پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کیلئے 13 رکنی ایگزیکٹو کونسل قائم کر دی ہے، سابق ممبر قومی اسمبلی چودھری طاہر بشیر چیمہ کونسل کے چیئرمین جبکہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی سردار دوست محمد خان کھوسہ وائس چیئرمین ہوں گے۔ کونسل کے دوسرے اراکین میں ممبر صوبائی اسمبلی سمیع اللہ چودھری، صاحبزادہ گزین عباسی، سید علی عباس شاہ، سردار شہاب الدین سہیڑ، سردار جاوید اختر لنڈ، نوابزادہ منصور احمد خان، مینا احسان لغاری، سردار علی رضا دریشک جبکہ بیورو کریسی سے انوار احمد خان، جاوید اقبال اعوان اور اطہر حسین خان شامل ہیں، کہا گیا ہے کہ کونسل جنوبی پنجاب صوبے کیلئے ضروری قانون سازی اور جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کیلئے اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے کام کرے گی، کونسل وفاقی حکومت کے ٹاسک فورس کے ساتھ رابطے کا بھی فریضہ سر انجام دے گی۔ جہاں تک وفاقی حکومت کی صوبہ سے متعلق ٹاسک فورس کا معاملہ ہے تو وفاقی حکومت نے مخدوم خسرو بختیار اور مخدوم شاہ محمود قریشی پر مشتمل ٹاسک فورس بنائی مگر ابھی تک اُس کا ایک بھی اجلاس نہیں ہوا، جہاں تک موجودہ ایگزیکٹو کونسل کا تعلق ہے تو اسے کوئی مدت نہیں دی گئی کہ وہ ہفتہ ، پندرہ دن یا ایک ماہ میں اپنا کام مکمل کرکے وزیر اعلیٰ کو رپورٹ پیش کرے، اس سے صاف ظاہر ہوا کہ حکومت نے سو دن میں صوبہ بنانے کا جو وعدہ کیا تھا وہ وفا ہوتا نظر نہیں آتا، مزید یہ کہ ایک کہاوت مشہور ہے کہ جو کام نہ کرنا ہو اُس کیلئے کمیٹی بنا دی جاتی ہے، میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ صوبے کیلئے کمیٹی کی نہیں ’’پارلیمانی صوبہ کمیشن‘‘ کی ضرورت ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ سرائیکی صوبے کا کام جہاں پہلے رکا تھا وہیں سے شروع کیا جائے اور سینٹ میں سرائیکی صوبے کیلئے دو تہائی اکثریت کے ساتھ جو بل پاس کیا تھا اُسے آئین کا حصہ بنایا جانا چاہئے، 13رکنی کمیٹی میں ماسوائے سابق بیوروکریٹ انوار احمد خان ملتان کی کوئی نمائندگی نہیں ، اسی طرح ڈیرہ اسماعیل خان، میانوالی اور جھنگ سے بھی کوئی نمائندہ شامل نہیں کیا گیا جو کہ درست نہ ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے تین ڈویژنوں پر مشتمل صوبہ بنانے کا اعلان کرکے اسے جنوبی پنجاب صوبے کا نام دید یا ہے جبکہ صوبے کی حدود کیا ہو نگی؟ اور اس کا نام کیا ہو گا؟ یہ تمام معاملات صوبہ کمیشن نے طے کرنے ہیںکسی بھی جماعت کو اس بات کا اختیار حاصل نہیں کہ وہ پہلے سے صوبے کی حدود اور اُس کا نام متعین کر دے، صوبے کیلئے صوبہ کمیشن تمام سٹیک ہولڈرز ایکسپرٹس اور اہل دانش کا نقطہ نظر جاننے کے بعد منطقی نتیجے پر پہنچتا ہے اورسفارشات مرتب کرکے اسمبلی کو بھیجتا ہے پھر اسمبلی اس کی منظوری دیتی ہے، موجودہ حکومت جس طرح صوبے کے معاملے کو لے رہی ہے اس میں سنجیدگی کا فقدان نظر آتا ہے اور ایک بار پھر خدشہ ہونے لگا ہے کہ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی طرح موجودہ حکومت بھی سرائیکی وسیب کے لوگوں کو لولی پاپ دینے جا رہی ہے، اور ایگزیکٹو کونسل وسیب کے کروڑوں افراد کا منہ بند کرانے کے سوا کچھ نہیں، کہا جاتا ہے سردار عثمان بزدار سے بیوروکریسی بھی تعاون نہیں کر رہی، لاہور کی بیورو کریسی بھی نہیں چاہتی کہ صوبہ بنے، اس طرح پشاور کے پختون حکمران بھی کبھی نہیں چاہیں گے کہ اُن کی سلطنت میں کمی آئے۔ مخالفت کی وجہ یہ کوئی نا سمجھ آنے والا سوال نہیںکوئی ایک گز زمین چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہوتا یہ تو پورے صوبے کا سوال ہے، قابض قوتیں چاہتی ہیں کہ سرائیکی وسیب کی زمینوں کی لوٹ مار جاری رکھی جا سکے ۔ سرائیکی وسیب کے لوگوں کو غلام اور جاہل رکھا جا سکے۔ سرائیکی وسیب کی تجارت اور منڈیوں پر قبضہ برقرار رہے۔ سرائیکی وسیب خام مال کی منڈی اور وسیب کے لوگ صارف رہ جائیں اور انڈسٹری ان کے علاقوں میں قائم ہو۔ توسیع پسند ، استحصالی اور قبضہ گیروں کے شہر خوبصورت اور سرائیکی وسیب کے شہر کھنڈر بنتے رہیں۔ سرائیکی وسیب کی زمینوں کا ریکارڈ ان کے ریونیو بورڈ کے پاس رہے۔ سرائیکی وسیب کے لوگوں کو جانگلی ، جاہل بنا کر رکھا جا سکے۔ اس لئے سرائیکستان کی مخالفت قابض طبقہ کر رہا ہے۔مقتدر قوتوں کی کوشش ہے کہ سرائیکی وسیب کے وسائل ان کے کنٹرول میں رکھنے کیلئے لمبی منصوبہ بندی پر عمل ہو سکے۔ صوبہ پنجاب کے سارے بجٹ کو اپنی مرضی کے مطابق خرچ کر سکیں اور پشاور والے ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کی زرخیز ترین سرائیکی دھرتی کے وسائل اپنے مقصد کیلئے خرچ کر سکیں ۔ اپنے علاقے کو جاپان اور کوریا اور سرائیکی وسیب کو صومالیہ اور اتھوپیا بنایا جا سکے۔ وسیب کے تمام سرکاری اور نیم سرکاری محکموں میں سرائیکی نوجوان کو میرٹ کے بہانے سے نوکریوں سے محروم کر سکیں اور اپنے لوگوں کو بھرتی کر سکیں اور سرائیکی وسیب کے تمام اعلیٰ عہدوں پر ان کے افسران براجمان رہیں۔ پرائیوٹ محکموں میں بھی ان کے لوگوں کو آسانی سے نوکریاں مل سکیں۔ سرائیکی وسیب کے تمام تعلیمی اداروں میں ان کے بچے آسانی سے داخلہ لے سکیں اور ہمارے بچوں کو محروم رکھ سکیں۔ ان کی اولادیں افسر اور وسیب کی اولادیں نوکر بنتی رہیں۔ اندرون اور بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کیلئے تقریباً سارے سکالر شپ زیادہ تر ان علاقوں کے طالب علم حاصل کر سکیں۔ سرائیکی وسیب میں بزنس اور کاروبار کیلئے اپنے لوگوں کی ہر طرح مدد کر کے ان کو خوشحال کر سکیں۔ سرکاری و کمرشل بنکوں میں تمام اہم عہدوں پر ان کا قبضہ رہے تاکہ وہ اپنے لوگوں کو بھرپور مالی فائدہ دے سکیں۔ یہ وجوہات ہیں جس کی بناء پر صوبے کی مخالفت کی جاتی ہے حالانکہ سرائیکی صوبے کا قیام استحکام پاکستان کی ضمانت ہے، وفاق مضبوط اور مستحکم ہو گا اور پنجاب کے حجم کی بنا پر چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی ختم ہو گا، اتفاق سے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کا تعلق سرائیکی وسیب سے ہے، سرائیکی وسیب کی بدولت ہی ان دونوں کو یہ مقام اور مرتبہ نصیب ہوا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے وسیب کیلئے کچھ کریں، وسیب کے کروڑوں لوگوں کا مطالبہ ہے کہ جب تک صوبے کا قیام عمل میں نہیں آتا اُس وقت تک وزیر اعلیٰ چار دن لاہور اور چار دن ملتان میں بیٹھیں اور پنجاب کی اسٹیبلشمنٹ کو دو حصوں میں تقسیم کرکے تمام محکموں کے ایڈیشنل سیکرٹری ملتان میں بٹھائے جائیں، اسی طرح صوبہ کمیشن میں ڈیرہ اسماعیل خان، میانوالی اور جھنگ کے نمائندوں کو بھی شامل کریں اور اُسی طرح سرائیکی صوبہ بنائیں جس طرح کہ دوسرے صوبے ہیں، اب وسیب کے لوگوں کو اُن کا صوبہ بھی دیا جائے، صوبائی اختیار بھی دیا جائے اور اُن کو شناخت بھی دی جائے۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ