دیکھئے سادہ سی بات ہے۔ سول ملٹری کشمکش کی چار جہتیں ہیں۔
پہلی بات یہ کہ آپ سول بالادستی کے ساتھ ہیں یا نہیں؟ میں ہوں، ہر جمہوریت پسند ہے۔ اس لئے عوام جس کو بھی منتخب کریں گے، ہم اسے ہی ریاست کا چیف ایگزیکٹو سمجھیں گے۔ اگر کوئی ریاستی ادارہ جمہوری حکومت کی سیاسی پوزیشن کو چیلنج کرے گا، ہم حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ کل پیپلز پارٹی تھی، اس کی حمایت کی، آج مسلم لیگ نون ہے تو کل ممکن ہے تحریک انصاف ہو ….، ہم سول بالادستی کی غیر مشروط حمایت جاری رکھیں گے، یہی ہمیں لبرل آئیڈیالوجی نے سکھایا ہے۔
دوسری بات حق حکمرانی (Legitimate Rule) کی ہے۔ افواج پاکستان اور سول بیوروکریسی آئین کے تحت یہ حلف اٹھاتی ہیں کہ وہ عوامی حق نمائندگی کو بالادست مانیں گی۔ اسی آئین کی رو سے مملکت پاکستان میں حق حکمرانی صرف اور صرف عوام کے منتخب نمائندوں کو حاصل ہے۔ حکمران چننا عوام کا حق انتخاب ہے جسے ہم بنیادی انسانی حق کہتے ہیں۔ لبرل تصور قانون کی رو سے دنیا میں کوئی بھی بالادست ادارہ، (چاہے وہ سپریم کورٹ ہی کیوں نہ ہو) بنیادی انسانی حقوق معطل نہیں کر سکتا۔
تیسری بات یہ ہے کہ یقیناً عوامی نمائندے تنقید سے بالاتر نہیں۔ خود لبرل سیاسی تصورات کی رو سے سیاستدانوں کو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھنے کی تاکید ہے۔ آپ ان پر خوب تنقید کریں جیسا کہ پاکستان میں معمول ہے۔ ان کی پالیسیز پر کڑی نظر رکھیں۔ مگر یہ تنقید و اصلاح کا کام سول سوسائٹی اور سیاسی مکالمہ و تمدن کا ہے۔ جب بھی کوئی دوسرا سرکاری ادارہ یا غیر عوامی قوت سول بالادستی یا حق حکمرانی (Legitimacy ) کو چیلنج کرے گی ہر جمہوریت پسند جمہوریت کے ساتھ ہو گا بغیر کسی اگر مگر کے۔
چوتھی بات یہ کہ کل پیپلز پارٹی برسراقتدار تھی، آج مسلم لیگ (ن) برسراقتدار ہے اور آنے والا کل یکے بعد دیگرے مختلف لوگ اور جماعتیں ہوں گی۔ جمہوریت میں اقتدار کسی ایک پارٹی کے پاس مستقل نہیں ہوتا۔ آپ کو طے کرنا ہو گا کہ آپ سیاسی استحکام اور پرامن سیاسی بندوبست کے ساتھ ہیں یا نہیں ؟ اگر آپ ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے ہر انداز کی کھل کر مذمت کرنا ہو گی اور سول ملٹری کشمکش کی صورت میں سول بالادستی کے ساتھ غیر مشروط بنیادوں پر کھڑا ہونا ہو گا بغیر کسی اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کے۔ یقین کریں جب عوامی حق انتخاب، منتخب نمائندوں کے حق حکمرانی، اور سول بالادستی پر شب خون مارنے کی کوشش کی جاتی ہے تو آپ کی اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کی صورت میں خود کو غیر جانبدار ثابت کرنے کی کوشش آپ کو آمریت پسندوں کی صف میں جا کھڑی کرتی ہے۔
یاد رہے کہ آمریت پر مبنی نظام کوئی اصول و ضابطہ نہیں رکھتا سوائے اس کے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول رائج ہوتا ہے۔ یہ لوٹ مار (Plunder )کی بدترین قسم ہے۔ اس میں امن و استحکام کے امکانات دم توڑ دیتے ہیں اور جنگجوئی و شجاعت بالاتر ٹھہرتی ہے۔ جو اقتدار کے سب امیدواروں کے سر قلم کر دے، اقتدار اسی کا ہوا۔ زرعی عہد کا تقریباً سارا سیاسی تمدن اسی طرز آمریت کی داستان ہے۔ جمہوریت صنعتی عہد میں جا کر ممکن ہوئی ہے اور سوائے جمہوریت کے سیاسی استحکام اور پرامن سیاسی ارتقا کا راستہ آج تک دریافت نہیں ہوا۔ صنعتی جمہوری معاشرے میں جنگجوئی و شجاعت نہیں بلکہ امن اور انصاف پسندی بڑی سماجی اقدار ہیں- بغیر کسی پرامن سیاسی بندوبست کے خانہ جنگیاں ہوں گی جس کا عملی مظاہرہ ہم آج بھی دنیا میں دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ہم جمہوریت پسند ہیں تو اس نظام پر شب خوں مارنے کی ہر کوشش کے خلاف ہمیں کھڑا ہونا ہو گا، نواز شریف، زرداری یا عمران خان کے لئے نہیں، بلکہ اس سیاسی بندوبست کے لئے جس میں ہماری ترقی خوشحالی اور بقا ہے۔
دو دن پہلے ایک ریاستی ادارے کی جس ٹویٹ نے ایک تنازعہ کو جنم دیا ہے وہ محض ایک سرسری سا واقعہ نہیں بلکہ سول ملٹری کشمکش کی اس تاریخ کا تسلسل ہے جو قیام پاکستان سے اب تک جاری ہے۔ جس نخوت و نفرت کا اظہار اس ٹویٹ سے ہوتا ہے وہ عوامی حق انتخاب، منتخب نمائندوں کے حق حکمرانی، اور سول بالادستی کی تذلیل کے مترادف ہے۔ اگر آپ کی سیاسی سمجھ بوجھ اس ٹویٹ کے ردعمل میں سول بالادستی کی غیر مشروط حمایت پر مجبور نہیں کرتی تو آپ سمجھ لیجئے کہ آپ اور کہیں نہیں، بلکہ آمریت پسندوں کی صف میں کھڑے ہیں۔