پچھلے دنوں ڈیرہ غازی خان میں دو بسوں کے حادثے میں دو درجن سے زائد افراد شہید اور پچاس سے زائد زخمی ہوئے ۔ ایک ایک گھر کے کئی کئی لوگ شہید اور کئی کئی زخمی ہوئے ‘ وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کا تعلق بھی ڈی جی خان سے ہے ۔ افسوس کہ وہ خود نہیں آئے ‘ اس سے بھی زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ ان کی کابینہ کا کوئی رکن بھی لواحقین سے تعزیت کیلئے نہیں آیا اور نہ ہی کسی طرح کا کوئی امداد کا اعلان ہوا ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حادثہ دو رویہ سڑک نہ ہونے کی وجہ سے پیش آیا ۔ یہ افسوس ناک پہلو بھی دیکھئے کہ ملتان ، ڈی جی خان روڈ کو دو رویہ بنانے کیلئے سابقہ دور میں تیزی سے کام ہو رہا تھا جو کہ موجودہ دور میں قریباً بند ہو چکا ہے ۔ پہلے ہم میاں نوازشریف و میاں شہباز شریف کو دوش دیتے تھے کہ وہ تمام وسائل لاہور پر خرچ کر رہے ہیں لیکن اب وسیب کے لوگوں کو بتایا جائے کہ وہ کس کو دوش دیں اور کس سے فریاد کریں ؟ اب میں ذکر کروں گا ڈی جی خان کے بارے میں لکھی جانیوالی کتاب ’’ میرا وسیب ‘‘ کے بارے میں جو کہ وسیب کی تاریخ اور جغرافیہ کے بارے میں ہے ۔ ڈیرہ غازیخان کے معروف صحافی ملک سراج کی کتاب ’’میرا وسیب‘‘ میرے سامنے ہے، یہ کتاب مختلف مضامین پر مشتمل ہے، کتاب کا ایک سے ایک مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ اس میں پورے وسیب کا رنگ جھلکتا ہے، یہ کتاب نہ صرف عام قاری بلکہ ریسرچ سکالرز کیلئے بھی حوالے کا باعث ہے۔ اس کتاب کے حوالے سے جو معروضات پیش کر رہا ہوں وہ کتاب اور صاحب کتاب کے ساتھ ساتھ سرائیکی وسیب کی تاریخ کے حوالے سے ہیں۔ سب سے پہلے میں کتاب کے حوالے سے عرض کروں گا کہ اس میں سرائیکی وسیب کی دستکاریوں کا ذکر نہایت خوبصورت اور دلکش انداز میں کیا گیا ہے اور خواتین جو زیورات استعمال کرتی ہیں، یقینی طور پر وہ خطے کی ثقافت کا مظہر اور آئینہ دار ہیں۔ ملک سراج نے سرائیکی لکھاری اکبر مخمور مغل، وسیب کے فنکار اللہ بچایا کمہار، حافظ محمد اقبال بھٹی، محسن نقوی، عمیر پہلوان، ڈاکٹر نجیب حیدر ملغانی، خورشید نازر، نور محمد ساحل اور دوسرے بہت سے افراد کے فن اور فکر کے بارے میں بہترین تحریریں شامل کی ہیں۔ اس کتاب میں مختلف عنوانات ‘جیسا کہ سندھ کی لہروں کا سرائیکی شاعری میں اظہار ، سرد موسم اور سرائیکی شاعروں کا رومانوی انداز، آیا جیٹھ تے چڑھی مستی، سرائیکی وسیب میں بچوں کی دلچسپ لوک نظمیں، سرائیکی وسیب کے بچوں کے منظوم سرائیکی قصے، سرائیکی وسیب میں شادی کی رسمیں، ونگار، بلوچی ڈش سجی، ڈی جی خان میں اعزاداری اور تعزیہ کی تاریخ اور سرائیکی اجرک سرائیکی وسیب کی شناخت کے حوالے سے بہترین تحریریں اور مضامین شامل ہیں۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ صحافی اور لکھاری بہت ہیں مگر اپنے وسیب کے بارے کوئی کوئی سوچتا ہے۔ ڈی جی خان آرٹس کونسل میں 29-30 نومبر 2014ء ہم نے دو روزہ سرائیکی فیسٹیول کرایا۔ ادیب شاعر صحافی سب دیکھنے آئے مگر جس طرح ملک سراج نے اس فیسٹیول کو دیکھا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ ملک صاحب نے فیسٹیول میں شامل ادیبوں، شاعروں، فنکاروں، دستکاروں اور ہنرمندوں کے انٹرویو کئے اور مختلف اقساط کی شکل میں شائع کیا۔ یہ معمولی کام نہیں ملک سراج یہ عمل قابل تقلید ہے ۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ سرائیکی وسیب کو حملہ آوروں نے ہمیشہ برباد کرنے کی کوشش کی مگر وسیب کے غیور لوگوں نے ہمیشہ حملہ آوروں کا مقابلہ کیا ۔ دارا اول سے لیکر رنجیت سنگھ اور ما بعد انگریز سامراج تک ، ہر حملہ آور کو سرائیکی وسیب میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔ حملہ آوروں میں سکندر اعظم کا نام مشہور اور نمایاں ہے، کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم نے پوری دنیا کو فتح کیا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سکندر اعظم کو ملتان میں ہزیمت ہوئی، اسے ملتان کے خونی برج پر واقع جنگ میں ایک عظیم المرتبت ملتانی جرنیل کا تیر لگا جس سے وہ زخمی ہوا اور اپنے وطن جا کر وہ مر گیا۔ سکندر اعظم نے ملتان پہنچنے سے پہلے ڈیرہ غازیخان کے جن شہروں اور قلعہ جات کو برباد کیا ان میں قلعہ ہڑند، کھانڈوپرساد شہر (دلورائے ٹھیڑ) کن ٹھیڑ، ٹھیڑی، ڈراویلہ، ٹھیڑ کنڈے والا، ٹھیڑ کوٹ ہیبت، ٹھیڑ کہیہ مکڑاہاد، ڈھیڑہ (وہوا) وغیرہ شامل ہیں۔ سکندر اعظم نے ڈیرہ غازیخان کے علاقے میں دو لاکھ کے لگ بھگ مرد، عورتیں، بوڑھوں، جوانوں اور بچوں کو تہہ تیغ کیا۔(تاریخ ڈیرہ غازیخان مولف احسان چنگوانی) مہا بھارت کی جنگ اس علاقے میں لڑی گئی، ’’مہابھارت‘‘ تین لفظوں کا مرکب ہے اور یہ تینوں لفظ سرائیکی میں مہایعنی بڑی ‘بھایعنی آگ اور رت یعنی خون‘ مہا بھارت کی جنگ قریباً دو ہزار قبل مسیح بپاہوئی، یہ جنگ جو قلعہ دلورائے (نزد جام پور) لڑی گئی اس میں پہلی مرتبہ آگ کے گولوں کا استعمال ہوا۔ بھارت نے اب جواگنی میزائل تیار کیا ہے اس کا بنیادی تصور ’’مہا بھارت جنگ سے لیا گیا، اس جنگ میں سرائیکی شاہی خاندان کے 200 افراد، فوجی 25000اور 50 راجے مہاراجے بھی مارے گئے، آگ و خون کی اس بڑی جنگ میں مقامی لوگوں کی بہادری اور جرأت کی اپنی مثال آپ ہے۔ ملتان اور ڈیرہ غازیخان کے علاقوں میں مصر کے حکمران رامص اعظم کی آمد کا ذکر بھی موجود ہے۔ اس علاقے میں ایران کے حملوں کا ذکر بھی موجود ہے۔ مذکور ہے کہ 558ء قبل مسیح یہاں سرائیکی ’’ڈہے‘‘ خاندان کی حکومت تھی اور یہاں اس خاندان کی ملکہ تومی داس حکمران تھی۔ اس پر ایران کے بادشاہ سائرس کی فوجوں نے حملہ کر دیا مگر ڈاہے خاندان کی حکومت سے ایرانی فوجوں کو شکست ہوئی۔ تاریخ ڈیرہ غازیخان میں قدیم مذاہب کے ذکر میں بتایا گیا کہ گوماتا کی بنیاد اس علاقے میں رکھی گئی، اور دنیا کی قدیم کتاب رگ وید سرائیکی علاقے میں لکھی گئی۔کہا جاتا ہے کہ قریباً 2100 سال پہلے ڈی جی خان کے سرائیکی وسیب میں بکرمہ جی کی حکومت تھی ۔ اس کی ریاست دلورائے اندر پرستھ راجل، جام پور، ہڑند آسنی اور کن کے علاقے تک تھی اور اس کا دارالحکومت اندرون کا شہر نزد کوٹ مٹھن تھا اور اس سے سرائیکی سن سورج پر باندھی اور مہینوں کے نام رکھے۔ دنوں کے نام ترتیب دیئے۔ موسم بالحاظ اور دنوں کی مکمل گنتری شامل کی اور جس میں کبھی بھی فرق نہ ہوا اور سال کو دنیا میں پہلی دفعہ 365 دنوں پر محیط اور پابند کر دیا گیا اور سرائیکی سال بکرم شروع کیا ۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ