رفعت عباس نے پرائڈ آف پنجاب ایوارڈ مسترد کر کے پورے سرائیکی وسیب کی ترجمانی کی ہے ۔ پنجاب کے جس ادارے کی طرف سے یہ ایوارڈ اناﺅنس کیا گیا وہ ادارہ سرائیکی وسیب کے ساتھ ایک عرصہ دراز سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کر رہا ہے وہ سرائیکی وسیب سے زیادتی کر رہا ہے ۔ پنجاب انسٹیٹیوٹ لنگوئج آرٹ اینڈ کلچر (پلاک) جب وجود میں آیا تو کہا گیا کہ یہ ادارہ صوبے کی تمام زبانوں کیلئے ہوگا۔ پوٹھوہاری ، سرائیکی کو پورا حق ملے گا ۔ جس طرح لاہور میں دفتر ہوگا اسی طرح کا خود مختار دفتر ملتان میں ہوگا جو صرف سرائیکی کے لئے کام کرے گا ۔ اسی طرح کا دفتر راولپنڈی میں ہو گا جو صرف پوٹھوہاری کے لئے کام کرے گا ، مگر پندرہ سال بیت گئے انہوں نے لاہور کے لئے سب کچھ کر لیا مگر سرائیکی، پوٹھوہاری کو کچھ نہیں ملا ، ہم برابری کا فنڈ چاہتے ہیں ، ہم اپنا حق مانگتے ہیں ،خیرات نہیں مانگتے ۔ رفعت عباس کی عظمت کو سلام ہے ۔
پرائیڈ آف پنجاب ایوارڈ کے سلسلے میں عجیب تفصیلات سامنے آ رہی ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ رفعت عباس کے بعد ایک اور معروف سرائیکی شاعر اشو لال فقیر نے پنجاب حکومت سے ’پرائیڈ آف پنجاب‘ ایوارڈ اور تین لاکھ روپے کا چیک لینے سے انکار کر دیا ، ان کے انکار کے بعد شاکر شجاع آبادی کو پرائیڈ آف پنجاب ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا گیا ، اشو لال فقیر نے کہا کہ سرائیکی وسیب کو قومی شناخت ملنے تک کوئی بھی سرائیکی ادیب و شاعر پنجاب حکومت سے ایوارڈ اور مراعات نہیں لے گا ۔ جہاں پاکستان کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق پرائیڈ آف پنجاب ایوارڈ 2016ء کا اعلان کرنے والے ادارے ”پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر‘ کی انتظامیہ نے شاعری کا ایوارڈ ملتان سے تعلق رکھنے والے معروف سرائیکی شاعر رفعت عباس کو دینے کا فیصلہ کیا تھا تاہم ان کی طرف سے ایوارڈ اور تین لاکھ روپے کا چیک وصول کرنے سے انکار سامنے آنے پر پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج ، آرٹ اینڈ کلچر ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر صغریٰ صدف کی طرف سے ایک خط بھجوایا گیا ہے جس میں ان سے ایوارڈ نہ لینے کا اعلان کی تصدیق کے ساتھ اپنا فیصلہ واپس لینے کی گزارش بھی کی گئی ، اس حوالے سے معروف ڈرامہ نویس اصغر ندیم سید کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں تاہم رفعت عباس ایوارڈ وصول نہ کرنے کے فیصلے پر قائم و دائم ہیں۔ دوسری طرف معروف سرائیکی شاعر اشو لال نے ٹیلیفونک گفتگو کے دوران کہا کہ ’پرائیڈ آف پنجاب ایوارڈ‘ لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ موجودہ حکومت سرائیکی وسیب کو قومی شناخت ملنے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور قومی شناخت ملنے تک پنجاب حکومت سے نہ تو کوئی ایوارڈ لوں گا اور نہ کسی قسم کی مالی مراعات قبول کروں گا بلکہ کوئی بھی سرائیکی شاعر پنجاب حکومت کا ایوارڈ وصول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوگا۔
پرائڈ آف پنجاب ایوارڈ مسترد کئے جانے کے مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے کہ آخر سرائیکی وسیب کے شاعر ادیب اور دانشور اس طرح کے انتہائی اقدام پر کیوں مجبور ہوئے ۔میں تو یہ کہوں گا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیے (ن) لیگ نے اپنے منشور میں صوبے کا وعدہ شامل کیا ہوا ہے ۔ پنجاب اسمبلی سے بھی اس نے خود قرار داد پاس کرائی ہے ۔ مزید برآں (ن) لیگ کے اکابرین بار بار کہہ چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے لولی پاپ دئیے ہم صوبہ بنائیں گے پھر آئین ساز ادارے سینٹ نے بھی صوبے کا بل پاس کر رکھا ہے ضروری ہے کہ حکومت سرائیکی صوبے کے قیام کیلئے اقدامات کرے کہ وسیب کے لوگ خدا نخواستہ علیحدہ ملک نہیں بلکہ صوبہ مانگتے ہیں جو ان کا حق ہے۔
فیس بک کمینٹ