عباس سیال کی کتاب ڈیرہ مکھ سرائیکستان پر بات کرنے سے پہلے اٹھارہویں ترمیم پر سپریم کورٹ کے نوٹس بارے بات کرنا چاہتا ہوں ، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کا یہ بیان اہم ہے کہ 18 ویں ترمیم پر بحث نہیں ہوئی ، تشریح ہم کریں گے۔ اصولی طور پر ہم صوبوں کو اختیارات کے حق میں ہیں مگر غیر جمہوری اختیارات نہیں ہونے چاہئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اٹھارہویں ترمیم میں صوبوں کو اس قدر اختیارات دیئے گئے کہ صوبوں نے چار اسٹیٹ کا درجہ حاصل کر لیا۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد پنجاب نے چین اور ترکی کے ساتھ تجارتی معاہدے کئے۔ اب اگر بلوچستان بھارت اور افغانستان سے معاہدوں کی طرف چل پڑے تو اسے کون روک سکے گا ؟ اٹھارہویں ترمیم کے موقع پر کہا گیا کہ ضیاءالحق اور مشرف کی آمرانہ ترمیمیں ختم کی گئیں ، پھر سوال یہ ہے کہ آٹھویں ترمیم میں ضیاءالحق کی طرف شامل کی گئی وہ شق کیوں باقی رہنے دی گئی جس کی بناءپر غیر آئین ساز ادارے صوبائی کو نئے صوبے کے آئینی مسئلے میں شامل کیا گیا ؟ اٹھارہویں ترمیم میں یہ نعرہ لگایا گیا کہ آمریت کو دفن کر دیا گیا مگر سیاسی پارٹی سربراہ کو غیر جمہوری آمرانہ اختیارات کیوں تفویض کئے گئے ؟ قبل اس کے کہ سپریم کورٹ جائزہ لے ، وزیراعظم عمران خان کو پارلیمانی کمیٹی بنا کر اس کا جائزہ لینا چاہئے۔ اب میں بات کروں گا کہ عباس سیال کی کتاب بارے میں۔ تاریخی ،جغرافیائی اور ثقافتی طور پر ڈیرہ اسماعیل خان ایک شہر یا ایک ڈویڑن نہیں بلکہ بہت بڑے وسیب کا نام ہے۔وطن عزیز پاکستان میں اس کے تہذیبی ،ثقافتی ،لسانی اثرات اور رابطے بہت گہرے اور وسیع ہیں۔یہ خطہ ایک طرف خیبر دوسری طرف قندھار تیسری طرف مکران اور چوتھی طرف اپنے عظیم خطے وسیب کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان دیو مالائی فرضی کہانیوں کی سر زمین نہیں ،یہ خانہ بدوش پکھی واسوں کا خطہ بھی نہیں ، یہ ایسی سر زمین ہے جو صدیوں سے تہذیب و ثقافت کا گہوارہ رہی ہے ،جہاں پتھر نہیں پھول اگتے رہے ہیں اور جہاں نفرت کی ندیوں کی بجائے محبتوں کے دریا بہتے ہیں۔یہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی سرزمین بھی نہیں یہ ایسی بہشت ارضی ہے جہاں کی ہر نعمت دائمی ہے اور جہاں کے لوگوںکے اندر بے پناہ صلاحتیں پوشیدہ ہیں ،بس ہمت ،جرات اور حوصلے کی ضرورت ہے۔ آج کے پر آ شوب دور میں سوچ کے دریچوں پر دستک دیتی حساس موضوعات پر مبنی تحریروں سے سجی یہ باتیں عباس سیال کی کتاب ڈیرہ مکھ سرائیکستان میں شامل ہیں کتاب کے مطالعے سے ڈیرہ اسماعیل خان کے بارے بہت کچھ جاننے کو ملتا ہے۔ سرزمین ڈیرہ عہد قدیم میں ،دریائے ہاکڑہ ،سچے دیرے وال ،سیال محبتیں ،تھلہ بالو رام ،شاہ دریا ئے بیٹے ،آچنوں رل یار وغیرہ اور کتاب میں شامل کئی دوسرے مضامین اپنی افادیت اور اہمیت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں۔ عباس سیال کی زیر نظر کتاب ڈیرہ اسماعیل خان سمیت کا نہ صرف نیا ورشن اور نیا درشن ہے بلکہ یہ وسیب کے وہ دکھ ہیں جو ا±ن کے قلم سے تخلیق پا گئے ہیں۔کتاب میں مضامین اور ان کے اسلوب کا مفہوم بتا رہا ہے کہ صدیوں تک دنیا نے دیکھاہے صدیوں بعد یہ وقت آیا ہے کہ غاصبوں کو نہ صرف ان کی نیتوں سمیت دیکھ رہا ہے بلکہ ان کے سینوں کے اندر چھپے آئندہ کے غاصبانہ ارادوں کو بھی پہچان رہا ہے۔ ”ڈیرہ م±کھ سرائیکستان“ میں ایک مضمون ”ڈیرہ اسماعیل خان مرحوم “ کے نام سے بھی ہے جسے پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس میں مصنف نہیں بلکہ ڈیرہ اسماعیل خان خود بول رہا ہے۔اس مضمون میں ڈیرہ کی پیدائش 1469 ءسے تاریخ اغوا 1901ءتک کے حالات کو پوری سچائی اور درد مندی سے بیان کیا گیا ہے۔کوئی دوست یہ نہ سمجھے کہ ”مرحوم “ ڈیرے کو قرار دیا گیا ہے دراصل ”اشارہ “ سرائیکی قوم کی محرومیوں کی طرف ہے جولوگ اشارے سے بات سمجھ جاتے ہیں وہ دیدہ ور ہوتے ہیں ،عباس سیال کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے ،بہر حال ! میں یہ عرض کر رہا تھا کہ مضمون نگار نے اپنی زبان میں ڈیرہ اسماعیل خان کی اپنے وسیب سے بات کرائی ہے ،ڈیرہ اسماعیل خان کہتا ہے :۔ ” خان اسماعیل خان نے بڑے چاﺅ اور بڑے ارمانوں سے میرا نام ڈیرہ اسماعیل خان رکھا۔مجھے سندھ کنارے بسایا گیا ،لاڈ پیار سے میری پرورش کی گئی ،مجھے ڈیرہ پھلاں دا سہرہ کہا گیا۔میری خوشی اور خوشحالی کے قصے عام ہوئے۔تہذیبی ،تمدنی ،جغرافیائی اور ثقافتی اعتبار سے میں سرائیکی وسیب کا فطری حصہ تھا۔تہذیب و تمدن سے عاری اجڈ خانہ بدوشوں ،سفاک تا تاریوں ،افغانیوں اور دوسرے حملہ آوروں نے مجھے بار بار لوٹا اور بر باد کیا۔سندھ کی بے رحم طوفانی موجوں نے مجھے کئی بار صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی مگر میں ہر بار پھر نئی زندگی لیکر دنیا کے سامنے ا±بھرتا رہا ہوں ، آخر 9نومبر 1901ءکا منحوس ترین دن آپہنچا ،سفاک فرنگیوں نے مجھے اپنے وطن ملتان سے الگ کر کے ” تخت پشور “ کا قیدی بنا ڈالا “۔ یقینا آپ کو پورا پورا اندازہ ہو چکاہو گا کہ مرحوم ڈیرہ اسماعیل خان جو کچھ کہہ رہا ہے وہ صرف ڈیرہ اسماعیل خان نہیں بلکہ پورے وسیب کی آواز ہے۔یہ بھی ہماری مجرمانہ غفلت اور بے حسی ہے کہ ہم خاموش ہیں اور ڈیرہ اسماعیل خان بول رہا ہے۔جب ظلم ،بے حسی اور بر بریت حد سے بڑھ جائے ،انسان چلتے پھرتے لاشے بن جائیں تو پھر وسیب کے ”درو دیوار “ بولنے لگتے ہیں ڈیرہ کی آواز بھی اسی تناظر میں ہے۔ عبا س سیال نے بجا لکھا کہ اس دھرتی پر جب 1901ءمیں قبضہ ہوا تو اس کے بیٹے ظلم کے خلاف چیختے چلاتے لڑتے جھگڑتے رہے ان کا خون کھولتا رہااحتجاج ہوا ،ہڑتالیں ہوئیں مگر ان کی کسی نے نہ سنی انگریز سامراج وسیب کی قربانی سے کسی اور کو خوش کر نا چاہتا تھا ،ا س پر بھی ڈیرہ آج تک خون کے آنسورو رہا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ہندوﺅں کے چلے جانے کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کے ”مسلمانوں “ نے سیاسی مصلحتوں کی چادر اوڑ ھ لیں۔بہت سے تو اپنی قومیں اور ذاتیں تبدیل کرتے نظر آئے ،وہ غلامی میں چلے گئے ،اقتدار کی کرسی اور اقتدار کے دولت کدے ان کے ”مائی لارڈز “ اور مائی باپ بن گئے۔ ڈیرہ ،ڈیرے کی سر زمین ،ڈیرے کی تہذیب و تمدن ،ثقافت اور اس کی میٹھی بولی انہیں بھول گئی ،ایسے لوگوں نے سمجھا کہ ہم ترقی کر گئے حالانکہ انہوں نے قوم کے ساتھ اپنا نقصان لیا۔آج ڈیرے اور وسیب میں جتنے بھی مسائل نازل ہو رہے ہیں وہ اسی تباہی کا نتیجہ ہیں ،کان نہ ہوں کانوں میں انگلیاں ڈالی گئی ہوں، کوئی نہ سن سکے تو الگ بات ہے ،عباس سیال نے ڈیرہ اسماعیل خان کی وارننگ او ر تنبیہ بار بار سنائی ہے ،مرحوم ڈیرہ اسماعیل خان کہتا ہے ”میری پناہ میں آکر میری گود سے خوشیاں ،رزق ،خوشحالی اور آزادی نچوڑ کر میری حرمت اور میرے باسیوں کو پامال کرنے والو ! میری پیشین گوئی سن لو۔تباہی کی یہ لہر اب یہیں تک نہیں رکے گی بلکہ ایک ایسے طوفان کا روپ دھاریگی جس کی زد سے تم تو کیا تمہاری آنے والی نسلیں بھی نہ بچ پائیں گی “۔
(بشکریہ:روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ