Browsing: ادب

بالآخر انہوں نے مجھے ناروے میں پاکستان کا سفیرمقرر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں اگر اس کے بعد کی اپنے انکار کی تفصیل بیان کرنے لگوں تو وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ اس حوالے سے میرے تین گواہ ہیں۔ مجید نظامی جو اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں، مجیب الرحمان شامی اور تسنیم نورانی میرے گواہ ہیں۔ ان سے پوچھ لیں کہ میں انکار کے رستوں پر کتنی دیر تک چلتا رہا۔

فتح اپنے سامنے ہاتھ ہلاتی بے نظیر بھٹو کودیکھ کر حیرت زدہ ہوجاتاہے کہ اسے تومعلوم ہی نہیں تھاکہ وہ جس دشمن کو نشانہ بنانے آیا ہے اور جس کی موت کے عوض اسے جنت میں جانا ہے وہ دشمن تو وہی بے نظیر ہے جس سے اس کی ماں محبت کرتی ہے

تبدیلی یا دن بدلنے کی خواہش میں 2025تک پہنچنے والی شاعری انٹرنیٹ پر "دن بدلیں گے خاناں "سے ہوتی ہوئی اس مقام پر آچکی ہے جب ایک دوسرے سے بدلے لینے پر مصر ہوتے ہوئے، ہمیں بالکل یقین نہیں ہے کسی بھی لحاظ سے دن بدلیں گے ۔چلیں کچھ سچی اور سیدھی سادی باتیں کرتے ہیں کیوں کہ بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ آج اردو ادب کے طالب علم کو سب کچھ آتا ہے سوائے اردو کے ۔۔۔۔۔رضی الدین رضی صاحب ملتان میں ادب و صحافت کا معتبر حوالہ ہیں۔۔۔

ایک مرتبہ انہوں نے لیہ کے ایک سادہ دل نوجوان کو میرے پیچھے لگا دیا جس کا دعوی تھا کہ اس کے والد ڈاکٹر گوپی نارنگ کے استاد تھے جب وہ لیہ کے سکول میں پڑھتے تھے اس لئے ساہتیہ اکادمی کے صدر نشیں کے طور پر ڈاکٹر نارنگ کا فرض’ہے کہ اس نوجوان کو بھارت کے دورے کی دعوت دیں یا اس’کی مالی مدد کے لئے حکومت پاکستان سے اپیل کریں

اس ڈرامے نے جبر کے ماحول میں لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھااورانہیں بتایا کہ چوہدری حشمتوں کی حشمت و ہیبت کاانجام کیاہوتاہے اور وقت کا بہاؤ ان کے جعلی رعب ودبدبے والی حویلیوں کو کس طرح خس وخاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے اور پھرہم نے آنے والے دنوں میں ایسی حویلیوں کو نیست ونابودہوتے بھی دیکھا۔

ایم اے کے بعد وہ ایم اے او کالج لاہور کے شعبہ اردو کے ساتھ منسلک ہو گئے اور اس کے سربراہ کی حیثیت سے گراں قدر خدمات انجام دیں ۔ امجد اسلام امجد کا ادبی سفر 50 برسوں پر محیط ہے ۔ انہیں 1979 میں پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈرامے وارث سے لازوال شہرت حاصل ہوئی ۔

تقریب کے مہمان خصوصی معروف قانون دان اور شاعر وسیم ممتاز تھے ۔ وہاڑی سے آئے ہوئے معروف شاعر مجید سالک اور اسسٹنٹ ڈایئریکٹر پاسٹرل انسٹی ٹیوٹ ملتان فادر افتخار مون ( او پی ) مہمانان اعزاز میں شامل تھے ۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وسیم ممتاز نے کہا کہ جاوید یاد کے ادبی سفر کے ہم عینی شاہد ہیں وہ اس دھرتی سے محبت کرتے ہیں ، ڈاکٹر مقبول گیلانی نے کہا کہ یاد نے اپنی یادوں کو اپنی شاعری کا محور بنایا ، قمر رضا شہزاد نے کہا کہ جاوید یاد نثر کے ساتھ ساتھ شعر کےمیدان میں بھی اپنا سفر جاری رکھے ہوئےہیں ۔
رضی الدین رضی نے کہا کہ پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی وقت کی ضرورت ہے اور آج کی تقریب میں ہمیں یہ خوبصورتی نظر آرہی ہے ۔ ڈائیریکٹر ملتان آرٹس کونسل سلیم قیصر نے کہا میری ان کےساتھ دیرینہ رفاقت ہے محبت کا پھیلاؤ ان کی شخصیت کا بھی حصہ ہے ۔ سیموئل کامران نے کہا جاوید یاد نے غزل اور نظم کے ساتھ ساتھ خوبصورت گیت بھی لکھے ، شفیق اختر حر نے کہا ان کی شاعری میں سلاست اور روانی ہے ۔ کشور مراد کشور ، پرویز ڈیوڈ , یوسف سلیم قادری اور بابر منہاس نے بھی خطاب کیا ۔

انہوں نے جنوبی پنجاب میں خواتین کی پہلی ادبی تنظیم حریم فن کی 1972 میں بنیاد رکھی جس نے ملتان میں خواتین قلم کاروں کو متعارف ہونے کا موقع فراہم کیا۔ ان کی تصنیفات میں ’’ سلسلے درد کے ‘‘ ، ’’ دل کی وہی تنہائی ‘‘ ( ناول ) اور ’’ صرف خواب میرے ہیں‘‘ ( شعری مجموعہ) شامل ہیں ۔

فریضہ حج کی ادائیگی نے ان کی شاعری کا رُخ غزل سے نعت رسول مقبولؐ کی طرف موڑ دیا۔ انہوں نے ﷲ تعالیٰ اور حضور اکرمؐ کے ننانوے ناموں پر قطعات لکھ کر ’’مرسل و مرسل‘‘ کے نام سے شائع کرائے۔ سیرۃ النبیؐ ’’منظوم‘‘ لکھنا شاید ان کی زندگی کا سب سے بڑا پراجیکٹ تھا جسے انہوں نے انتہائی عقیدت و مہارت سے مکمل کیا۔ سرکاری نوکری کے سلسلہ میں لاہور، ملتان، پشاور اور کراچی میں مقیم رہے لیکن ان کی مستقل رہائش کراچی میں ہی رہی۔ انہوں نے غزل، نظم، قطعہ، رباعی، غرضیکہ ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ۔ وہ ہر مشاعرے، نشست، ادبی محفل میں تازہ کلام پڑھتے۔

یہ ڈی ایس ایف کی فتح تھی ۔ اگرچہ اسے اپنے کئی ساتھیوں کی زندگی کی قربانی دینے کے بعد حاصل کیا گیا ۔ کئی سال تک جلسے اور جلوسوں سے کراچی میں 8 جنوری کا دن ان طلبا کی شہادتوں کے طور پر منایا جاتا رہا اوران ریلیوں کے آگے خون آلودا یک جھنڈا ضرور ہوتا تھا ۔
کراچی یونیورسٹی نے ایک ٹیچنگ یونیورسٹی کے طور پر کام شروع کردیا اور اس میں محدود پیمانے پر ریسرچ کی سرگرمیاں ہونے لگیں ۔