موجودہ حکومت جو کہ تبدیلی کے نام پر بر سر اقتدار آئی ہے ‘ اس سلسلے میں سب سے پہلی جو بات میں کرنا چاہتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد صحافت پر برا وقت آیا ہے ‘ پرنٹ اور الیکٹراک میڈیا کے واجبات روک دیئے گئے ہیں۔ اشتہارات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں اور مالی بحران کے پیش نظر اداروں سے ہزاروں ملازمین برطرف ہو چکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان ‘ وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیراعلیٰ سردارعثمان بزدار سمیت تمام وزرائے اعلیٰ سے یہی درخواست ہے کہ وہ میڈیا کے اداروں کی بہتری کیلئے اقدامات نہیں کر سکتے تو انہیں کم از کم پہلی پوزیشن پر تو برقرار رکھیں۔ اب صحافت کی تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل برصغیر کی تاریخ کو صحافت کے تناظر میں دیکھا جائے تو بہت ہی حیران کن واقعات سامنے آتے ہیں۔ 1857 ءکی جنگ کے بعد بدیسی حکمرانوں نے حریت پسندوں کے ساتھ ساتھ قلم کی آزادی پر بھی حملہ کیا اور ا?زادی کیلئے لکھنے والے اخبار اور رسائل بند کر دیئے۔ گو کہ اس زمانے میں اخبار زیادہ شائع نہیں ہوتے تھے لیکن بدیسی حکمرانوں کو آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا ”فارسی اخبار “ بھی برداشت نہ ہوا اور اسے بھی بند کیا جو کہ 1841 ءمیں شروع ہوا تھا، اور اس میں محض سرکاری نیوز لیٹر وغیرہ جاری ہوتے تھے۔ بند ہونے والے اخبارات میں مولانا حسین احمد آزاد کے والد مولوی محمد باقر کا 1836 ءمیں جاری ہونیوالا اردو اخبار، سرسید احمد خان کے بڑے بھائی سید محمد خان کا 1837 ءمیں جاری ہونے والا ” سید الاخبار “ بھی شامل تھا۔ 1857 ءمیں آزادی صحافت اور اخبارات پر سب سے بڑا حملہ بدیسی حکمرانوں نے کیا اس کے ٹھیک ایک سو ایک سال بعد یعنی 1958 ءمیں آزادی صحافت پر اس سے بھی بڑا حملہ ایوب خان کے مارشل لاءکے دور میں کیاگیا جس کے باعث پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے اخبارات پاکستان ٹائمز، امروز، لیل و نہار اور سپورٹس وغیرہ پر رات کی تاریکی میں کمانڈو ایکشن کے ذریعے قبضہ کر لیا گیا، صحافیوں پر تشدد ہوااور حکومت نے ان اخبارات کو اپنے غیر آئینی ، غیر جمہوری اور غیر اخلاقی مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا، جبر کے باعث ان اخبارات اور اداروں کی کیفیت بیگار کیمپ کی مانند ہو گئی، کسی کو کسی بھی طرح کا کوئی حق حاصل نہ تھا، کام کرنے والے صحافیوںکو ڈیلی ویجز مزدورسمجھاجانے لگا۔ صحافیوں اور ملازمین نے اس پر احتجاج کیا ، ان کے دباﺅپر 1964 ءمیں ایک خودمختار ادارہ ” نیشنل پریس ٹرسٹ “ قائم کیا گیا ، اس میں ملازمتوں کے رولز تو طے ہوئے ملازمین کے معاشی مسئلے بھی حل ہوئے لیکن آزادی صحافت عنقا رہی، ایوب خان کے دور میں بھٹو تحریک کے خلاف سب سے زیادہ ” نیشنل پریس ٹرسٹ “ کے اخبارات نے لکھا، بھٹو صاحب بر سر اقتدار آئے تو انہوں نے بھی اس ادارے کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ بھٹو صاحب کے بعد جنرل ضیا الحق آئے، صحافیوں نے ضیا کے مارشل کو خوش آمدید نہ کہا اور پھر انتقامی کارروائیاں شروع ہوئیں۔ یہ ادارے بہت کمزور اور قریب المرگ ہو گئے۔ جنرل ضیا الحق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میاں نواز شریف نے 1997 ءمیں ٹرسٹ کے اخبارات کو پرائیوٹیائز کر دیا، لیکن ٹرسٹ کے مستقبل کے بارے میں کسی طرح کی قانون سازی نہ کی گئی جس کے باعث کھربوں کی جائیداد ضائع ہو گئی اور آج بھی ہو رہی ہے اور ملازمین بھی ر±ل گئے البتہ امروز لاہور اورپاکستان ٹائمز کے ملازمین گولڈن بینڈ شیک کر دیا گیا مگر سرائیکی وسیب سے امتیازی سلوک ہوا اور امروز ملتان کے ملازمین آج بھی دھکے کھا رہے ہیں اور بہت سے ملازمین بیماری ، بڑھاپا اور غربت کے باعث بغیر علاج سسک سسک کر مر گئے۔ پہلے وقتوں کے صحافی بہت اچھے ادیب بھی ہوتے تھے۔شعرو شاعری سے بھی ان کو بہت شغف اور دلچسپی ہوتی تھی، آج ایسی صورتحال دیکھنے کو نہیں آتی ، اس کے باوجود جب تک پرائیوٹ ٹی وی چینل نہیں آئے تھے ، صورتحال ٹھیک تھی ، آج ٹی وی اینکرز ہر جگہ میڈیا ٹرائل کرتے نظر آتے ہیں ، وہ خود مدعی ، منصف کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔ پہلے وقتوں میں اخبار یا رسالے مختصر چھپتے تھے، آج کی ٹیکنالوجی کی سہولتیں حاصل نہ تھیں ، ان دنوں ہاتھ کی کتابت کیلئے مسطر ہو تے تھے، پیلے رنگ کی سیاہی سے خطاط ہاتھ سے کتابت کرتے، لیتھ مشین پر چھپائی ہوتی، سیاہی بننے میں کوئی کمی رہ جاتی یا پھر پلیٹ میکر پلیٹ میکنگ میں کوئی غلطی کر دیتا تو پھر کتابت بھی ضائع ، پلیٹ بھی ضائع، نئے سرے سے کتابت اور نئے سرے سے پلیٹ میکنگ ، بہت مشکل دور تھا، پھر ٹریڈل مشینوں پر نسخ رسم الخط میں کمپوزنگ کا دور آیا، کتابیں وغیرہ اس میں شائع ہونے لگیں ، کچھ اخبار اور رسالے بھی شائع ہوئے ، رومن کیلئے تو یہ سسٹم ٹھیک تھا مگر نستعلیق اردو قاری کی نظروں میں اس کی جگہ نہ بن سکی، اس کے بعد آفسٹ مشینوں کا دور آیا، بڑے اخباروں میں خطاط شفٹوں میں کام کرتے تھے، پھر دور تبدیل ہوا ، پاکستانی اخباری صنعت میں کمپیوٹر پروگرام نوری نسعلیق متعارف کرایا، آج نت نئی ٹیکنالوجی، سبک رفتار 4 کلر مشینیں ، کلر پرنٹر اور کلر سیکنرز غرض آج پاکستانی صحافت ترقی یافتہ ممالک کے ہمقدم ہے، لیکن اخبارات کا بلیک اینڈ وہائٹ سے رنگین ہو جانا جدیدیت نہیں ، اصل جدیدت رحجانات کا نام ہے۔آج جہاں صحافیوں کو کام کرنے کی سہولتیں ہیں ، آنے والے کل میں وہ مشینیں بھی آر ہی ہیں جو محض کمپیوٹر کے آرڈر پر طباعت کے تمام مرحلے خود کار سسٹم کے تحت طے کردیں گی۔ اس سلسلے میں اہم فریضہ صحافیوں کا ہے کہ صحافت کا لفظ صحیفے سے ماخوذہے آج ضرورت خود داری ، خود انحصاری اور قومی وقار کے تحفظ کی ہے ، جان کے تحفظ کے ساتھ آن کا تحفظ بھی اس سے زیادہ اہم ہے۔ ا?ج صحافی برادری صرف نئی مشینوں اور ٹیکنالوجی کو جدیدیت یا جدید صحافت کا نام نہ دے بلکہ رپورٹنگ اور خبرکی دنیا میں انقلاب لائے۔میڈیا کسی کا آلہ کار بنے نہ ٹشو پیپر ،بلکہ اس کی حیثیت روشنی اور رہنما کی ہونی چاہئے ، صحافی کو صرف سیاستدان یا رہنما نہیں بلکہ مدبر سیاستدان ہونا چاہئے ، اس کی نظرشش جہات ہونی ہوتی ہے، وہ کسی سیاستدان کے بیان یا کسی اور ادارے کے فیصلے کی لائنوں کو صرف دیکھتا ہی نہیں بلکہ ان کے اندر چھپی ہوئی معنویت کو بھی جانتا ہے، آج کا صحافی روائت شکن بھی ہے اور روائت ساز بھی۔ سانپ کے ڈسنے سے آدمی مر گیا یا باﺅلے کتے کے کاٹنے سے فلاں جانبر نہ ہو سکا، یہ پرانی اور روائتی خبریں ہیں ، آج خبر یہ ہے کہ سانپ کے کاٹنے سے آدمی نہیں سانپ مر جائے۔
(بشکریہ:روزنامہ92نیوز)
فیس بک کمینٹ