ہفت روزہ پیامبر کے چیف ایڈیٹر اور رحیم یارخان کے بزرگ صحافی چوہدری بشیر امانت علی گزشتہ روز رحیم یارخان میں وفات پا گئے ۔ مرحوم کی عمر 92 سال تھی ، ان کو رحیم یارخان میں بابائے صحافت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ان کا شمار رحیم یارخان پریس کلب کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ رحیم یارخان پریس کلب کے اہم عہدوں پر فائز رہے ‘ کئی مرتبہ عہدہ صدارت ان کے پاس رہا ۔ انہی خدمات کی بناء پر رحیم یارخان پریس کلب نے ان کو تاحیات سرپرست اعلیٰ مقرر کیا ۔ چوہدری بشیر امانت علی نہایت شریف النفس اور وضعدار انسان تھے ۔ ان کے والد چوہدری امانت علی کو رحیم یارخان میں بہت جائیداد حاصل ہوئی اور اس پر انہوں نے ایک ہاؤسنگ سکیم’’ چوہدری امانت علی کالونی ‘‘ کے نام سے بنائی ، صاحب حیثیت ہونے کے باوجود ان میں تکبر اور رعونت نام کی کوئی چیز نہ تھی ، وہ رحیم یارخان کی تاریخ بھی تھے اور تاریخی حقیقتوں کے چشم دید گواہ بھی ۔ انہوں نے پاکستان بنتے دیکھا ، وہ مشرقی پاکستان میں بہت عرصہ مقیم رہے ،ا سی بناء پر انہوں نے پاکستان کو دو لخت ہوتے بھی دیکھا ، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ان کو بہت صدمہ تھا ۔ 1978-82ء میرا رحیم یارخان قیام رہا ۔ اس دوران چوہدری بشیر امانت علی سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا ۔ مجھے اخبار اور کتابیں پڑھنے کا شوق شروع سے تھا ۔’’ پیاسا کنویں کے پاس آتا ہے ‘‘ چوہدری بشیر امانت علی اینڈ سنز پر ہمارا آنا جانا رہتا ، چوہدری بشیر امانت علی صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ اخبارات کے نیوز ایجنٹس اور بک سیلر تھے ۔ انہوں نے اپنے اس کاروبار کو پورے ضلع رحیم یارخان سے لیکر روہڑی تک وسعت دی ۔ رحیم یارخان میں انکی دوکان ریلوے چوک پر ہے ۔ چند قدم کے فاصلے پر ریلوے اسٹیشن ہے ، چوک سے مشرق اور مغرب کی طرف جانیوالے بازار شاہی بازار کہلاتے ہیں ۔ چوہدری بشیر امانت علی بتاتے تھے کہ جب ہم نے یہاں دوکان بنائی تھی تو یہاں جنگل اور جھاڑیاں تھیں ، بجلی نہیں تھی ، شام کو یہاں آتے ہوئے ڈر لگتا ، رات کو ریلوے اسٹیشن کی روشنی آبادی کے ہونے کا احساس دلاتی، وہ بتاتے تھے کہ خانپور اس وقت بڑا شہر تھا ، خانپور جنکشن ہونے کے ساتھ ساتھ وہاں کی انگلش طرز کی ریلوے کالونی ، اس کے فوارے اور صدر بازار کی رونقیں دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں ، ہم شوق سے دیکھنے جاتے، ان دنوں پورے ضلع میں ایک ہائی سکول تھا اور وہ خانپور میں تھا ۔ رحیم یارخان سے بہت سے لوگوں نے میٹرک خانپور سے کیا تھا ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ چوہدری بشیر امانت علی رحیم یارخان کی ایک تاریخ تھے ‘ انہوں نے ایک مرتبہ رحیم یارخان کے بارے میں بتایا کہ اس کا پہلا نام ’’ نوشہرہ ‘‘ ہے ، یہ ضلع خانپور کا چھوٹا سا قصبہ تھا ۔ 1751ء میں اس کا قیام عمل میں آیا۔ 1880ء میں ریلوے لائن بچھائی گئی تو نوشہرہ اسٹیشن کا نام نواب آف بہاولپور نے اپنے مرحوم بیٹے رحیم یارخان کے نام پر رکھا اور 1881ء میں نواب بہاولپور نے خانپور کی ضلعی حیثیت ختم کرکے رحیم یارخان کو ضلع کا درجہ دے دیا ۔ 1905ء میں ٹاؤن اور 1923ء میں رحیم یارخان میں میونسپل کمیٹی کا درجہ ملا اور اسی سال رحیم یارخان کو سیراب کرنے والا پنجند ورکس مکمل ہوا اور رحیم یارخان پر آبادکاروں کی یلغار شروع ہوئی ۔ انگریزوں کی سرپرستی میں ہونے والی آبادکاری میں مقامی لوگوں کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ۔ 1927ء میں رحیم یارخان میں محکمہ آبپاشی کے وفاتر اور انہار کالونی قائم ہوئی ۔ 1948ء میں رحیم یارخان میں عباسی ٹیکسٹائل ملز اور 1952ء میں بہت بڑا صنعتی پلانٹ لیور برادرز کے نام سے قائم ہوا۔ رحیم یارخان میں جو ترقی نظر آتی ہے ، اس میں سیاستدانوں کا کم اور چوہدری بشیر امانت علی جیسے اہل قلم کا ہاتھ زیادہ ہے ۔ وہ رحیم یارخان سے جنون کی حد تک محبت کرتے تھے ‘ رحیم یارخان کی ترقی کیلئے فکر مند رہتے ، رحیم یارخان ریلوے اسٹیشن اتنا بڑا نہ تھا لیکن تیز رفتار ٹرینوں کے سٹاپ مقرر کرانے کیلئے وہ بہت فکر مند رہتے ۔ انہوں نے خود بتایا کہ میری فکر مندی اس بناء پر بھی ہے کہ اخبارات کے بنڈل کی ترسیل میں مشکلات درپیش ہیں ، لیکن اس کے ساتھ رحیم یارخان کے لوگوں کو بھی سفری سہولتیں ملنی چاہیں ۔ رحیم یارخان میں ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ طویل رہا ۔ میں رحیم یارخان سے خانپور آ گیا ۔ 1990ء میں ہم نے سرائیکی اخبار جھوک شروع کیا تو چوہدری بشیر امانت علی نے کہا کہ ہم سندھ جاتے ہیں تو وہاں ہمیں سندھی اخبارات ملتے ہیں ‘ اس بناء پر سرائیکی کا ہونا کوئی جرم نہیں ہے ۔ ایک مرتبہ جھوک میں ایک مضمون ’’ رحیم یارخان یا ارائیں یار خان ‘‘ شائع ہوا تو وہ اس پر محظوظ بھی ہوئے ۔ چوہدری بشیر امانت علی نے ساری زندگی صحافت کی ، انہوں نے کبھی سیاست میں قدم نہ رکھا ۔ ہماری آنکھوں کے سامنے بہت سے لوگ چوہدری سے بڑے چوہدری اور پھر اس سے بھی بڑھ کر ’’ میاں صاحبان ‘‘ ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بڑے بڑے کارخانوں اور مِلوں کے مالک بن گئے مگر چوہدری بشیر امانت علی اور ان کے بھائیوں نے ’’بڑا‘‘ بننے کیلئے کوئی غلط کام نہ کیا ۔ چوہدری امانت علی مرحوم کے بیٹوں چوہدری منیر امانت علی ، چوہدری صغیر امانت علی ، چوہدری مجید امانت علی ، چوہدری امیر امانت علی اور چار بہنوں میں سے چوہدری بشیر امانت علی سب سے بڑے تھے ۔ تمام بہن بھائی ان سے پہلے فوت ہوئے ۔ ان کے بھائی چوہدری منیر امانت علی جن سے میری بہت زیادہ قربت اور دوستی تھی امریکا میں فوت ہوئے ، تعزیت کیلئے گیا ،پہلی مرتبہ چوہدری بشیر امانت علی کو بہت زیادہ مغموم دیکھا ، حالانکہ وہ بہت حوصلہ مند اور مضبوط عصاب کے مالک تھے ۔ مرحوم کے بھتیجے اپنے بزرگوں کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں ، خانپور میں بھی چوہدری فقیر محمد اور ان کے صاحبزادے چوہدری محمد قیصر نے انیس بک ڈپو کی شکل میں علم کی شمع روشن کر رکھی ہے ‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ چوہدری بشیر امانت علی کی وفات سے ایک خلا پیدا ہوا ہے ‘ جو کبھی پُر نہ ہو سکے گا ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ وہ ہمیشہ یاد رہیں گے اپنی شرافت اور اپنی دیانت کے حوالے سے۔ بابا بلھے شاہ نے سچ فرمایا ہے ’’ بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں ، گور پیا کوئی ہور ‘‘ ۔
(بشکریہ:روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ