شیخ الاسلام حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کا 779واں عرس مبارک آج پیر 15 اکتوبر 2018ء، 5 صفر المظفرسے ملتان میں شروع ہو رہا ہے ، ایک طرف زائرین کے قافلے جوق در جوق ملتان پہنچ رہے ہیں ، دوسری طرف زائرین کیلئے رہائش ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ، محکمہ اوقاف کی طرف سے دربار پر زائرین کی رہائش کیلئے ایک بھی کمرہ نہیں اور نہ ہی کوئی باتھ ہے جس کے باعث مرد تو کیا سندھ اور دوسرے علاقوں سے آئی ہوئی خواتین مستورات کوجو مشکل پیش آتی ہے وہ بیان سے باہر ہے ۔ایک تکلیف دہ بات یہ بھی ہے کہ عرس کے موقع پرکئی دن کیلئے تعلیمی ادارے بند کرا کر وہاں زائرین کو رہائش دی جاتی ہے اس سے بچوں اور بچیوں کا سخت تعلیمی نقصان ہوتا ہے ۔قدیم قلعہ ملتان جہاں حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی اور دوسرے بزرگان کے مزارات ہیں ، روزانہ تجاوزات کی بھرمار ہے یہاں دمدمے کے ساتھ ایس ٹی این کو جگہ دی گئی ، ٹیلیفون کا کھمبا نصب کرایا گیا ، سٹیڈیم اور پولیس اسٹیشن بنوایا گیا ، اگر نہیں بنوائی گئیں تو زائرین کیلئے اقامت گاہیں ، واش روم ، لائبریری ، میوزیم ، کانفرنس ہال ، سہولتوں کے حوالے سے حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کے دربار کا وہی حال ہے جو ملتان اور پورے وسیب کا ہے ۔ غوث العالمین حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی 27رمضان 566ھ حضرت مولانا وجیہہ الدین محمد قریشی کے ہاں پیدا ہوئے ، صغیر سنی میں والد ماجد کا انتقال ہو گیا ، یتیمی کی حالت میں تعلیم اور تربیت کے مراحل طے کئے اور عین جوانی میں عازم سفر سلوک بنے ۔ بغداد پہنچ کر حضرت شہاب الدین سہروردی ؒ سے روحانی فیض حاصل کیا ۔ سہروردی سئیں نے خرقہ خلافت عطا فرمایا اور آپ کو ملتان پہنچ کر دین کیلئے کام کرنے کی تلقین فرمائی ۔ ملتان پہنچ کر آپ نے تبلیغ شروع کر دی ، غیر مسلم امراء کے غیر انسانی رویوں سے نالاں لوگ جو ق در جوق حضرت کی خدمت میں پہنچ کر حلقہ اسلام میں داخل ہونے لگے ، آپ نے شروع میں مدرسۃ الاسلام قائم کیا اور بعد میں اسے دنیا کی سب سے بڑی اقامتی یونیورسٹی کی حیثیت دے دی ۔اسی زمانے میں دریائے راوی ملتان کے قدیم قلعے کے ساتھ بہتا تھا اور اسے بندرگاہ کی حیثیت حاصل تھی ۔ کشتیوں کے ذریعے صرف سکھر یا بکھر ہی نہیں منصورہ ، عراق ، ایران ، مصر ، کابل ، ولی اور دکن کی تجارت ہوتی ۔ اسی طرح ملتان کو دنیا کے بہت بڑے علمی ، تجارتی اور مذہبی مرکز کی حیثیت حاصل ہوئی اور صرف ہندوستان سے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کا نام اور پیغام پہنچا ۔ آپ نے لوگوں کے دلوں میں اس طرح گھر بنایا کہ 8صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی لاکھوں انسان ننگے پاؤں اور سر کے بل چل کر آپ کے آستانے پر حاضری دیتے ہیں اور عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں ۔ ملتان کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ ملتان ہزاروں سال پہلے بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے ، ملتان کو صفحہ ہستی سے ختم کرنے کی کوشش کرنے والے سینکڑوں حملہ آور خود نیست و نابود ہو گئے ، آج ان کا نام لیوا کوئی نہیں مگر ملتان آج بھی اپنے پورے قد کے ساتھ زندہ ہے۔ ملتان ہمیشہ سے حرفت و صنعت کا مرکز رہا۔ شیخ الاسلام حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی کو اپنے شہر سے کتنی محبت تھی؟ وہ فرماتے ہیں: ملتان ماء بجنت اعلیٰ برابر است آہستہ پابنہ کہ ملک سجدہ می کنند ملتان کے بارے جس ہستی نے یہ لافانی شعر کہا وہ ہستی خود کیا تھی ؟ اس کا اپنا مقام اور مرتبہ کیا تھا ؟ اور اس نے انسانیت کیلئے کیا کیا خدمت سر انجام دیں ؟ اس بات کی تفصیل ایک مضمون میں نہیں بلکہ کئی کتابوں کی صورت میں پوری کر سکتی ہے ،آج زکریا سئیں کو نئے سرے سے جاننے اور دریافت کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ کام تحقیقی اداروں ، محکمہ اوقاف خصوصاً زکریا سئیں کے نام سے موسوم بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کو سر انجام دینا چاہئے مگر اس ستم ظریفی کو کیا کہا جائے کہ زکریا یونیورسٹی نے آج سے بہت عرصہ پہلے ایک زکریا چیئر قائم کی اور اسے غلاف پہنا کر الماری میں رکھ دیا ، نہ فنڈ نہ سٹاف اور نہ کوئی کام ، اردو میں اسے کہتے ہیں چراغ تلے اندھیرا ، محکمہ اوقاف داتا دربار کی طرزپر سہولتیںمہیا کرنا تو کجا رہا زائرین کی رہائش کیلئے ایک کمرہ ، ایک غسل خانہ یا ایک ٹینکی پانی کا انتظام بھی نہیں کر سکا ۔ عرس کے ذکر کے ساتھ ساتھ یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ لاہور میں 15 ویں سالانہ سرائیکی کانفرنس تھی ، جو کہ بہت کامیاب رہی ۔ کانفرنس میں وسیب کے سرائیکی عمائدین کے علاوہ راجن پور کے ایم پی اے سردار فاروق امان اللہ خان دریشک نے بھی اپنے خطاب میں اس بات کو دہرایا کہ تحریک انصاف سرائیکی وسیب میں صوبے کے نعرے پر برسراقتدار آئی ہے اور عمران خان اپنا وعدہ ہر حال میں پورا کریں گے اور سو دنوں میں آپ کو خوشخبری ملے گی ۔ تقریب میں سرائیکی رہنماؤں عبدالمجید خان کانجو، ملک اللہ نواز وینس کے علاوہ معروف سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی آئے ہوئے تھے۔ شاکر شجاع آبادی نے کہا کہ صوبے کیلئے میری جان بھی حاضر ہے۔ دوسرے دن لاہور پریس کلب کی طرف سے شاکر شجاع آبادی کے اعزاز میں تقریب پذیرائی کا اہتمام کیا گیا۔ صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت مہمانِ خصوصی تھے ۔ صدر پریس کلب اور جنرل سیکرٹری نے استقبالیہ کلمات پیش کئے ۔ نظامت کے فرائض پریس کلب کے اہم عہدیدار فاروق شہزاد نے سر انجام دیئے ۔ اس موقع پر بندہ ناچیز نے اپنے خطاب میں صوبائی وزیر خزانہ کی معرفت وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کی توجہ وسیب کے مسائل کی طرف مبذول کرائی ۔ اس موقع پر میں نے یہ بھی کہا کہ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کا عرس مبارک شروع ہو رہا ہے ۔ اور سجادہ نشین خود اہم حکومتی عہدے پر فائز ہیں ۔ پہلے ہم میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف کو کوستے تھے اور تخت لہور کی بات کرتے تھے لیکن اب ہم کس کو دوش دیں ۔ یہ آج کا سوال ہے ؟ آج صبح جونہی ملتان ریلوے اسٹیشن پر ٹرین سے اترا تو تمام پلیٹ فارم ، ٹکٹ گھر اور ریلوے اسٹیشن کے آس پاس سندھ کے زائرین کھلے میدانوں میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ ان کی حالت دیکھ کر مجھے دکھ بھی ہوا اور افسوس بھی کہ آخر زائرین کی سہولتوں کا ہم کس سے سوال کریں ؟ (جاری ہے )
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ