میں اُداسی کا سب سے بڑا بیٹا ہوں
جس کی پرورش کے لیے اس نے ایک ایسی عورت کا انتخاب کیا
جو رات کے لیے چاند بُنا کرتی تھی_
میرے بہن بھائی
مجھے دیکھتے ہی کچھ دیر کو
احتراماً اداس ہو جاتے ہیں _
لاپتہ چہروں کے لواحقین
شنوائی کی قربان گاہ پر
میرے نام کی تصویریں چڑھاتے ہیں _
میں بے بس ماؤں کی آنکھوں سے
شل ہوئے بازؤں کی طرح گر پڑتا ہوں
تو مجھے کلیجے لگا لیتی ہیں _
اجڑے ہوئے مکان ،
اندھے کنویں
اور ٹوٹی ہوئی قبریں
مجھے آداب پیش کرتے ہیں _
سوگوار بیواہیں اور ناراض بیویاں
اپنی راتیں میرے ساتھ گزارتی ہیں _
شہر کی ایک طوائف
ہفتہ وار چھٹی کے دن
میری قمیص بدلنے اور ناخن تراشنے آتی ہے _
ایک بار ۔۔۔۔
میں اسے گلے لگا لیتا ہوں،
وہ کھلکھلا کر ہنس پڑتی ہے ،
میں روہانسا ہو جاتا ہوں _
وہ اپنی چھاتیوں میں اڑسی ہوئی رقم نکالتی ہے
اور آدھی مجھے لوٹاتے ہوئے چل دیتی ہے _
میں کچھ کہہ نہیں پاتا
اور وہ روتے ہوئے
مکان کی سیڑھیاں اتر جاتی ہے _
(سلیم حسنی)
سلیم حسنی پاکستان کے ادبی حلقوں میں میرے گنے چنے دوستوں میں سے ہیں۔ مجھے کوئی شاذ و نادر ہی کال کرتا ہے۔ میری والدہ وہ واحد ہستی ہیں جو مجھے روزانہ کال کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اسی بہانے میں اپنے بھائی بہنوں سے بھی رابطے میں رہتا ہوں۔ مجھے میرے بچے کبھی کال نہیں کرتے اور وہ بھی کئی برس سے کال نہیں کرتی جو کبھی دن میں کئی بار کال کرتی تھی۔ اس میں کسی کا قصور نہیں ہے۔ یہ زمانہ ہی افراتفری اور نفسانفسی کا ہے۔ یہی کیا کم ہے کہ میری ماں مجھے اور میں اپنے بچوں کو روزانہ کال کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ سوشل میڈیا مجھ جیسے لوگوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ اس سے ہم روزانہ ایک دوسرے کے حالات سے کچھ نہ کچھ باخبر رہتے ہیں۔ مجھے وہ دوست بہت پسند ہیں جو ہر صبح مجھے میسج کرتے ہیں۔ میسج عام طور پر رسمی ہوتا ہے لیکن ہر دن کا زندگی سے بھرپور آغاز کرنے کے لیے ایندھن کا کام کرتا ہے۔ جام پور کے دوست محمد حمزہ بھٹی کئی برس سے بلاناغہ مجھے میسج بھیجتے ہیں، ان کے خلوص اور اپنائیت کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
آج سلیم حسنی کی کال آئی۔ سلیم حسنی کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ وہ ان دنوں لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس سے ایم فل کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ طویل عرصے سے بلوچستان میں بطور لیکچرر تعینات تھے۔ وہ نثری نظم کے ممتاز شاعر ہیں۔ ان کی نظموں کا مجموعہ "مٹی کی دعا” 2022 میں منظرعام پر آیا تھا۔ اردو شاعری کی اس جدید صنف کی طرف میرا رجحان سلیم حسنی اور احسان اصغر سے ملاقاتوں کے بعد ہوا۔
سلیم حسنی نے آج مجھے بتایا کہ ان پر حال ہی میں ایک تازہ واردات گزری ہے۔ واردات کا لفظ عمومی طور پر جرم سے وابستہ ہے۔ لیکن تخلیق کاروں پر گزرنے والی واردات کی نوعیت کچھ مختلف ہوتی ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ تازہ واردات کے بعد سلیم آج کل بہت خوش ہیں۔ لیکن آج وہ کچھ اداس تھے اور میرے ساتھ اپنے احساسات شیئر کرنا چاہتے تھے۔ یہ میرے لیے ایک اعزاز ہے کہ ان جیسا خوبصورت انسان مجھے اس قابل سمجھتا ہے کہ اپنے دل کی بات مجھ سے کرے۔
کالم کے آغاز میں دی گئی نثری نظم سلیم حسنی کا علمی پس منظر، مطالعہ اور ہنرمندی ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس نظم میں انہوں نے جن دکھوں کا اظہار کیا ہے، وہ اب انہیں برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ ان دنوں دکھوں سے آزاد نئی دنیا دیکھنے اور اپنی فکری اور تخلیقی آزادی حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اس نظم میں انہوں نے خود ایک مجسم اداسی بن کر بلوچستان کے دکھوں کو اپنے اندر سمو لیا ہے۔ یہ بہت کربناک کیفیت ہے۔
میری "مٹی کی دعا” یہ ہے کہ سلیم حسنی کا تخلیقی، روحانی اور معاشی مستقبل تابناک ہو ۔
فیس بک کمینٹ