تحریک انصاف تبدیلی اور انصاف کے نام پر برسر اقتدار آئی ہے ۔ سرائیکی وسیب کے کروڑوں عوام سے سو دن کے اندر صوبہ بنانے کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ وہ سو دن تیزی کے ساتھ پورے ہو رہے ہیں ۔ ابھی صرف چند دن باقی ہیں ۔ عمران خان کی حکومت کو بشمول ٹانک ، ڈی آئی خان ، میانوالی ، بھکر و جھنگ وغیرہ صوبے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں ۔ صوبے کیلئے سرائیکی وسیب کا مقدمہ وہی ہے جو کہ قائد اعظم نے ہندوستان کی سپریم کورٹ میں لڑا تھا اور سندھ کو ممبئی میں شامل کرنے پر انگریز سامراج کے آمرانہ فیصلے پر دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ تاریخی ‘ جغرافیائی اور ثقافتی و لسانی اعتبار سے ممبئی سے الگ ہے اور سندھ کو ممبئی میں شامل کرتے وقت وہاں کے لوگوں کی مرضی یا رضا مندی کے خلاف غیر آئینی آرڈیننس جاری کیا گیا ۔ یہی مقدمہ سرائیکی وسیب کے لوگوں کا ہے کہ 2 جون 1818ء کو سرائیکی وسیب پر قبضہ کیا بعد ازاں 1849ء میں انگریز سامراج نے صوبہ ملتان کو پنجاب کا حصہ بنایا اور پھر 9 نومبر 1901ء کو وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے صوبہ پشاور کو صوبہ سرحد کے نام سے بحال کیا تو سرائیکی وسیب کے اضلاع بھی ناجائز طور پر اس میں ڈال دیئے ۔ آج انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تاریخی ‘ جغرافیائی و ثقافتی اعتبار سے اسی طرح صوبہ بنایا جائے جس طرح دوسرے صوبے ہیں ۔ وہ آئین جو شمال مغربی سرحدی صوبے کا نام اس بنیاد پر تبدیل کرتا ہے کہ صوبے سمتوں کے نام پر نہیں شناخت کے نام پر ہوتے ہیں تو وہ آئین کس طرح سرائیکی وسیب کو اس کی شناخت سے محروم کر سکتاہے ؟ آئین اور انصاف کے الگ الگ پیمانے نہیں ہونے چاہئیں ۔ ڈیرہ اسماعیل خان دریائے سندھ کے کنارے ایک عظیم تہذیبی ورثے کا نام ہے، یہ خطہ صدیوں سے سرائیکی تہذیب کا مرکز ہے ۔9 نومبر 1901 ء کو وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے پشتونوں کو خوش کرنے کیلئے ایک نیا صوبہ سرحد قائم کیا تو لوگوں کی منشاء و مرضی کے خلاف اسے زبردستی صوبہ سرحد کا حصہ بنادیا ۔ ڈیرہ اسماعیل خان تاریخی اعتبار سے ڈیرہ جات صوبے کا حصہ تھا اور اس کے زمینی ، ثقافتی اور لسانی رشتے ڈیرہ غازی خان ، ملتان ، لیہ ، بھکر اور میانوالی سے جڑے ہوئے تھے ۔یہاں 95 فیصد آبادی سرائیکی بولتی ہے ۔ انگریز سامراج کی طرف سے سرائیکی علاقوں کو این ڈبلیو ایف پی کا حصہ بنانے کے خلاف مزاحمت ہوئی اور کئی ماہ مظاہرے اورہڑتالیں کی گئیں ، جن میں پولیس تشدد سے 25افراد ہلاک ہو گئے ۔ ان مظاہروں کی قیادت نواب آف ڈیرہ اسماعیل خان نواب احمد نواز خان، نواب آف ٹانک قطب الدین خان، سردار اسد جان گنڈا پوراور ہندو رہنما جیسا رام، رائے بہادر، دیانند ، سیٹھ بگئی ، سیٹھ بھٹیا نے کی ۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ 115 سال گزر جانے کی باوجود ڈی آئی خان ڈویژن، تہذیبی ، ثقافتی ، کاروباری اور سیاسی لحاظ سے صوبہ سرحد ( کے پی کے ) کے ثقافتی ، معاشی اور سیاسی وجود کا جزو نہیں بن سکا۔تہذیب کی حامل قومیں اس بات کا ادراک رکھتی ہیں کہ ایک تہذیب اور ایک قوم کو ایک دوسرے سے الگ کرنا کتنا بڑا جرم ہے ، البتہ حملہ آور اس کا ادراک نہیں کر سکتے ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ڈیرہ ڈویژن کے 100 فیصد کاروباری رشتے اور زرعی و تجارتی معیشت کا درارومدار ملتان پرہے ، یہاں کا باشندہ پشاور کا رخ نہیں کرتا بلکہ 100 فیصد کاروباری اور زرعی سرگرمیوں کا رخ سرائیکی وسیب کی جانب ہے۔ ڈی آئی خان ڈویژن کے تمام تہذیبی و ثقافتی مظاہر جن میں گھوڑا دوڑ ،نیزہ بازی ، کشتی ، کبڈی ،گسنی ، بیلوں اور دوسرے جانوروں سمیت تمام روایتی کھیل بھکر، ڈیرہ غازی خان ،ملتان اور سرائیکی وسیب سے گندھے ہوئے ہیں ۔ ڈی آئی خان کا کوئی کھلاڑی پشاور ، لکی مروت اور کوہاٹ نہیں جاتا اور نہ ہی وہاں کے کھلاڑی ڈیرہ اسماعیل خان آتے ہیں ۔ ڈی آئی خان جو اس خطے میں گولڈ اور کشیدہ کاری ( کڑھائی ) کی سب سے بڑی منڈی ہے، زرگری اور کشیدہ کاری کے شعبے میں تمام کام کرنے والی 100 فیصد لیبر ملتان اور سرائیکی وسیب کے دوسرے شہروں سے لائی جاتی ہے ۔ زرعی انجینئرنگ کے تمام آلات ، بیج ، کھادیں اور زرعی اجناس کے تخم تک ملتان اور جھنگ سے لائے جاتے ہیں ۔ وسیب کے تمام لوگوں کے مذہبی ، ثقافتی ، خونی رشتے سرائیکی وسیب اور سندھ سے جڑے ہوئے ہیں ۔ یہاں کوئی شخص بنوں ، چارسدہ ، پشاور اور مردان نہیں جاتا۔ صرف سرکاری فائل کی مجبوری یہاں کے باسیوں کو پشاور لے جاتی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک پڑھے لکھے دوست عباس سیال کی کتاب ’’ دیرہ مُکھ سرائیکستان ‘‘ میں ایک مضمون ’’ڈیرہ اسماعیل خان مرحوم ‘‘ کے نام سے ہے ، اس میں ڈیرہ اسماعیل خان مرحوم اپنا تعارف اس طرح کراتے ہیں۔ پورا نام:ڈیرہ اسماعیل خان ۔ قوم: سرائیکی۔ سکنہ : سرائیکی وسیب ۔ تاریخ پیدائش : 1469ء ۔ تاریخ اغواء : 9 نومبر1901 ئ۔ تاریخ یتیمی:1947ء ۔ تاریخ نزع:1987ء ۔ تاریخ وفات2009: ء ڈیرہ اسماعیل خان کی طرح ٹانک میں بھی بڑے بڑے سرائیکی شاعر، ادیب اور دانشور پیدا ہوئے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بر صغیر کی تاریخ میں ہندوستان کے شہنشاہ شیر شاہ سوری کا بہت بڑا نام ہے ، وہ پہلا شخص تھا جس نے سولہویں صدی میں ہندوستان کو مواصلاتی سہولتوں سے آشنا کیا اور سڑکوں کا جال بچھایا لیکن یہ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ اس کا تعلق سرائیکی وسیب کی ٹانک بستی روڑی سے تھا۔ سرائیکی رہنما ظہور دمانی شہید کا تعلق بھی اسی ضلع سے تھا ۔ یہ خطہ صدیوں سے زرخیز ہونے کے ساتھ ساتھ مردم خیز بھی رہا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ یہاں بڑے بڑے حریت پسند اور مشاہیر پیدا ہوئے لیکن دہشت گردوں نے اس خطے کے اصل تہذیبی و ثقافتی پہچان کو مسخ کر دیا ہے اور توسیع پسندی کے نظریے سے یہاں بم دھماکے اور فرقہ ورانہ فسادات کرائے گئے اور وسیب کے لوگ نقل مکانی پر مجبور کر دیئے گئے۔چھوڑے گئے گھروں میں وہ آئے جن کا سرائیکی تہذیب اور ثقافت سے کوئی تعلق نہیں ۔ ضیا الحق دور میں ایک پلاننگ کے تحت افغان مہاجرین کے بڑے بڑے کیمپ یہاں قائم ہوئے ۔ اب اسلحہ بردار ناجائز فروش مہاجر اس خطے کے مالک اور مقامی مہاجر نظر آتے ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ92نیوز)
فیس بک کمینٹ