قومی احتساب بیورو ( نیب ) نے آشیانہ ہاؤسنگ سکینڈل میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو گرفتار کر لیا ۔ ان کو صاف پانی سکینڈل میں پوچھ گچھ کیلئے نیب لاہور آفس میں طلب کیا گیا تھا جہاں انہیں آشیانہ ہاؤسنگ سکیم سکینڈل میں ملوث ہونے پر گرفتار کر لیا گیا ۔ مسلم لیگ ن نے میاں شہباز شریف کی گرفتاری کو انتقامی کارروائی قرار دیا ہے جبکہ ان کے مخالف اس کو مقافات عمل کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیب عدالتیں میاں نواز شریف نے بنائیں اور آشیانہ سکینڈل کا مقدمہ بھی انہی کے دور میں بنا ۔سیاستدانوں کی اپنی اپنی رائے ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ قدرت کا اپنا ایک نظام ہے ۔ میاں شہباز شریف کی گرفتاری سرائیکی وسیب کے سیلاب زدگان کی بد دعاؤں کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے کہ 2010ء میں بد ترین سیلاب سرائیکی وسیب میں آیا ، لاکھوں گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے ‘ میاں شہباز شریف سیلاب متاثرین کو چھت مہیا کرنے کی بجائے آشیانہ ہاؤسنگ سکیمیں شروع کر دیں ۔ اس پر سرائیکی جماعتوں کی طرف سے احتجاج بھی ہوا مگر اقتدار کی مستی میں مست میاں شہباز شریف کے کانوں میں جوں تک نہ رینگی ۔ سیلاب متاثرین سے ناروا سلوک پر سرائیکی وسیب میں بہت احتجاج ہوا ۔ جگہ جگہ مظاہرے ہوئے ۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکومت نے جان بوجھ کر سرائیکی وسیب کے اضلاع خصوصاً ضلع مظفر گڑھ کو ڈبو دیا ہے ، اس سلسلے میں ایم این اے جمشید دستی نے احتجاجی تحریک میں اہم کردار ادا کیا اور حکومت کی ناک میں دم کر دیا۔ جس پر وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے فلڈ جوڈیشل کمیشن قائم ہوا ۔یہ جوڈیشل کمیشن ہائیکورٹ کے جج محترم جناب جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں بنایا گیا ۔کمیشن نے مکمل انکوائری کے بعد اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کی ۔ کمیشن کی رپورٹ لاہور ہائیکورٹ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ رپورٹ میں سیلاب کی تباہ کاری کا ذمہ دار حکومت پنجاب کے افسران کو قرار دیا گیا ۔جوڈیشنل انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں واضح لکھا ہے کہ سیلاب کا ذمہ دار محکمہ آبپاشی حکومت پنجاب کا سیکرٹری بھی ہے، اس کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے ۔ کمیشن نے ایکسین تونسہ بیراج کے خلاف فوجداری دفعات کے تحت مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی ہے۔ کمیشن نے سیلاب کی نقصانات کی ریکوری کا بھی حکم دیا ہے۔ جوڈیشنل کمیشن نے واضح طور پر لکھا ہے کہ تونسہ بیراج کے پانڈ ایریا کی زمینوں پر سیاسی افراد نے ناجائز قبضے کئے ہوئے ہیں ۔ ان قبضہ جات کو واگزار کرایا جائے ۔ افسوس کہ نہ صرف یہ کہ فلڈ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کی سفارشات پر عمل نہ کیا بلکہ محکمہ انہار کے جو افسران ذمہ دار تھے ان کو ترقیاں دی گئیں ۔ جس پر میں نے سید منصور علی شاہ صاحب جو کہ بعد میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے ‘ کو ایک عریضہ لکھا ۔ جس میں میں نے لکھا تھا کہ آپ کی سربراہی میں کمیشن کا فیصلہ نہایت توجہ کا متقاضی تھا جس میں کمیشن میں ’’پنجاب کے افسران سے سیلاب نقصانات کی ریکوری ‘‘ کا کہا تھا۔ سیلاب سے سرائیکی وسیب کے 10 اضلاع کے ڈیڑھ کروڑ سے زائد لوگ متاثر ہوئے ۔سیلاب سے لوگوں کے کھربوں کی فصلیں مکمل تباہ ہو گئیں ۔ لوگوں کے لاکھوں مکانات اور گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے ۔جوڈیشنل کمیشن نے مکمل انکوائری کے بعد لکھا ہے کہ عباس بند ٹوٹنے کا ذمہ دار اور مجرم پی ایم او کا سربراہ ہے ۔اسے ملازمت سے فارغ کیا جائے اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی اس سے ریکوری کی جائے ۔ جوڈیشنل کمیشن کی رپورٹ کے باوجود بھی وہ اپنے عہدے پر موجود ہے۔ عدلیہ بحالی کی تحریک چلانے اور ججوں کے فیصلوں کو نہ ماننے والوں کے خلاف جہاد کا دعویٰ کرنے والے وزیراعلیٰ شہباز شریف جوڈیشنل کمیشن کی ہدایت پر عمل کرنے سے گریز نہ کریں۔ میں نے جسٹس منصور علی شاہ صاحب کی خدمت میں یہ بھی گزارش کی کہ آپ کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی کی رپورٹ پر حرف بحرف عملدرآمد کے ساتھ ضرورت اس بات کی ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایک گرینڈ جوڈیشنل ٹربیونل تشکیل دیں جو سیلاب سے متاثرہ تمام معاملات کو دیکھے ، یہ ٹریبونل اس بات کا جائزہ لے کہ ہائیکورٹ کے جج پر مشتمل جوڈیشنل کمیشن نے پانڈ ایریا کے سیاستدانوں سے زمین واگزار کرانے کا حکم دیا ہے ، وہ سیاستدان کس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ؟ کمیشن یہ جائزہ بھی لے کہ سرائیکی وسیب میں انڈیا سے آنیوالے مہاجرین‘ زمینوں کا کلیم ملا ، اسلام آباد شہر بسایا گیا تو زمینوں کا کلیم سرائیکی وسیب میں دیا گیا ۔ اس طرح تربیلا ڈیم کے متاثرینی ، منگلہ ڈیم کے متاثرین ، اوکاڑہ چھاونی کے متاثرین اور پٹ فیڈر نہر تک کے متاثرین کو سرائیکی وسیب میں زمینیں دی گئیں مگر خود سرائیکی وسیب کے سیلاب متاثرین کو محروم کیوں رکھا جا رہا ہے ؟ ٹربیونل اس بات کا بھی جائزہ لے کہ سیلاب سے لاکھوں مکانات اور گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے لیکن اربوں روپے کے مصرفے سے آشیانہ ہاؤسنگ سکیمیں سیلاب زدہ علاقوں میں شروع کرنے کی بجائے لاہور میں کیوں شروع کی گئیں؟ میں اب بھی کہتا ہوں کہ میاں شہباز شریف کی گرفتاری مقافاتِ عمل ہونے کے ساتھ ساتھ وسیب کے سیلاب متاثرین کی بد دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ بتایا گیا ہے کہ آشیانہ ہاؤسنگ سکینڈل میں چار ارب روپے کی ہیرا پھیری ہوئی ۔ ایک مالی کرپشن ہوتی ہے لیکن اس سے بڑی کرپشن یہ ہے کہ آپ محروم اور پسماندہ علاقوں کے وسائل ترقی یافتہ علاقوں پر خرچ کریں ۔ اصل تحقیقات اس حوالے سے ہونی چاہئے کہ پاکستان کے محروم اور پسماندہ علاقوں کو نظر انداز کر کے ترقی یافتہ علاقوں اور بڑے شہروں پر وسائل کیوں خرچ ہوئے؟ آج تبدیلی کے نام پر ووٹ لینے والی جماعت تحریک انصاف بر سر اقتدار ہے ، دیکھنا یہ ہے کہ وہ پسماندہ علاقوں سے کتنا انصاف کرتی ہے ؟ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز 50 لاکھ گھر منصوبے کو حتمی شکل دینے کی ہدایت جاری کر دی ہے ۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ گھر بے گھروں کو ملتے ہیں یا پھر ان کے مالک بھی وہ لوگ ہونگے جن کے پہلے سے کئی کئی گھر ہیں اور دیکھنا یہ بھی ہے کہ گھروں کی سکیم پسماندہ علاقوں سے شروع ہوتی ہے یا ترقی یافتہ علاقوں سے ؟ اگر موجودہ حکمرانوں نے بھی بڑے شہروں کیلئے آشیانہ ہاؤسنگ سکیم جیسا کھیل کھیلا تو ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ نہ تو شہباز شریف سے زیادہ دولت مند ہیں اور نہ طاقت ور ۔
(بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز)
فیس بک کمینٹ