حیرت ہے اس ملک میں ایک پارلیمنٹ کے ذریعے آئین میں ترمیم پر انصاف کا خون اور جمہوریت کے خاتمے جیسے الفاظ استعمال کیے جارہے ہیں۔ حالانکہ اس ملک میں فوجی حکمران کسی مینڈیٹ کے بغیر آئین میں ترامیم کرنے کے حقدار قرار پائے تھے اور پھر انتخاب کے نام پر چنی ہوئی اسمبلیوں نے ، انہیں منظور کرکے آئین کا لازمی حصہ بنا لیا۔ ان میں سے ضیاالحق کے دور میں شامل کی گئی ایسی شقیں بھی شامل ہیں جنہیں منسوخ کرانے کی بات کی جائے تو ’اسلام کو خطرہ ‘ لاحق ہوجاتا ہے۔
آج سینیٹ میں 64 ارکان پر مشتمل دو تہائی اکثریت نے حکومت کی تجویز کردہ 27 ویں ترمیم شق وار منظور کرلی۔ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہے، اس لیے وہاں سے اس آئینی ترمیم کی منظوری کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔ شاید اسی لیے حکومت نے یہ ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کیا لیکن سینیٹ چئیرمین سید یوسف رضا گیلانی کی ہدایت پر سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں نے مشترکہ طور سے ان پر غور کیا اور معمولی رد و بدل کے بعد ان کی منظوری دے دی۔ اس کا مطلب ہے کہ قومی اسمبلی میں اسپیکر اس ترمیمی بل کو براہ راست ووٹنگ کے لیے پیش کرسکتے ہیں جس کے بعد صدر کے دستخط سے ایک دو روز میں یہ ترامیم ملکی آئین کا حصہ بن جائیں گی۔
سینیٹ میں اپوزیشن ارکان نے اگرچہ آئینی بل کے خلاف شور مچایا تاہم ووٹنگ کے وقت واک آؤٹ کرکے اسے شق وار منظور کرانے کا کام آسان بھی کردیا گیا۔ اپوزیشن نے کسی مرحلے پر سنجیدگی سے نہ تو بل پر غور کیا اور نہ ہی اس میں زیادہ ’نقصان دہ یا خطرناک‘ شقوں کو نرم کرانے کے لیے سیاسی سودے بازی کی ضرورت محسوس کی۔ اس کے بعد ترمیم کے خلاف ووٹ دے کر مخالفت کرنے والوں میں اپنا نام درج کرانے کی بجائے واک آؤٹ کا فیصلہ کیا گیا۔ یوں روائیتی طور سے بل کی بالواسطہ حمایت کردی گئی۔ اپوزیشن کی یہ حجت کبھی سمجھ نہیں آئے گی کہ اگر وہ کسی آئینی ترمیم کو واقعی ملکی جمہوریت پر حملہ سمجھتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس کے خلاف ووٹ دینے کا تکلف بھی نہیں کیا جاتا۔ یہ مانا جاسکتا ہے کہ اس سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا لیکن اس طریقے سے پارلیمنٹ کی کارروائی میں ایسے ارکان کا نام مخالفت کرنے والوں میں شامل ہوگا اور ریکارڈ کا حصہ بن جائے گا۔ بعد از وقت اگر ایسی کسی ترمیم کے منفی اثرات ظاہر ہوتے ہیں تو پارلیمانی ریکارڈ بتا سکے گا کہ کون لوگ متنبہ کرنے اور اس کی مخالفت کرنے والوں میں شامل تھے۔ لیکن جب ارکان محض نعرے لگا کر اور بل کا مسودہ پھاڑ کر بظاہر احتجاج کریں گے تو دراصل وہ براہ راست مخالفت سے بچنے کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ یہی شاید اس ملک کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
سینیٹ میں اس وقت 96 ارکان ہیں۔ حکومت کو آئینی بل پر دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے 64 سینیٹرز کی ضرورت تھی۔ 27 ویں ترمیم کے مسودے کو اتنی ہی تعداد میں سینیٹرز نے منظور کرکے اسے دو تہائی اکثریت سے ہمکنار کیا۔ تاہم ان میں اپوزیشن کے دو ارکان بھی شامل تھے۔پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر سیف اللہ ابر و اور جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر احمد خان نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیے۔ سیف اللہ ابرو نے سینیٹ کے فلور پر اعلان کیا کہ انہوں نے بھارت کے خلاف شاندار کامیابی حاصل کرنے والی فوج اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کے لیے اس ترمیم کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سینیٹ کی سیٹ سے استعفیٰ دے دیا۔ دوسری طرف جمیعت علمائے اسلام نے سینیٹر احمد خان کو پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے پر جماعت سے نکال دیا ہے۔ اس طرح تکنیکی سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر اپوزیشن کے دو ارکان اپنی پارٹیوں کی پالیسی کے مطابق ترمیم کی مخالفت کرتے تو شاید یہ آئینی ترمیم منظور نہ ہوسکتی۔ دوسری طرف سینیٹ چئیرمین یوسف رضا گیلانی نے خود اپنا ووٹ نہیں ڈالا۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹ عرفان صدیقی شدید علالت کے باعث سینیٹ کی کارروائی میں شریک نہیں تھے۔ بل منظور ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی عرفان صدیقی کا ایک مقامی ہسپتال میں انتقال ہوگیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت کے نمبر پورے تھے۔
اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ بعض وکلا اور سابقہ ججوں کی طرف سے 27 ویں ترمیم کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی حیثیت وپوزیشن مستحکم کرنے پر بھی انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں۔ سابقہ ججوں اور بعض وکیلوں نے چیف جسٹس یحیی آفریدی کو ایک خط میں فل کورٹ بلا کر ستائیسویں ترمیم پر غور کرنے اور اسے متوازن بنانے کے لیے حکومت کو تجاویز دینے کا مشورہ دیا تھا۔ ان لوگوں نے 9 نومبر کو لکھے گئے خط میں دعویٰ کیا تھا کہ ’عدلیہ کی آزادی کو اس وقت 2007 میں درپیش خطرے سے کہیں زیادہ سنگین اندیشہ لاحق ہے۔ ستائیسویں آئینی ترمیم میں جوتبدیلیاں کی جارہی ہیں وہ سپریم کورٹ کے لئے حتمی موت کا اعلان ہیں‘۔ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے بھی چیف جسٹس کی توجہ اس صورت حال کی طرف مبذول کراتے ہوئے عدالتی اتحاد کا تقاضہ کیا اور کہا کہ ججوں کو عدلیہ کی آزادی کی حفاظت کے لیے باہمی اختلافات بھلادینے چاہئیں۔ تاہم چیف جسٹس نے ان اپیلوں پر کان نہیں دھرے۔ کیوں کہ ایسا کوئی اقدام براہ راست پارلیمنٹ کے اختیار کو چیلنج کرنے کے مترادف ہوتا۔ کوئی آئینی جمہوریت ایسی کسی عدالتی کارروائی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
گو کہ سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے خلاف محاذ آرائی پر اکسانے والی آوازیں ایک انتہا پسندانہ طرز عمل ہے لیکن اس کے باوجود ان کمزویوں سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا جو 27 ویں ترمیم کے بعد ملکی عدالتی نظام میں محسوس کی جائیں گی۔ تاہم اگر سپریم کورٹ اور نئی آئینی عدالت کے ججوں نے متوازن رویہ اور باشعور ہونے کا ثبوت فراہم کیا تو کسی حکومت کو سیاسی مقاصد کے لیے عدلیہ کو نشانہ بنانے کا موقع نہیں ملے گا۔ یہ سوال اہم نہیں ہے کہ کسی ادارے کو قانون کے تحت کتنا اور کیسا اختیار دیا گیا بلکہ اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ انصاف کی کرسی پر بیٹھا ہؤا جج اگر صرف میرٹ پر فیصلے کرے اور سیاسی زاویے سے معاملات کو نمٹانے کا طریقہ ترک کردیاجائے تو ملک میں قانون کی حکمرانی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا۔
ملک میں 26 ویں اور 27 ویں ترمیم کے حوالے سے بہت تنقید کی جارہی ہے۔ اور اسے عدلیہ کو ’قتل‘ کرنے کے مترادف بھی کہا گیا ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو ان ترامیم کی بنیاد درحقیقت اعلی عدلیہ میں سیاسی ایجنڈے کے لیے کام کرنے والے ججوں نے اپنے غیر متوازن طرز عمل کی وجہ سے رکھی تھی۔ کسی بھی جج کو سیاسی نظریات رکھنے کا حق تو حاصل ہوسکتا ہے لیکن جب یہ نظریات یا کسی شخصیت کی حمایت یا مخالفت ججوں کے ریمارکس اور فیصلوں میں عیاں ہونے لگے تو کوئی بھی نظام اسے قبول نہیں کرسکتا۔ ججوں کے احترام اور خود مختاری کے لیے سب سے اہم یہی ہے کہ وہ عدلیہ کی خود مختاری کی بات کرتے ہوئے دیگر اداروں کی خود مختاری اور حدود کا احترام بھی کریں۔ حکومت یا پارلیمنٹ کے کام میں غیر ضروری مداخلت اور عدلیہ کی آزادی کے نام پر پارلیمنٹ کی آزادی سلب کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ ہماری حالیہ تاریخ میں ہونے والے فیصلوں میں اس کی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔ یہاں تک کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے بعض فاضل ججوں نے پہلے کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر ملکی ایجنسیوں پر عدالتی امور میں مداخلت کا الزام لگایا ۔ اور پھر قانون کے مطابق تبدیل ہوکر آنے والے ججوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ کو باقاعدہ دو حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ اگر نئی آئینی ترمیم اس صورت حال کو ختم کرنے میں کامیاب رہتی ہے تو یہ عدلیہ کے وقار اور استحکام کے لیے ایک بہتر آپشن ہوسکتا ہے۔
جہاں تک موجودہ پارلیمنٹ کی حقیقی منتخب حیثیت کے بارے میں سوالات اور فارم 47 کے تحت انتخاب کے الزامات کا معاملہ ہے تو ایسے الزامات سے ملک میں پارلیمانی یا حکومتی انتظام کو معطل نہیں کیا جاسکتا۔ اسے بہتر کرنےکے لیے سیاسی عمل مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام صرف اسی وقت ممکن ہوگا جب سیاست دان ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کی بجائے باہمی احترام کا رویہ اختیار کریں گے۔ یہ تبدیلی رونما ہوجائے تو کوئی آئینی ترمیم یا کسی آرمی چیف کا غیر معمولی اختیار ملک میں جمہوریت کو پروان چڑھنے سے نہیں روک سکے گا۔ البتہ اگر سیاست دانوں نے اپنی روش تبدیل نہ کی تو کوئی پارلیمنٹ کیسے ہی منتخب ہو، وہاں سے ویسی ہی ’معمول‘ کی قانون سازی ہوگی جو اب تک ملکی پارلیمانی روایت کا حصہ رہی ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ

