد بھی اچھے لفظوں میں پکارا جائے اور دوسرے جاگیرداروں کی طرح ان کا نام وسیب کیلئے ایک طعنہ اور ملامت نہ بن جائے۔ جس طرح کے صوبے کے قیام کیلئے 100 دن کا وعدہ کیا گیا ہے ، اس کیلئے اقدامات بھی شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ ہنگامی طور پر نئے صوبے کے سیکرٹریٹ کیلئے جگہ کا تعین کے ساتھ عمارات کی تعمیر کیلئے فنڈز اور ٹینڈر کی ضرورت ہے۔ عبوری طور پر انتظامی کام ابھی سے بھی شروع کرایا جا سکتا ہے اور صوبے کے قیام کیلئے اس بات سے ماورا ہو کر سوچنا ہوگا کہ صوبہ بن جانے پر پنجاب کا وزیراعلیٰ کون ہوگا؟ عہدہ آنی جانی چیز ہے، اصل مسئلہ وفاق پاکستان کے توازن ، وسیب کے کروڑوں افراد اور ان کی آنیوالی نسل کے مستقبل کا ہے۔ میں ایک اور موضوع کی طرف آتا ہوں کہ ہمارا عام آدمی تو اپنی جگہ رہا ، وسیب سے تعلق رکھنے والے بہت سے ارکان اسمبلی اور بڑے بڑے سیاستدانوں کو بھی اس بات کا ادراک نہیں کہ صوبے کا کیا فائدہ ہے ؟ جب ن لیگ سے الگ ہونے والے ارکان اسمبلی صوبہ محاذ بنا رہے تھے تو بہت سے ارکان اسمبلی کی طرف سے مجھ سے پوچھا گیا کہ صوبے کا کیا فائدہ ہے؟ جتنا کچھ میں جانتا ہوں ، ان کو بھی بتایا اور اپنے 92 نیوز کے قارئین کیلئے عرض کرتا ہوں کہ فائدہ ایک نہیں ہزار ہیں ۔ہمارا اپنا صوبہ ، خطے کی شناخت کا ضامن ہوگا۔ سرائیکی صوبہ بنے گا تو خطے کی ماں بولی کو بھی اس کا حق ملے گااور اس کی ترقی اور بہتری کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں بنے گا اور صوبہ سرائیکستان بننے کے بعد وسیب کا اپنا گورنر ، وزیراعلیٰ ، چیف سیکرٹری ، سپیکر اسمبلی اور وزیر ہونگے جو اپنے وسیب کی عوام کو جوابدہ ہونگے۔ جاگیردار ہمیشہ اقتدار کے مراکز کا طواف کرتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ سرائیکی وسیب کے مالدار اور جاگیردار لاہور ، اسلام آباد ، کراچی اور پشاور وغیرہ میں کوٹھیاں بنانا پسند کرتے ہیں ۔ صوبہ بننے کے ساتھ وسیب کے تعلیم یافتہ اور مالدار لوگ بھی پشاور ، لاہور کی بجائے اپنے وسیب میں رہنا پسند کریں گے اور ہمار اپنا صوبائی سیکرٹریٹ اور سول سروس ہوگا۔ جو ہمارے وسیب کے ترقیاتی پروگرام تربیت دے کر مکمل کرے گا اور اس طرح وسیب کے سارے مسئلے حل ہونگے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہماری اپنی ہائیکورٹ ہوگی اور سپریم کورٹ کا علیحدہ بنچ ہوگا۔ سی ایس ایس میں ہمارا کوٹہ الگ ہوگا اور ہمارا اپنا پبلک سروس کمیشن ہوگا جو صرف وسیب کے لوگوں کو ملازمتیں دینے کا پابندہوگا۔ ہماری اپنی پولیس ہوگی جس میں وسیب کے جوان ہی بھرتی ہونگے اور فوج میں وسیب رجمنٹ بھی بن سکتی ہے اور کیڈٹ کالجوں کا اجراء ہوگا جس سے وسیب کے لوگ فوج میں کمیشن حاصل کر کے جرنیل کے عہدوں پر پہنچ سکیں گے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے صوبے کے سب سرکاری اور نیم سرکاری محکموں میں نوکریاں صرف وسیب کے لوگوں کو ملیں گی۔ ملازمتوں میں ہمارا بد ترین استحصال ہو رہا ہے۔ صوبہ بنے گا تو ہمارے صوبائی محکمے ہمارے لوگوں کیلئے ہونگے۔ ہمارے لوگوں کے قریب ہونگے ۔ فارن سروسز میں حصہ ملے گا اور ہمارا اپنا علیحدہ صوبائی بجٹ ہوگا جو صرف سرائیکی وسیب پر خرچ ہوگا۔ پانی کے وسائل میں بھی برابر حصہ ملے گا۔ صوبے کے ساتھ ہمارے وسیب میں زرعی آمدن ، دولت اور وسائل وسیب کی ترقی کیلئے خرچ ہونگے اور لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہوگی ۔ ہمارے صوبے کا علیحدہ تعلیمی بجٹ ہوگا ۔ جس کی وجہ سے بے شمار تعلیمی ادارے قائم ہونگے اور شرح تعلیم بڑھے گی ، زیادہ تعلیم زیادہ خوشحالی کی ضمانت ہوگی۔ تعلیم کے میدان میں ہمارے ساتھ بد ترین ظلم ہو رہا ہے۔ صوبہ بنے گا تو ہمارے صوبے کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں صرف وسیب کے لوگوں کو داخلہ ملے گا۔ یہ بھی سچ ہے کہ سرائیکی وسیب میں یونیورسٹیاں ، کیڈٹ کالج اور اعلیٰ تعلیمی ادارے بنیں گے اور سرائیکی وسیب میں ٹیکس فری انڈسٹریل زون اور انڈسٹری قائم ہوگی ۔ بے روزگاری ختم ہوگی۔ یہاں رہنے والے سرائیکی ، پنجابی ، پٹھان، مہاجر بھائی بھی برابر فائدہ اٹھائیں گے اور لاہور اور پشاور کے دھکوں اور سرائیکی دشمن افسروں کے ہتک آمیز سلوک سے جان چھوٹ جائے گی ۔ سرائیکی وسیب کے وسائل لاہور اور پشاور کی کارپٹ سڑکوں میل ہا میل لمبے پارک ، فلائی اوور ، رنگ روڈ ، میٹرو بس اور مانو ریل پر خرچ نہیں ہونگے ۔ صوبہ بننے سے وسیب کے لوگوں کو ایک نئی شان اور ایک نئی پہچان ملے گی ، ان کو صدیوں بعد ایک بار پھر اقتدار اور اختیار حاصل ہوگا ، جس طرح غریب کو دوسروں کے محلات کی بجائے اپنی جھونپڑی میں سکون اور عافیت حاصل ہوتی ہے ، اسی طرح خطے کے باسی کو بھی اپنا اختیار اور اپنا صوبہ چاہئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وسیب میں سے سینیٹر نہیں بنائے جاتے ، صوبہ بنے گا تو سینٹ میں سرائیکی صوبے کا علیحدہ کوٹہ ہوگا اورہمارے وسیب کے لوگ ہی سینیٹر ہونگے ۔ ایک مسئلہ مخصوص نشستوں کے انتخاب کا ہوتا ہے ‘ ہمیشہ سرائیکی وسیب کو نظر انداز کر کے وسیب کے حصے کی نشستیں ہمیشہ لاہور یا من پسند علاقوں کو دی جاتی رہی ہیں ۔ ابھی حال ہی میں ن لیگ اور تحریک انصاف نے خواتین کی مخصوص نشستیں ایک سے ایک بڑھ کر لاہور کو دے دیں ۔ صوبہ بنے گا تو کم از کم یہ نشستیں یہیں پر رہیں گی۔یہ بھی دیکھنے میں آیاہے کہ سرائیکی وسیب کے بہت سے لوگ ایک صوبائی یا قومی اسمبلی کی نشست کے ساتھ ساتھ کوئی سینیٹ کی ایک نشست لینے کیلئے کروڑوں روپیہ خرچ کر دیتے ہیں ۔ لیکن ان کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ سرمایہ اگر سرائیکی صوبے کے قیام کی جدوجہد پر خرچ ہو تو ان کو ایک تو کیا پوری اسمبلی مل سکتی ہے مگر مسئلہ پھر وہی ہے کہ یہاں شعور کی کمی ہے اور اس خطے کے جاگیردار تو 1400 سال پرانی سوچ رکھتا ہے۔ حالانکہ یہ سب آکسفورڈ یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے ہیں مگر سوچ وہی ابوجہل والی ہے کہ ابوجہل بھی ان پڑھ نہ تھا مگر سوچ کی وجہ سے وہ آج تک جاہلوں کا باپ ہے۔ اس کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)