وزیر خزانہ جناب اسد عمر نے بی بی سی کو اپنے انٹرویو میں انکشاف کیا کہ روپے کی قدر میں حکومت نے خود کمی کی ۔ انہوں نے کہا کہ ”آئی ایم ایف کی جانب سے شرائط کے انتظار سے پہلے روپے کی قدر میں کمی کی ، ہم نے حکومت کے پہلے سو دن کے اندر گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا ، نئے ٹیکس لگائے ،شرح سود میں بھی اضافہ کیا اور ملکی کرنسی کی قدر میں بھی کمی کی ۔ “ اس سے قبل ملک میں تبدیلی لانے کے نعرے سے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے والے عمران خان نے 3 دسمبر کو سینئر صحافیوں کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ روپے کی قدر گرنے کا علم نہیں ، سٹیٹ بنک ایک اتھارٹی ہے اور وہ خود یہ کام کرتی ہے ۔ “ اب اسد عمر کے انکشاف سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سٹیٹ بنک نے روپے کی قدر میں کمی کی تو پھر ضرور اسد عمر کو اعتماد میں لیا ہوگا کہ اب اسد عمر کے انکشاف سے لگتا ہے کہ سٹیٹ بنک نے اسد عمر کو ضرور اعتماد میں لیا ہوگا تو کیا اسد عمر نے وزیراعظم عمران خان کو بھی اعتماد میں لینا مناسب نہیں سمجھا کہ وزیراعظم یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کو ٹی وی سے معلوم ہوا کہ روپے کی قدر میں کمی ہو گئی ۔تحریک انصاف کی حکومت میں آنے سے قبل جب ڈالر کی قیمت کو بڑھایا جاتا تو یہی جماعت ہی آسمان سر پر اٹھا دیتی کہ اتنے قرضے بڑھ گئے ہیں ‘ مہنگائی کا طوفان آئے گا ‘ یہ ہو گیا ‘ وہ ہو گیا وغیرہ وغیرہ ۔ مگر جب اب ڈالر کی قیمت کو پر لگے اور قریباً 145 روپے کا ہوا تو اس سے قریباً 760 ارب روپے کے قرضے بڑھے اور توانائی کے شعبے کے قرضے اتارنے کیلئے حکومت کو اثاثے گروی رکھنا پڑ گئے ۔اس سے آنے والے مہنگائی کے طوفان سے غریبوں کی چیخیں نکل گئیں ، سبزیوں ، پھلوں اور روزمرہ اشیاءکی قیمتیں بڑھ گئیں ۔ بجلی مہنگی ہوئی تو بھی غریب پر اس کا براہ راست اثر ہوا۔ پٹرول کی قیمتیں بڑھیں تو اس کا بھی اثر براہ راست غریبوں پر پڑا ، ٹرانسپورٹرز نے بھی کرائے بڑھائے اور اوپر سے پھر ڈالر مہنگا ہونے پر وفاقی وزیر ریلوے نے بھی کہہ دیا کہ ڈالر کی قیمت بڑھ گئی ہے ، ریل کے کرایوں میں اضافہ کریں گے ، اس طرح اس کا اثر بھی غریبوں پر پڑا کہ یہ غریب کی سواری ہے ۔اسد عمر نے بی بی سی کو دیئے گئے حالیہ انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ حکومت نے گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھائیں ، نئے ٹیکسز لگائے اور شرح سود میں اضافہ کیا تو کیا اقتدار میں آنے سے قبل جو وعدے عوام کے سامنے کئے گئے تھے ، وہ سب جھوٹ تھے ؟ کیا وہ صرف عوام کو دیا گیا ایک دھوکہ تھا ۔ کیسے کیسے سہانے خواب دکھائے گئے تھے ۔ کیا کیا امیدیں عوام نے لگا کر آپ کو ووٹ کی پرچی سے اقتدار دلوایا ۔ کیا وہ سب آپ کی طرف سے اقتدار میں آنے کیلئے لولی پاپ تھا کہ عوام کو اچھے اچھے خواب دکھاو¿، ان کو امید دو ۔ ان کو سہانے خواب دکھاو مگر جب اقتدار میں آ جا ؤ تو پھر عوام سے کئے گئے وعدے بھول جاؤ۔ آپ نے تو وہی کیا جو سابقہ حکومتیں کر گئیں ۔ مہنگائی کی، ٹیکس بڑھائے ، روپے کی قدر کم کی ، اس سے تو لگتا ہے کہ حکومت مسلسل ناکامی کی طرف جا رہی ہے اور ملک چلا نہیں پا رہی ۔ یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ عوام نے پی پی کو بھی برداشت کر لیا ، ن لیگ سے لگائی گئی امیدیں بھی دم توڑ گئیں تو تحریک انصاف کو آزمایا مگر یہ بھی مسلسل ناکام ہو رہی ہے تو کیا عوام اگلے الیکشن میں کسی اور طرف دیکھے گی ؟حکومت کی طرف سے عوام کو کہا جا رہا کہ آپ نے کبھی پیپلز پارٹی سے نہیں پوچھا اور نہ ہی ن لیگ سے کہ ان کی حکومت میں اتنی مہنگائی کیوں ہوئی ؟ان کے دور میں بھی ڈالر بڑھا ، کیوں بڑھا ؟ ان باتوں کا بھی حساب مانگیں ۔ ہاں یہ بات آپ کی ٹھیک ہے کہ عوام نے ان سے نہیں پوچھا مگر کیا یہ بات درست نہیں کہ عوام نے ووٹ کی پرچی سے ان سے انتقام لیا اور ان جماعتوں مسترد کر کے آپ کو برسر اقتدار لے آئے اور تبدیلی و بہتر مستقبل کیلئے تحریک انصاف کو ووٹ دیا ۔ دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان جماعتوں نے بھی اتنے بڑے بڑے دعوے کئے تھے ؟ اب حکومت اور اتحادیوں کی طرف سے یہی شکوہ کرنا عذر گناہ بد تر از گناہ کے مترادف ہی ہے۔تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آنے سے قبل بہت سے دعوے کیے تھے ۔ موجودہ وزیر مملکت برائےمواصالات اور تحریک انصاف کے نوجوان رہنما مراد سعید نے تو جذباتی تقریر میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جب عمران خان اقتدار میں آئے گا تو دوسرے دن ہی ملک میں ڈالروں کی ریل پیل شروع ہو جائے گی ۔ ڈالر کیا آنے تھے ملک کی معیشت ڈانواں ڈول ہونا شروع ہو گئی اور آئی ایم ایف کی طرف نہ جانے کا دعویٰ کرنے والے بھاگ کر ان کے پاس جا پہنچے کہ فوری طور امداد دیں ۔ پہلے تین ماہ کوئی سرکاری دورہ نہ کرنے کا دعویٰ کرنے والے سعودی عرب جا پہنچے اور واپسی پر متحدہ عرب امارات سے بھی ہوتے آئے ۔ پھر پتہ بھی نہ چلا کہ چائنہ کا دورہ آ گیا ، پھر ملائشیا جا کھڑے ہوئے ۔ اس طرح پہلے سو دنوں میں اتنے سارے ملکوں کی سیر کر لی ۔ یہ سب کچھ قرضہ حاصل کرنے کیلئے تھا تو آپ نے کیوں کہا تھا کہ بھیک ( قرضہ ) نہیں مانگیں گے ؟ آپ کہتے تھے کہ آصف زرداری اور نواز شریف بمعہ خاندان ملک لوٹ کر کھا گئے تو آپ کو تو الیکشن سے قبل ہی معلوم تھا کہ ملک کا خزانہ خالی ہے اور شریف و زرداری خاندان ملک کا خزانہ خالی کر گئے تو آپ کو ایسے دعوے نہ کرتے کہ قرضہ جسے آپ بھیک کہتے تھے ، نہیں مانگیں گے تو آپ کو یوٹرن لینے کی ضرورت نہ پڑتی اور نہ ہی آپ کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا۔عوام نہ یہ سوچتی ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے کئے گئے سو دنوں میں ملک میں دودھ کی نہریں بہا دی جائیں گی اور نہ ہی اس طرح کی امیدیں لگائی جا رہی تھیں ۔ الحمد للہ تحریک انصاف اس پر من و عن پورا اُتری ۔ مگر عوام کو اتنی امید تھی کہ سود ن میں کم از کم اتنا ہو جائے گا کہ راستہ سیدھا ہو جائے گا اور اسے آئندہ پانچ سالوں میں کچھ نہ کچھ بہتری آ جائے گی ۔ مگر حکومت نے معیشت کے میدان میں جو گل کھلائے ان سے تو لگتا ہے کہ حکومت بھی پچھلی حکومتوں کی طرح اپنا وقت پاس کرے گی ، اللہ اللہ خیر صلا کہ وزیر خزانہ صاحب نے کہہ دیا ہے کہ جو کچھ سو دنوں میں کیا گیا ہے وہ ملک کی معیشت کیلئے بہتر تھا ۔ اب تو عوام کو خود ہی سوچنا چاہئے اور انتظار کرے ۔ اگر تحریک انصاف کچھ نہ کرے تو پھر ووٹ کی طاقت کے ذریعے ہی ان سے انتقام لے ۔ لیکن اگلی مرتبہ کسی جماعت کے ایسے دعووں کی بنیاد پر ووٹ نہ دے کہ ہم مہنگائی ختم کریں گے، آئی ایم ایف سے جان چھڑائیں گے ، غربت ختم کریں گے ، روزگار دیں گے بلکہ ووٹ دینے سے قبل حکمرانوں کی کارکردگی دیکھے ۔
فیس بک کمینٹ