ظفرعلی سید (زیف )کاناول گل مینہ مجھے اس روزموصول ہوا جب پنجگوراور نوشکی میدان جنگ بنے ہوئے تھے ۔پنجگور پریس کلب کی جانب سے مدد کی اپیل کی جارہی تھی اور کہا جا رہا تھا کہ یکم فروری سے اہل علاقہ محصور ہیں اور اب تو گھروں میں راشن ، پانی بھی ختم ہوگیا ہے۔بلوچستان کی اس صورت حال کی جڑیں بہت دور تک تلاش کی جاسکتی ہیں ۔ وہاں کی بدامنی کو بے شک ہم بھارت سے جوڑیں لیکن اس کا کوئی نہ کوئی سرا افغانستان سے ضرور ملتا ہے۔وہی افغانستان جو گل مینہ کا موضوع ہے۔
ناول کا آخری حصہ مجھے اس منظر میں لے گیا جب 27دسمبر2007ءکو میں ایمبیسیڈر ہوٹل لاہورکے ایک کمرے میں بیٹھاتھااورمیرے سامنے ٹی وی کی سکرین بریکنگ نیوز سے سرخ ہوچکی تھی اورصرف سکرین سرخ نہیں ہوئی تھی بلکہ بےنظیربھٹواوران کے جانثاروں کے خون نے پورے پاکستان کولہورنگ کردیا تھا۔وہ رات ہم نے کمروں میں دبک کرگزاری تھی اورصرف ہم نے نہیں بہت سے لوگوں نے وہ رات خوف وہراس کے عالم میں گزاری ،پوراپاکستان ہنگاموں کی لپیٹ میں آگیاتھا،سینکڑوں گاڑیاں اوربہت سی ٹرینیں جلادی گئیں ،آگ اورخون کاجوکھیل اس روز پورے ملک میں کھیلاگیا اس ناول کے آخری باب نے وہ سب مجھے یاددلادیا۔
آخری باب میں گل مینہ کاکردار فتح اپنے سامنے ہاتھ ہلاتی بے نظیر بھٹو کودیکھ کر حیرت زدہ ہوجاتاہے کہ اسے تومعلوم ہی نہیں تھاکہ وہ جس دشمن کو نشانہ بنانے آیا ہے اور جس کی موت کے عوض اسے جنت میں جانا ہے وہ دشمن تو وہی بے نظیر ہے جس سے اس کی ماں محبت کرتی ہے اوریقین رکھتی ہے کہ بے نظیر ان کی زندگیوں میں خوبصورتی لائے گی ۔
پاکستان کے سیاسی، سماجی و معاشرتی پس منظرمیں تحریر کیاجانے والایہ اپنی نوعیت کا منفرد ناول ہے اپنے موضوعات کے اعتبارسے بھی اورتکنیک کے حوالے سے بھی۔
زیف سید نے فلیش بیک کی تکنیک اس مہارت کے ساتھ استعمال کی کہ قاری بیک وقت ایک سے زیادہ زمانوں میں سفرکرتاہے ،ایک طرف ناول کے کرداروں میں گل مینہ ،زرجانان ،شفیق اورفتح خان شامل ہیں جن کی کہانی تسلسل کے ساتھ قاری کو اپنی گرفت میں رکھتی ہے اوردوسری جانب حسن بن صباح کی جنت ،برطانوی سپاہیوں کے وانا سے انخلاءاوراحمدشاہ ابدالی کے عہد کی کہانیاں بھی فلیش بیک میں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔
گل مینہ کی تعارفی تقریب کا ملتان میں انعقاد ممکن ہے محض اتفاق ہو لیکن میں اسے اس نظر سے دیکھ رہا ہوں کہ افغانستان اور شمالی علاقوں کے تناظر میں لکھنے جانے والے اس ناول کی تعارفی تقریب کا ملتان میں منعقد ہونا اس لیے بھی ضروری تھا کہ یہ شہر احمد شاہ ابدالی کی جائے ولادت ہے اور جس جگہ وہ پیدا ہوئے اس سڑک پر ایک یادگاری تختی آج بھی موجودہے ۔وہ سڑک ابدالی روڈ اوراس کے قریب انہی سے موسوم ایک مسجد بھی ہے جہاں تبلیغی جماعت والوں کے قافلے آتے ہیں اور اس مسجد میں نماز جنازہ کے بعد میت کی مغفرت کے لیے دعا نہیں مانگی جاتی۔ممکن ہے آپ کو نماز جنازہ والی بات اضافی محسوس ہورہی ہو لیکن اس کا کتاب کے موضوع سے تعلق بہرحال بنتا ہے۔
پشتون قبائل کا پس منظراورافغانستان کے شہروں اورثقافت کے مناظردکھاتایہ ناول دراصل ہرزمانے کے ریاستی بیانیے کی بھی عکاسی کرتاہے ۔گزشتہ چند عشروں کے دوران خیبرپختونخوا سمیت شمالی علاقوں میں آگ اورخون کاجوکھیل کھیلاگیااورجہاد کے نام پرقتل وغارت گری کے جن نئے رجحانات کو ریاست کی مدد سے پروان چڑھایاگیااس نے اس علاقے کے لوگوں کوایک ایسی اذیت اور مسائل سے دوچارکیاہے جن کاہم تصوربھی نہیں کرسکتے ۔ہم جو پنجاب میں رہتے ہیں ،ہم جوپرامن خطوں میں رہتے ہیں ہمارے لیے خودکش حملے ،لوگوں کالاپتا کیاجانا اورمذہب کی آڑ میں وحشت اوربربریت کاکھیل صرف اورصرف خبرکی حیثیت رکھتا ہے ،ہم چونکہ اس تجربے سے گزرے ہی نہیں سوہم ان لوگوں کے دکھوں کومحسوس بھی نہیں کرسکتے۔اسی لیے ہم ریاستی بیانیے سے متاثر ہو کر لاپتا ہونے والوں اوراپنے حقوق کامطالبہ کرنے والوں کوغدار اور اپنے مسائل کاخود ذمہ دارقراردیتے ہیں ۔
کسی بھی تاریخی موضوع کو ناول یاکہانی کاروپ دینا ایک مشکل کام ہے خاص طورپرایک ایسے سماج میں جہاں ہم بہت سے تعصبات کے ساتھ جی رہے ہیں اور جہاں ہم لسانی اورفرقہ وارانہ بنیادوں پراس حد تک تقسیم کئے جاچکے ہیں کہ خودہمیں بھی اندازہ نہیں کہ ہم اب کیا قدر پست ہوچکے ہیں ۔ ایک تقسیم شدہ معاشرے میں ایسے حساس موضوع پرقلم اٹھانے کے لئے بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اوریہ احتیاط ہمیں اس ناول میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ زیف سید چونکہ خودصحافی بھی ہیں اس لیے انہوں نے کہانی کے ذریعے پاکستان کے اس عہد کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جس میں دہشت گردی ایک نیاروپ اختیارکرچکی ہے ۔
ماضی میں تحریر کیے گئے چند ناول خاص طورپرمستنصرحسین تارڑکا راکھ ،قرة العین حیدرکاآگ کادریا اورعبداللہ حسین کااداس نسلیں اپنے اپنے عہد کے منظرناموں کے ساتھ قارئین میں مقبول ہیں لیکن خودکش دھماکوں کامنظرنامہ ان تینوں ناولوں کاحصہ نہیں بن سکااوربنتابھی کیسے کہ موت کایہ کھیل تورائج ہی پرویز مشرف کے دورمیں ہواتھا( اور وہ دور آج بھی جاری ہے) ۔یہ وہ زمانہ تھا جب مذہب کو باضابطہ طورپرموت کے کاروبارمیں تبدیل کیاگیا۔کلاشنکوف کی مددسے ٹارگٹ کلنگ کی جوکہانی جنرل ضیاءکے دورمیں شروع ہوئی تھی مشرف کے عہد میں خودکش دھماکوں کے ذریعے عروج پر پہنچ گئی۔
یہ ناول ابتداءمیں تو محبت کی کہانی نظرآتاہے جس میں گل مینہ دبے پاؤں اپنے گھر سے فرارہوتی ہے لیکن جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے ہیں گل مینہ اورناول کے باقی کرداروں کی دہلیز پرموت رقص کرتی دکھائی دینے لگتی ہے ۔معصوم بچوں کو جنت کالالچ دے کر خودکش بمباروں میں کس طرح تبدیل کیاگیازیف سید نے اپنے کردار فتح خان کی مددسے ہمیں وہ سب کچھ بتادیا۔فتح خان گل مینہ کا بیٹا ہے جسے ایک مدرسے کا خطیب جنت کے خواب دکھاتا ہے اور پھروہ خودکش بمبار بن کر شہادت کے منصب پر فائز ہونے کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہے۔اس ناول میں حسن بن صباح کی تحریک اورافغان جنگ کے درمیان ایک مماثلت بھی تلاش کرنے کی کوشش کی گئی اور یہ مماثلت جنت ہے۔
یہ ناول درحقیقت ان عورتوں کی کہانی ہے جواس جنگ کابراہ راست نشانہ اس طرح بنیں کہ ان کے شوہر ،بیٹے ،بھائی اوروالدین اس جنگ کارزق بن گئے اورپھریہ عورتیں حالات کے مقابلے کے لئے تنہارہ گئیں ۔گل مینہ اس ناول کا سب سے مضبوط کردارہے اورناول کاالمناک باب وہ ہے جہاں گل مینہ خودبھی اسی آگ میں بھسم ہوجاتی ہے جوہمیں بے نظیر بھٹو کے قتل کے موقع پربھڑکتی ہوئی دکھائی دی تھی ۔کتاب کے آخری باب میں کھوپڑیوں کے مرتبانوں والاوہ قبرستان ہے جس کے ایک مرتبان میں گل مینہ کے بیٹے کاسر موجودہے کہ اس کادھڑتواس جائے واردات پربکھرگیاتھاجسے بعدازاں ڈی آئی جی سعود عزیزنے عجلت میں دھلوادیا۔
گل مینہ کے آ خری منظر میں کئی گھنٹوں کی محنت کے بعد مرتبانوں والے قبرستان میں بھڑکتی آگ بجھا دی گئی تھی لیکن درحقیقت یہ آگ اب بھی پاکستان میں کسی نہ کسی انداز میں کہیں نہ کہیں بھڑک رہی ہے اور اس آگ کوبجھانے کے لیے ضروری ہے کہ آنے والے دنوں میں زیف سید جیسے قلم کار ان موضوعات کو اپنی تخلیقات کا موضوع بناتے رہیں کہ اس آگ کو بجھانے اور پاکستان کوآنے والی نسلوں کے لیے جنت بنانے میں بنیادی کردار اب قلم کاروں نے ہی انجام دینا ہے کہ باقی لوگ تو اپنے اپنے حصے کی آگ لگا کراور اس ملک کو جہنم بنا کرکسی اورملک یا اگلے جہان کی طرف رخصت ہوچکے ہیں۔اور جو ابھی رخصت نہیں ہوئے ہم ان بگاڑ بھی کچھ نہیں سکتے ۔
( بارہ فروری دو ہزار بائیس کو کتاب کی تعارفی تقریب میں پڑھا گیا )
فیس بک کمینٹ