کیا پاکستانی سیاست پر کسی آ سیب کا سایہ ہے یا پھر یہ کسی جدت کے ساتھ چلنے کی صلاحیت نہیں رکھتی؟کچھ تو ہے جس کا تذکرہ سر عام نہیں ہوتا۔بعض ماہرین 1949 کی قرار داد کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں،بعض اسٹبلشمنٹ کی بے جا اور دھونس والی مداخلت کا رونا روتے ہیں،بعض ملائیت کے ان رویوں کو کوستے دکھائی دیتے ہیں جو ملڑی ملاں کے گٹھ جوڑ سے جمہوریت کی کمزوری کا سبب بنے اور بعض امریکی سامراج کی جمہور کش پالیسیوں کو جمہوریت کی راہ کی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ایک "سٹیٹس کو”کی حالت ہے جس نے پاکستان میں جمہوری قدروں کی آ بیاری نہیں ہونے دی جس کی وجہ سے فکری سطح پر یہاں کی سیاست جمود کا شکار ہے ۔خاندانی سیاست اور سیاسی پارٹیوں کے اندر بھی غیر جمہوری سوچیں موجود ہیں۔موروثی سیاست کسی نہ کسی جگہ پر ملوکیت کے عنصر کا پتا دے رہی ہے ۔پنجاب میں ایک ہی خاندان،پاکستان کی سیاسی تاریخ کے چالیس برس ہڑپ کر کے بیٹھا ہے ۔ان کے پاس inovation نام کا کوئی رویہ نہیں۔ان کے پاس کوئی بڑا یا انقلابی بیانیہ نہیں۔صوبوں کو حقوق دینے کا منصوبہ ہویا پھر بار بار کی عسکری مداخلت کا راستہ روکنا ہو،ملک میں روشن خیالی کا فروغ ہو یا خارجہ اور داخلہ میں کوئی نیاپن لانا ہو؛کچھ بھی تو نہیں اس کے پاس بلکہ اقتدار کے حصول کے لیے کسی بھی نچلی سطح پر جانے کے لیے یہ خاندان(مسلم لیگ ن)ہمہ وقت تیار رہتا ھے۔
مقتدرہ کے پاؤ ں پکڑنے کے لیے ہمیشہ موقعے کی تلاش میں رہتا ہے جس سے ان کا ہر بیانیہ کمپرومائژ ہو جاتا ہے اور جمہوریت کی بحالی یا اس کی فکری طاقت کو ناقابل تلافی نقصان کا خطرہ موجود ہی رہتاہے ۔مسلم لیگ ن چونکہ بڑے صوبے کی پارٹی ہے اس لیے اس کا انداز سیاست پورے ملک کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کر کے صحیح،خالص اور اعلی سطح کی جمہوری قدروں کو سامنے نہیں لا سکتی۔پاکستان پیبلزپارٹی اور ملک کی مقتدرہ دونوں الگ الگ اینڈ پر ٹھیری ھیں اس لیے اس جماعت کو ازادانہ طور پر سیاست کرنے کی اجازت ھی نہیں۔ستر کی دہائی کے بعد سے لے کر اب تک اسے عزت سے سیاست کرنے ھی نہیں دی گئی۔پنجاب میں تو اس پارٹی کو اچھوت بنا کر رکھ دیا گیا ھے۔وفاق میں بھی یہ کمپرومائز ھو کر حکومت کرتی ھے۔دو پارٹی نظام یا سیاست کو ختم کرنے کے لیے ایک غیرجمہوری اور ناتجربہ کار پارٹی کا تجربہ کیا گیا جس نے ریاست کو انارکی،بدتہذیبی اور غیرانسانی ماحول کے سوا دیا ھی کیا ھے؟پاکستان کے قیام سے لےکر اب تک ایک ھی طرح کی سیاست ھو رھی ھے،جب سیاست دان اپنی رائے استعمال کرنے لگتے ہیں یا ماڈرن اور انقلابی تبدیلیاں کی بات کرنے کا سوچتے ہیں تو یا انھیں تخت دار پر لٹکا دیتے ہیں یا جلاوطنی یا جیل ان کا مقدر بن جاتی ھے۔ ملک میں سیاست ایک گالی بن کر رہ گئی ھے۔سیاست کی پامالی میں جہادی،انتہا پسند اور متشدد جتھوں کو درمیان میں لا کر سیاسی جمود کو اور بڑھاوا دیا جاتا ہے جس سے ملک ہمیشہ ایک بڑے تہذیبی بحران سے دوچار رہتا ھے۔پہلے کسی متشدد جتھے کی تشکیل سازی کی جاتی ھے، اس تشکیل کا بنیادی مقصد ھی سیاسی راستوں کو پر خار بنایا ھوتا ھے۔ان جتھوں سے مقاصد پورے کرنے کے بعد ان کے تدارک کے لیے ایک پھر بدامنی عوام کا مقدر بنتی ھے۔مقتدرہ ھو یا ذہن سازی کرنے والے مراکز کب روشن خیال بن کر ملک میں سیاست کو متوازن کریں گے۔یہ حقیت اب مکمل طور پر اشکار ھو چکی ھے کہ موجودہ حالات و واقعات "سیاست کے فکری نظام” میں فعالیت لانے کی صلاحیت سے عاری ھیں۔
اقتدار کے مراکز کو اب "جمہور” کو اپنے برابر کے حقوق دینے ھوں گے کیونکہ موجودہ ہائبرڈ نظام اب بڑی یکسانیت کا شکار ھو چکا ھے بلکہ اب یہ تعفن زدہ ھو گیا ھے،اس سے جان چھڑانا اب ناگزیر ھے۔اس کے لیے پورے ملک کی قومیتوں کے وجود کا اعتراف بھی کرنا پڑے گا اور انھیں حقوق بھی دینے پڑیں گے اور یہ "سٹیٹس کو” کے خاتمے ھی سے ممکن ھے۔
فیس بک کمینٹ

