وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ 4 لاکھ افغانیوں اور بنگالیوں کو شناختی کارڈ بنا کر دیں گے ۔ اس پر پاکستان پیپلز پارٹی نے سخت رد عمل کا اظہار کیا اور بلوچ رہنما اختر مینگل نے تو یہاں تک کہا کہ آپ چار لاکھ کو شہریت دینے کا تکلف کیوں کر رہے ہیں ؟ افغان بارڈر کھول دیں اور تمام افغانوں کو آنے کی دعوت دیں۔ سرائیکی وسیب کی طرف سے سرائیکستان قومی کونسل کے اجلاس میں وزیراعظم کے اعلان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ کسی صورت قبول نہیں کریں گے کہ سرائیکی وسیب کے اضلاع ٹانک و ڈی آئی خان پر پہلے ہی افغان مہاجرین کا بوجھ ہے اور مہاجرین کی آمد کے بعد وسیب کی ڈیموگرافی تیزی سے تبدیل ہوئی ہے اور وسیب کے مقامی لوگ مقامی اقلیت بن کر رہ گئے ہیں ۔ تحریک انصاف مسائل حل کرنے کا دعویٰ لیکر آئی ، عمران خان کے اس فیصلے سے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھیں گے اور پاکستان مسائلستان بنے گا۔ افغان مہاجرین کی وجہ سے پہلے بھی مختلف شہروں میں پاکستانیوں کو مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے بنگالیوں اور افغانیوں کے بچوں کو شناختی کارڈ یعنی شہریت دینے کا جو جواز پیش کیا در اصل وہ بے جواز ہے ‘ وہ کہتے ہیں کہ ٹارگٹ کلنگ اور سٹریٹ کرائم کی وجہ وہ لوگ جو کراچی میں انڈر گراؤنڈ ہیں اور یہ بنگلہ دیش اور افغانستان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کے شناختی کارڈ نہیں بنائے جاتے ۔ ان کو ملازمتیں نہیں ملتیں ، جس کی بناء پر یہ جرائم کی طرف راغب ہوئے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جو اصل اصیل اور حسبی نسبی پاکستانی ہیں کیا ان کو ملازمتیں مل چکی ہیں ۔ کیا حکومت پاکستان نے تمام پاکستانیوں کو شناختی کارڈ مہیا کر دیئے ہیں ؟ پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جرائم پیشہ بھی کہا جا رہا اور شہریت دینے کی بات بھی ہو رہی ہے۔افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی بجائے وہ افغانی جو خود کو پاکستانی سمجھتے نہیں ان کو پاکستانی شہریت کس کھاتے میں ملے گی ؟ واقعات کا پس منظر معلوم کریں تو پتہ چلتا ہے کہ افغان مہاجرین کی بہت زیادہ تعداد ضیاء الحق کے دور میں آئی ۔ بڑے بڑے افغان مہاجرین کے کیمپ بنائے گئے ‘ جن میں ڈی آئی خان اور ٹانک کے دیو ہیکل کیمپ قابلِ ذکر ہیں ۔ پوری دنیا میں مہاجرین کا قانون یہ ہے کہ وہ کیمپوں میں رہتے ہیں ‘ کیمپوں سے باہر نہیں آ سکتے۔ مگر یہاں سب نے دیکھا کہ افغان مہاجرین کب کیمپوں میں رہے ؟ یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ افغان مہاجرین کی آمد کے بعد ہیروئن و دیگر منشیات کے ساتھ ساتھ ناجائز اسلحے کے ڈپو کھل گئے اور پاکستان میں امن و عامہ کے مسائل پیدا ہوئے ‘ خون کی ہولی کھیلی گئی ‘ پاکستان میں دہشت گردی پیدا ہوئی ، فرقہ واریت نے جنم لیا ، تربیتی کیمپ بنائے گئے ‘ کرائم مافیا نے سر اٹھایا ، بم دھماکوں سے شہر بازار تو کجا عبادت گاہیں بھی محفوظ نہ رہیں ۔ پاکستان سیکورٹی فورسز نے بہت زیادہ قربانیاں دیکر دہشت گردی پر تو کسی حد تک قابو پا لیا ہے مگر ڈی آئی خان اور ٹانک میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اب بھی جاری ہیں ۔ جس کے خاتمے کیلئے میں نے چیف آف آرمی سٹاف، چیف جسٹس آف پاکستان اور دوسرے اداروں کو لکھا جس پر ایکشن بھی ہوا مگر وسیب کو مکمل امن و امان اور ڈی آئی خان تک سمیت اس طرح صوبے کی ضرورت ہے جیسے دوسرے صوبے موجود ہیں ۔ عمران خان نے 100 دنوں میں صوبے کا وعدہ کیا ہے، وہ اپنی توجہ اس طرف مبذول کریں کہ مخدوم خسرو بختیار اور مخدوم شاہ محمود قریشی پر مشتمل بنائی گئی کمیٹی کا ابھی تک غیر رسمی اجلاس بھی نہیں ہوا، صوبہ کیسے بنے گا ؟ غور کریں اور چوری کا سراغ لگانے کی کوشش کریں تو ’’ کُھرا‘‘ اسی گھر پر پہنچے گا جو افغان مہاجرین کے کیمپوں کو نشیمن قرار دیتے آئے ہیں ۔ اگر افغان مہاجرین کو شہریت دی جاتی ہے تو اس سے بہت بڑا پنڈروا بکس کھلے گا کہ کراچی سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں افریقی ‘ ایرانی ‘ برمی اور عربی پناہ گزین بھی ہیں جو مہاجرین کے روپ میں داعش اور القاعدہ کے لئے کام کرتے رہے ہیں تو پھر عمران خان کس کس کو شہریت دیں گے؟ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کے نام پر بڑے بڑے بلنڈر ہو چکے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے اداروں سے وہ پشتون بھی امدادیں لیتے رہے جو کبھی مہاجر نہ تھے۔ دو نمبر واقعات کی سرپرستی مولانا فضل الرحمن اور دوسرے افغان رہنماؤں کے ساتھ ساتھ پشتون اسٹیبلشمنٹ نے خوب کی۔مشرف دور میں جب مُلا ملٹری الائنس کی ٹرم مشہور ہوئی تو اس کی برکت سے مولانا فضل الرحمن نے اپنے بھائی ضیا الرحمن جو پی ٹی سی ایل میں بھرتی ہوئے تھے کو افغان مہاجرین کا کمشنر بنوا دیا ۔ کمشنر صاحب نے افغانیوں کو نوازنے کیلئے کسی طرح کی کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ جب وہ گئے تو مہاجرین کا ریکارڈ بھی ساتھ لے گئے ۔ موجودہ حکومت ضیاء الرحمن کے خلاف تحقیقات کر رہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ ریکارڈ کہاں سے آئے گا۔ یہ تو اتنا حساس مسئلہ ہے کہ ایک کے بدلے چار نام نہام نہاد مہاجرین شناختی کارڈ بنوائیں گے۔ حالانکہ ناجائز شناختی کارڈوں کو کینسل کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ نئے کارڈ بنانے کی ۔ مہاجرین کی آمد اور آبادکاری کا مسئلہ ہمیشہ حساس رہا ہے ۔ پناہ گزینوں کی تاریخ کو دیکھیں تو آسٹریلیا، کینیڈا ، امریکا ، سپین ، روس ، جرمنی وغیرہ کی تاریخ پناہ گزینوں کے واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ ایک وقت یہودیوں کو بھی پناہ گزین بننا پڑا اور فلسطینی مسلمانوں کو بھی لیکن سب سے بڑی ہجرت ہندوستان کی تقسیم کے وقت سامنے آئی اور تقریباً 70 لاکھ مسلمان پناہ گزین ہندوستان سے پاکستان آئے ، ہندوستان سے آنے والے پناہ گزینوں کی داستان نہایت ہی دردناک ہے ۔ مقامی افراد کی کشادہ دلی سے ابھی وہ ایڈجسٹ ہونے کی کوشش کر رہے تھے کہ پاکستان کے دو لخت ہونے کا سانحہ پیش آ گیا ۔ اس سانحے کے بعد ابھی ہم سنبھلے ہی نہ تھے امریکا اور روس کی جنگ ’’ جہاد افغانستان ‘‘ کی شکل میں پاکستان پر مسلط ہو گئی اور اس کے نتیجے میں لاکھوں افغان پناہ گزینوں کا بوجھ پاکستان پر آ پڑا ۔ افغان پناہ گزینوں کی آمد کے بعد امن و امان کی صورتحال جس قدر خراب ہوئی اور کرائم کی شرح بڑھی ‘ اس کا تذکرہ پولیس ‘ رینجرز اور تمام حساس اداروں کے ریکارڈ میں آج بھی محفوظ ہے ۔ عمران خان کو افغانیوں سے ہمدردی ہو سکتی ہے اور عمران خان نے لاہور کے شوکت خانم ہسپتال میں اسی ہمدردی کی بنیاد پر زیادہ ملازمتیں پشتونوں کو دی ہیں لیکن خدارا وہ پاکستان کو شوکت خانم نہ سمجھیں یہ قوموں کا ملک ہے ، اس میں پنجابی ، سندھی ، بلوچ، سرائیکی ، پشتون سب رہتے ہیں ، جو بھی فیصلہ ہو سب کی رضا مندی سے ہونا چاہئے اور پاکستان کو پاکستان رہنے دیا جائے ، اسے مہاجرستان نہ بنایا جائے۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ