ایک طویل سفر کے بعد جب لاری زیارت کے نواح میں پہنچی تو یکدم سکون سا آ گیا۔ یہ 1969ءکا ذکر ہے۔ مجھے زیارت کی سیر اور بابائے قوم کی آخری دنوں کی رہائش گاہ دیکھنے کا بیحد اشتیاق تھا۔ لگ بھگ دو گھنٹے کا سفر نہایت تکلیف دہ ہچکولوں میں گزرا۔ پختہ سڑک ندارد تھی اور سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان بجری اور پتھر کا نیم پختہ خطرناک سا راستہ تھا۔ پتھریلی چٹانوں اور گہری کھائیوں میں کہیں کہیں ٹنڈ منڈ سے درخت اور خشک جھاڑیاں تھیں۔ پہاڑوں کی اترائیوں میں کہیں کہیں بکریوں کے ریوڑ گھاس پھوس چر رہے تھے۔ زیارت کے قریب صنوبر کے درختوں نے پست قامت پہاڑیوں کو سرسبز بنا دیا تھا۔ سڑک کے موڑ مڑتے ہوئے ٹھنڈی اور تازہ ہوا کے جھونکے آنے لگے تو احساس ہوا کہ ہم زیارت کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ لاری چھوٹے سے بازار سے گزر کر لاری اڈے پہنچ کر رک گئی۔
مَیں نے اپنا دستی بیگ اٹھایا اور لاری سے اتر گیا۔ لاری اڈے پر کوئی شناسا چہرہ نظر نہ آ رہا تھا۔ تمام سواریاں اور انہیں خوش آمدید کہنے والے آہستہ آہستہ چلے گئے تو میری نظر ایک قبائلی بلوچ پر پڑی۔ ملگجے شلوار قمیض میں ملبوس اس شخص نے سر پر پگڑی باندھ رکھی تھی۔ کاندھے پر ایک دیسی ساخت کی بندوق تھی۔ پگڑی سے نکل کر شانوں پر گرے ہوئے لانبے بال، داڑھی اور مونچھیں ایک دوسرے میں مدغم، عقابی نگاہیں اور دہکتی سرخ رنگت۔ وہ شخص پچاس کے پیٹے میں تھا مگر اس کا بدن جوانوں کی طرح تنا ہوا تھا۔ مَیں نے اپنا بیگ اٹھایا اور چائے کے ہوٹل سے باہر کرسی پر رکھ دیا اور جیب سے ڈاک بنگلے کی ریزرویشن کا تصدیق نامہ تلاش کرنے لگا۔ اس شخص نے بیڑی کا آخری کش لیا اور اسے اپنی چپل تلے مسل کر میری طرف بڑھنے لگا۔ مَیں ابھی تذبذب میں تھا کہ یہ شخص آخر کون ہے کہ اس نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھا کر کہا:
”صاحب مَیں بلیدی ہوں ڈاک بنگلے کا چوکیدار، آپ کو لینے آیا ہوں۔“
میرا خیال تھا کہ وہ میرا بیگ اٹھا کر ڈاک بنگلے کی جانب چلے گا مگر وہ یونہی تن کر کھڑا تھا۔ مَیں نے اپنا بیگ اٹھایا اور سوالیہ انداز میں اسے دیکھنے لگا۔ بلیدی نے جذبات سے عاری چہرے سے مجھے سڑک پر چلنے کا اشارہ کیا۔ لورالائی جانے والی سڑک پر زیارت سے ذرا اترائی میں ایک خوبصورت ڈاک بنگلہ نظر آیا تو مجھے ذرا تسلی ہوئی۔ میرا سامان خوابگاہ میں رکھ کر بلیدی چائے لینے چلا گیا۔
چائے نہایت خوش ذائقہ تھی اور ساتھ مقامی بیکری کے بنے ہوئے کیک رس بھی تھے۔ چائے کے دو کپ پی کر مَیں تازہ دم ہو گیا۔ اس وقت شام ہونے کو تھی اور موسم خنک ہو رہا تھا۔ بلیدی بولا:
”صاحب رات کو آپ کے لیے سجی کا انتظام کیا ہے ابھی آپ آرام کر لو بابا کے گھر کل جائیے گا۔“
مجھے یہ تسلی ہوئی کہ بلیدی کو میرے پروگرام کا بخوبی علم ہے۔ غسل کا ارادہ تھا مگر پانی ٹھنڈا ہونے کے باعث منہ ہاتھ دھونے پر ہی اکتفا کیا اور لان میں رکھی ہوئی آرام دہ کرسی پر نیم دراز ہو گیا۔ ڈوبتے سورج کی زرد کرنیں سامنے والے پہاڑ کی چوٹیوں کو روشن کر رہی تھیں۔ پرندوں کے غول کے غول اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ فضا میں خنکی بڑھ گئی تو مَیں خواب گاہ میں آگیا اور بلیدی کو رات کا کھانا وہیں لے کر آنے کی ہدایت کر دی۔ سجی کا گوشت اور گرم گرم تندور کی روٹیاں آئیں تو کھانے کا لطف آ گیا۔
دوسری صبح مَیں اور بلیدی قائد اعظم کی ریذیڈنسی کی جانب گامزن تھے۔ پگڈنڈی کے دونوں جانب صنوبر کے درخت نہایت دلفریب لگ رہے تھے اور ان کی بھینی بھینی خوشبو پوری وادی میں پھیلی ہوئی تھی۔ معاً لکڑی کی بنی ہوئی سبز رنگ کی ایک خوبصورت عمارت کو دیکھ کر مَیں دم بخود رہ گیا۔ کاٹیج نما وہ عمارت بہت خوبصورت تھی۔ صنوبر کے درختوں سے سرسبز پہاڑ کے درمیان ایستادہ وہ عمارت بلاشبہ قائداعظم کی متاثر کن شخصیت کی عکاسی کر رہی تھی۔ چشم تصور میں قائد اعظم کو ایک نفیس سوٹ میں ملبوس ہونٹوں میں سلگتا ہوا سگار دبائے ریذیڈنسی کی سیڑھیوں کے اوپر برآمدے میں کھڑا دیکھا۔ وہ خلا میں گھور رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں بے تحاشا چمک، کچھ کرنے کی لگن اور عزم تھا۔ بلیدی بولا:
”صاحب بابا ادھر رہتا تھا۔“
”تم کبھی بابا سے ملے ہو؟“
مَیں نے سوال کیا۔ بلیدی چہک کر بولا:
”ہم جناح بابا کو دیکھنے روز آتا تھا، وہ مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ اس نے پاکستان بنایا تھا، میرا ملک پاکستان۔“
بلیدی یکدم زیارت کے پہاڑوں جیسی سنگلاخ شخصیت سے گویا ایک معصوم سا بچہ بن گیا تھے۔ مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ بلیدی بھی پاکستان سے محبت کرتا ہے۔
”تم نے کبھی بابا کے ساتھ بات کی تھی بلیدی؟“
مَیں نے پوچھا۔
”صاحب وہ بڑا آدمی تھا، وہ مجھے اچھا تو لگتا تھا مگر مجھے اس کے رعب کے وجہ سے کبھی اس سے بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی تھی۔“
بلیدی بولا۔
”اس کی ہمشیرہ بھی اس کے ساتھ رہتی تھی جو اُن کا بہت خیال رکھتی تھی۔“
میرے خصوصی اجازت نامہ کے باعث مجھے قائد کی ریذیڈنسی کے اندر جانے سہولت میسر تھی۔ بلیدی میرے ہمراہ تھا مگر اس نے اپنے جوتے برآمدے میں ہی اتار دیئے تھے۔ اپنی پگڑی کے ایک پلو سے اپنے پاؤں صاف کر کے وہ بھی ریذیڈنسی میں داخل ہو گیا۔ قائد اعظم کا ڈرائنگ روم، خوابگاہ اور لائبریری اپنی اصل حالت میں موجود تھے۔ الماریوں میں قائداعظم کے سوٹ، ٹائیاں اور جرابیں یوں دھری تھیں جیسے انہوں نے ابھی اس کا استعمال ترک نہ کیا ہو۔ مجھے یوں لگا جیسے بالائی منزل پر واقع خوابگاہ کی کھڑکی میں قائداعظم وادی کا نظارہ کر رہے ہوں۔ معاً میری نظر پڑی تو بلیدی خوابگاہ کے فرش کو عقیدت سے چوم رہا تھا، جہاں کبھی قائداعظم کے قدم پڑے تھے۔ مَیں زیارت سے قائداعظم سے وابستہ بہت سی خوبصورت یادیں لے کر آیا اور جب بھی کہیں میری نظر ریذیڈنسی کی عمارت کی تصویر پر پڑتی تو یوں لگتا جیسے ابھی برآمدے میں قائداعظم نمودار ہوں گے۔ خوبصورت سوٹ میں ملبوس اور ہونٹوں میں سلگتا ہوا سگار دبائے ان کی نگاہوں میں عزم کی چمک خیرہ کر دینے والی ہو گی۔
قائداعظم ریذیڈنسی کو جب دہشت گردوں نے راکٹ فائر کر کے راکھ کر دیا تو چشم تصور میں قائد کو مَیں نے پھر دیکھا۔ اس بار ریذیڈنسی کے برآمدے میں نہیں بلکہ صنوبر کے جنگل کے عین کنارے پر ایک نفیس سوٹ پہنے ہونٹوں میں سلگتا ہوا سگار دبائے مگر اس بار ان کی آنکھوں میں عزم کی چمک معدوم ہو چکی تھی۔
فیس بک کمینٹ