سرائیکی زبان کے عظیم صوفی شاعر خواجہ غلام فریدؒ کے ملتان سے تعلق کے حوالے سے بات کرنے سے پہلے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ خواجہ فرید کے عرس کی تقریبات کوٹ مٹھن ضلع راجن پور میں جاری رہیں۔ زائرین کو سہولتوں کے حوالے سے بہت سے مسائل درپیش رہے ۔ سخت سردی کا موسم تھا ‘ ہزاروں زائرین کھلے آسمان کے نیچے سردی سے ٹھٹھرتے رہے۔ محکمہ اوقاف کے پاس خواجہ فرید کی لاکھوں کنال وقف اراضی دکانات و مکانات موجود ہیں ، اگر آمدنی کا عشر عشیر بھی زائرین کی سہولتوں پر خرچ ہو تو پورا کوٹ مٹھن پیرس بن سکتا ہے ۔ دربار فرید پر زائرین کے لئے مسافر خانے ، لنگر خانہ ، مزار کی توسیع ، لائبریری ، ایوان فرید اور فرید کمپلیکس کا قیام تو اپنی جگہ رہا ، زائرین کیلئے پینے کا صاف پانی اور باتھ روم تک موجود نہیں ۔ پہلے وسیب کے لوگوں کو شکایت تھی کہ لاہور کے میاں برادران سب کچھ لاہور پر خرچ کر دیتے ہیں ، اب جبکہ وزیراعلیٰ کا تعلق اس علاقے سے ہے تو وسیب کے لوگوں کو بتایا جائے کہ وہ کس سے شکایت کریں ؟ انٹرنیشنل سرائیکی کانفرنس نئی دہلی کے بانی چیئرمین بیرسٹر جگدیش بترا خواجہ فرید کے عرس میں شرکت کیلئے پاکستان پہنچ گئے ۔ کوٹ مٹھن جاتے ہوئے ملتان میں بندہ ناچیز ( ظہور دھریجہ) نے عابد سیال ‘ زبیر دھریجہ ‘ سانول احسان اعوان ‘ کاشف دھریجہ کے ہمراہ ان کا استقبال کیا ۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر جگدیش بترانے کہا کہ خواجہ فرید صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کے عظیم شاعر ہیں اور ہندوستان میں نہ صرف سرائیکی بلکہ تمام زبانیں بولنے والے ان کا کلام محبت سے پڑھتے ہیں ۔ خواجہ فرید نے پوری دنیا کو انسان دوستی کا درس دیا ہے ‘ ہندوستان میں دیوان فرید کو دیوناگری رسم الخط میں شائع کیا گیا ہے ‘ جس سے ہندوستان کی نئی نسل تک خواجہ فرید کا پیغام پہنچ رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں حکومت پاکستان کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے عرس میں شرکت کیلئے ویزا جاری کیا ۔ بیرسٹر جگدیش بترا نے کہا کہ پاکستان ہماری جنم بھومی ہے ‘ اس کے ایک ایک ذرے سے محبت ہے ‘ ملتان ہمارے لئے مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے ‘ ہندو مذہب کے جتنے بھی مقدس مقامات ہیں ‘ ان میں ملتان سر فہرست ہے ۔ انہو ںنے کہا کہ ہم نے حکومت ہند کو ایک عرضداشت بھیجی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جہاں ہندوستان کی دیگر 16 زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ حاصل ہے ، اسی طرح سرائیکی کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا جائے کہ صحرائے راجھستان میں تو سرائیکی بولنے والے قدیم لوگ صدیوں سے موجود ہیں ‘ اس کے ساتھ جو کروڑوں افراد جو پاکستان سے ہندوستان منتقل ہوئے ‘ ان کی تہذیب و ثقافت پوری طاقت کے ساتھ زندہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری دعا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بہتری ہو اور دونوں ملکوں کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ملکر رہیں اور امن کی حالت میں دونوں ملکوں کے غریب عوام ترقی کر سکیں ۔اس موقع پر مہمان کو سرائیکی اجرک پہنائی گئی اور بیرسٹر جگدیش بترا نے ہندوستان میں دیوناگری رسم الخط میں شائع ہونیوالا خواجہ فرید کا دیوان بھی پیش کیا ۔ اب میں اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں ۔ خواجہ فرید کی ملتان سے اور ملتان کی خواجہ فرید سے محبت کے مظاہر جگہ جگہ ملتے ہیں۔ ملتان کے مولانا نوراحمد خاں فریدی اور ڈاکٹر مہر عبدالحق نے فریدیات پر بہت کام کیا۔ ڈاکٹر مہر عبدالحق کی کتاب ’’فرد فرید‘‘ اور لغات فریدی فریدیات کے طالبعلموں کو پڑھائی جاتی ہے اسی طرح مولانا نور احمدخاں فریدی نے دیوان فرید کا ترجمہ و شرح دو جلدوں میں شائع کی ۔انہوں نے یہ کام تصوف کے رنگ میں کیا۔ اس ترجمے کو فریدیات کے علم میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ملتان کے سرائیکی ادبی بورڈ نے فریدیات پر بہت کتابیں شائع کی ہیں، اس سلسلے میں ڈاکٹر طاہر تونسوی کی کوششیں اور ان کی تصانیف قابل قدر ہیں ۔ فریدیات کا ایک بہت بڑا نام ڈاکٹر شہزاد قیصر ہے ۔ موصوف نے فریدیات پر پی ایچ ڈی کی اور ان کی فریدیات پر انگریزی میں بہت بڑی کتاب بھی آئی ہے۔ ان کا ملتان کا حوالہ یہ ہے کہ وہ جب ملتان میں ڈپٹی کمشنر تھے تو ان کو فکر فرید سے عشق ہوا۔ عظیم ماہر فرید یات شیخ سعید احمد نے بھی ملتان میں بیٹھ کر فرید یات پر بہت بڑا کام کیا۔ اس طرح جھوک پبلشرز ملتان کا کام سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ کشفی ملتانی، ارشد ملتانی، ڈاکٹر اسلم انصاری، ریاض انور اور اقبال ارشد جیسے بیسیوں لوگ ہیں جنہوں نے خواجہ فرید کے سرائیکی کلام کا منظوم اردو ترجمہ کیا اور ان کا کلام میری کتاب ’’خواجہ فریدؒ کی شاعری کا اُردو روپ‘‘ میں شامل ہے۔خواجہ فرید کی کافی کی ایک لائن’’مسجد مندر ہکڑو نور‘‘ مجھے ملتان آکر سمجھ آئی کہ میرے سامنے مسجد حضرت بہاؤ الدین زکریاؒ ملتانی اور قدیمی توحید پرست پر ہلاد جی کے مندر کی دیواریں ایک ساتھ نظر آئیں۔ ملتان کی تاریخی جغرافیائی ثقافت اور تہذیبی و روحانی حیثیت خواجہ فرید جیسے جہاندیدہ بزرگ کی نظروں سے کسی بھی طرح اوجھل نہ تھی اس لئے وہ بار بار ملتان تشریف لاتے رہے۔معروف محقق اسلم میتلا لکھتے ہیں ’’ملتان سے خواجہ فرید کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر سال آپ اپنے خاص احباب کے ساتھ بگھیوں پر چاچڑاں سے سوار ہو کر ملتان کا سفر اختیار کرتے تھے۔ یہ قافلہ براستہ ظاہر پیر، شیدانی ہوتا ہوا اوچشریف پہنچتا تھا۔ پھر ملک پنو ہاں جو آپ کا مرید تھا کہ ہاں سے ہوتا ہوا جلالپور پیر والہ پہنچتا تھا۔ حافظ فتح محمد سے عارفانہ ملاقاتیں ہوتیں اور حضرت سلطان احمد قتال کے مزار پر حاضری دیتے ۔پھر نون اور لانگ زمینداروں کی ضیافتیں قبول کرتے تھے۔ (نون خاندان کے سرکردہ آپ کے مریدین تھے۔ (ایک مرتبہ شجاع آباد کے رئیس بالکش کے لڑکے کھیم سنگھ نے رانا پلیہ اور رانا گل بہار کے خلاف ایک خطرناک مہم شروع کی تو وہ خواجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تمام واقعات گوش گزار کیے تو خواجہ سئیں نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے دشمن تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ مطمئن ہو کر دونوں گھر واپس پہنچے تو معاملہ سرد پڑ چکا تھا اور مخالفین بال برابر تکلیف بھی نہ دے سکے) پھر براستہ شجاع آباد ملتان پہنچتے اور ان کا مستقل قیام ملک کریم بخش کھوکھر کے بنگلے پر ہوتا تھا۔ 1292ھ مطابق 1875ء میں آپ حج بیت اللہ کے لیے روانہ ہوئے۔ خان پورا سٹیشن پر مقربین نے براستہ کراچی روانہ ہونے کا مشورہ دیا مگر آپ نے فرمایا کہ فی الحال ملتان کا ٹکٹ لو ۔ مقربین سے فرمایا کہ براہ ہندوستان جانے کا فائدہ یہ ہے کہ زیارت مزارات پیران عظام و دیگر اولیائے کرام سے شرف ہونے کا موقع ملے گا چنانچہ 24شوال 1292ھ کو بسواری ریل ملتان پہنچے ۔ تھوڑی دیر اپنی حویلی میں قیام کے بعد زیارت مزارات اولیائے ملتان کے لیے روانہ ہوئے اور درج ذیل مزارات پر حاضری دی۔ شیخ بہاء الدین زکریاؒ ، شیخ صدر الدین عارفؒ ، شیخ حسن افغانؒ ملتانی ، حضرت شاہ رکن عالمؒ، شیخ علاؤ الدینؒ، شیخ شمس الدینؒ سبزواری، سید موسیٰ پاک شہیدؒ، حافظ محمد جمال ؒ ملتانی ، شیخ احمدؒ ، شیخ حمید الدین قریشیؒ، مولانا علی مردانؒ ، شاہ یوسف گردیزؒ ، شیخ غلام حسنؒ ، خلیفہ مولانا خدا بخش خیر پوری۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ