ابھی حکومت کی طرف سے آئین میں ترامیم کا معاملہ طے نہیں ہؤا اور نہ ہی اس حوالے سے مباحث اور کوششوں میں کمی واقع ہوئی ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے الیکشن کمیشن کو ایک خط میں متنبہ کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے منظور کیے ہوئے قوانین پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ قومی اسمبلی چونکہ گزشتہ ماہ انتخابی ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے پارٹی تبدیل کرنے پر پابندی لگا چکی ہے ، اس لیے اس حوالے سے سپریم کورٹ کے کسی حکم پر عمل نہیں ہوسکتا۔
اسپیکر قومی اسمبلی کے خط میں جس قانونی ترمیم کا حوالہ دیا جارہا ہے وہ جولائی میں مخصوص سیٹوں کے بارے میں سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلہ بعد منظور کی گئی تھی۔ اس ترمیم میں واضح کیا گیا تھا کہ انتخاب کے بعد کوئی آزاد رکن ایک مرتبہ کسی پارٹی میں شامل ہونے کے بعد اسے چھوڑ کر کسی دوسری پارٹی میں شامل نہیں ہوسکتا۔ اس قانون کو مؤثر بہ ماضی قرار دیا گیا تھا اور اس میں واضح کیا گیا تھا کہ ’ اس وقت نافذ کوئی قانون، سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کا فیصلہ یا کسی قسم کا کوئی حکم اس قانون سے ماورا نہیں ہوگا۔ اس قانون کے حکم کو ہی حتمی حیثیت حاصل ہوگی‘۔ اس میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ انتخابی ایکٹ مجریہ 2017 میں یہ ترمیم خاص طور سے مخصوص نشستوں کے بارے میں سپریم کورٹ کے حکم کو غیر مؤثر کرنے کے لیے تیار اور منظور کی گئی تھی۔ اس قانونی ترمیم کے خلاف کوئی پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر نہیں ہوئی اور نہ ہی عدالت عظمی نے اپنے طور پر اس ترمیم کا نوٹس لیا تھا۔ اس لیے اب اسپیکر کا کہنا ہے کہ اس ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کا حکم از خود غیر مؤثر ہوچکا ہے اور اس پر عمل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرنے کی بجائے پارلیمنٹ اور نئی قانونی ترمیم کے تقاضے پورے کرنے کی فکر کرنی چاہئے۔
سپریم کورٹ کے فل بنچ کے آٹھ ججوں پر مشتمل اکثریت نے 12 جولائی کو ایک مختصر فیصلہ میں تحریک انصاف کے ارکان کو اس کی پارلیمانی قوت کے حساب سے مخصوص سیٹیں دینے کا حکم دیا تھا۔ یہ حکم دیتے ہوئے ان قانونی تقاضوں کو بھی نظر انداز کیا گیا کہ آزاد ارکان کو تین دن کے اندر کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہونے کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ تحریک انصاف نے پارلیمانی تشخص قائم رکھنے اور مخصوص نشستوں میں حصہ لینے کے لیے سنی اتحاد کونسل نامی ایک ایسی پارٹی میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا جس کی قومی اسمبلی میں اپنی کوئی سیٹ نہیں تھی اور نہ ہی اس پارٹی کی طرف سے کسی شخص نے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ بعد میں الیکشن کمیشن نے ان ہی وجوہات کی بنا پر سنی اتحاد کو باقاعدہ پارٹی ماننے اور اسے مخصوص سیٹوں میں حصہ دینے سے انکار کیا۔ یہ نشستیں دیگر پارلیمانی پارٹیوں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی و جمیعت علمائے اسلام (ف) کے علاوہ دیگر پارٹیوں کی پارلیمانی حیثیت کے مطابق ان میں بانٹ دی گئیں۔ البتہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے اس حکم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان سیٹوں پر نامزد کیے گئے ارکان کی نشستیں خالی قرار دیں۔
اس تنازعہ کا دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل سوالی بن کر گئی تھی اور ا س نے الیکشن کیشن کو فریق بناتے ہوئے اس کے فیصلے کو معطل کرنے کی استدعا کی تھی۔ پٹیشن کی اہمیت کے پیش نظر اس پر 13 ججوں کے فل کورٹ بنچ نے غور کیا اور 8 ججوں نے الیکشن کمیشن کے فیصلہ کوکالعدم قرار دینے کے بعد سنی اتحاد کو کسی قسم کا فریق ماننے سے گریز کیا۔ اس کی بجائے ان ججوں نے یہ حیرت انگیز فیصلہ کیا کہ الیکشن کمیشن تحریک انصاف کو مخصوص سیٹیں تفویض کرے کیوں کہ اس کی حمایت سے جیتے ہوئے ارکان نے بھاری تعداد میں کامیابی حاصل کی تھی۔ البتہ اکثریتی فیصلہ میں یہ وضاحت موجود نہیں ہے کہ ایک ایسی پارٹی یا فریق کو کیسے ریلیف دیا جاسکتا ہے جو درخواست گزار بن کر عدالت کے پاس آئی ہی نہیں تھی۔ متعدد قانون دانوں نے اس فیصلے کو عدالتی روایت اور قانونی و آئینی حدود سے متجاوز قرار دیا تھا۔ ابھی تک چونکہ سپریم کورٹ کی طرف سے اس حکم کا تفصیلی فیصلہ جاری نہیں ہؤا ، اس لیے ان قانونی وجوہ یا بنیادوں کے بارے میں صورت حال واضح نہیں ہے جن کو پیش نظر رکھ کر فاضل ججوں کی اکثریت اس نتیجے تک پہنچی تھی۔
سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلہ میں مخصوص سیٹیں تحریک انصاف کو دینے کا حکم دینے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ متعلقہ قوانین و طریقہ کار کو نظرانداز کرتے ہوئے ان تمام ارکان کو پندرہ روز میں پارٹی کے ساتھ اپنی وابستگی کا حلف نامہ اور پارٹی لیڈر کی طرف سے سرٹیفکیٹ دکھا کر خود کو تحریک انصاف کا رکن ظاہر کرنے کا موقع دیا گیا۔ یہ معاملہ خاص طور سے قومی اسمبلی کی ان کی41 نشستوں کے بارے میں تنازعہ کا سبب بنا ہے جن پر منتخب ہونے والے ارکان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ تو تھے لیکن انہوں نے قانون کے مطابق کاغذات نامزدگی میں خود کو تحریک انصاف کا امید وار ظاہر نہیں کیا تھا۔ اگرچہ یہ الجھن پی ٹی آئی کو ایک ہی انتخابی نشان نہ ملنے کی وجہ سے پیدا ہوئی لیکن عملی طور سے قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہونے اور سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والے کل 80 ارکان میں سے ان 39 ارکان کے بارے میں تو کوئی الجھن پیدا نہیں ہوئی جن کے کاغذات نامزدگی میں تحریک انصاف سے وابستگی ظاہر کی گئی تھی۔ لیکن 41 محض آزاد رکن تھے اور پارٹی قیادت کے فیصلہ کے مطابق سنی اتحاد میں شامل ہوگئے تھے۔ سپریم کورٹ اگر سنی اتحاد کو فریق مان کر اسے مخصوص سیٹیں دینے کا حکم جاری کرتی تو الیکشن کمیشن یا حکومت کی خواہش کے باوجود اس معاملہ پر کوئی الجھن پیدا نہ ہوتی اور مخصوص سیٹوں میں حصہ سنی اتحاد کو مل جاتا جو درحقیقت اس کی سرپرست تحریک انصاف کا ہی حصہ ہوتا۔ البتہ اس معاملہ میں 8 فاضل ججوں نے انصاف سے بڑھ کر انصاف دینے کا ارادہ کیا اور تحریک انصاف کو گھر جاکر ایسا انعام عطا کردیا گیا ، وہ جس کی نہ تو توقع کررہی تھی اور نہ ہی اس کے لیے درخواست گزار ہوئی تھی۔
الیکشن کمیشن نے البتہ تحریک انصاف کے پارٹی اسٹرکچر کی عدم موجودگی کا سوال اٹھاتے ہوئے جولائی کے دوران ہی سپریم کورٹ کو یہ عریضہ بھیجا کہ اس صورت میں ان 41 آزاد ارکان کی تحریک انصاف سے وابستگی کا فیصلہ کون کرے گا جو خود تو سنی اتحاد میں شامل ہوگئے تھے لیکن سپریم کورٹ کی اکثریت نے انہیں ’آزاد‘ قرار دے کر تحریک انصاف میں شمولیت کا حلف نامہ جمع کرنے کا غیر معمولی موقع دیا تھا۔ اکثریتی فیصلہ کرنے والے ججوں نے فوری طور سے جواب دینے کی بجائے حکومت کی طرف سے عدلیہ کے پر کاٹنے کے لیے لائی جانے والی ترامیم کی کوششوں کے عین بیچ 14 ستمبر کو ایک خصوصی حکم میں الیکشن کمیشن کی سرزنش کی کہ وہ سپریم کورٹ کے واضح اور صاف حکم کو ماننے میں ناکام رہا ہے۔ حکم عدولی پر نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے ایک بار پھر الیکشن کمیشن کو حکم دیا گیا کہ وہ فوری طور سے تحریک انصاف کو مخصوص سیٹوں کا حصہ دے۔ ان 8 فاضل ججوں کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن خود اپنی خط و کتابت میں بیرسٹر گوہر علی کو چئیرمین پی ٹی آئی مان چکا ہے ، اس لیے اس کے پاس اس اعتراف سے منحرف ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ اس حکم کے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ ہونے کے دو دن بعد ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کا یہ خط بھی سامنے آچکا ہے کہ اس معاملہ میں نہ کاز لسٹ جاری ہوئی اور نہ ہی فریقین کو نوٹس بھیجے گئے۔ اس لیے یہ حکم نامہ کیسے عدالت کی ویب سائٹ پر جاری ہؤا۔ یہ تنازعہ ابھی سپریم کورٹ کی انتظامیہ اور ججوں کے بیچ موجود ہے جس کا کوئی واضح حل سامنے نہیں آیا۔ اور نہ ہی یہ صاف ہوسکا ہے کہ کیا آٹھ ججوں کا اضافی حکم نامہ قانونی ہے بھی یا اس کے بارے میں شبہات موجود ہیں؟
الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کا نیا حکم سامنے آنے کے بعد 3 اجلاس منعقد کرچکا ہے لیکن اس بارے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچا۔ البتہ آج اسپیکر ایاز صادق کا خط الیکشن کمیشن کے لیے امید کی کرن کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اب ایک طرف ملک کی اعلی ترین عدالت کا حکم ہے اور دوسری طرف پارلیمنٹ کے کسٹوڈین اسپیکر قومی اسمبلی کا خط ہے جس میں ملکی قانون پر عمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس خط کے بعد الیکشن کمیشن اکثریتی ججوں کی برہمی کے باوجود ایک بار پھر وضاحت مانگنے کے لیے نیا خط سپریم کورٹ بھیج دے۔
اس سارے تنازعہ میں البتہ ٹائمنگ کو نوٹ کرنا بے حد اہم ہے۔ سپریم کورٹ کا تازہ حکم ایسے وقت جاری ہؤا جب حکومت پارلیمنٹ سے عدلیہ میں اصلاحات کے لیے آئینی ترامیم منظور کرانا چاہ رہی تھی۔ اسی طرح اب اسپیکر قومی اسمبلی کا خط ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب الیکشن کمیشن کو لیت و لعل کے باوجود سپریم کورٹ کا حکم ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کے احکامات کو نظر انداز کرنے کے لیے سیاسی ہتھکنڈے کوئی نئی بات نہیں ہیں ۔ یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ حکومت 12 جولائی کے عدالتی حکم سے خوش نہیں ہے اور اس کے خلاف نظر ثانی کی اپیل بھی دائر کی جاچکی ہے۔ حکومت کا یہ رویہ غیر معمولی اور ملک میں انصاف کی بالادستی کے اصول سے متصادم ہے۔ لیکن دوسری طرف سپریم کورٹ بھی محض اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے قانون و آئین کے تحت فیصلے کرتی دکھائی نہیں دیتی ۔ بلکہ اپنے احکامات سے پارلیمنٹ میں قانون سازی یا آئینی ترامیم کی کارروائی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرچکی ہے۔ ملکی سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کی بالادستی کا محافظ ہونا چاہئے تھا لیکن تازہ ترین احکامات کی روشنی میں صاف دکھائی دیتا ہے کہ سپریم کورٹ کے بعض جج پارلیمنٹ کی خود مختارانہ حیثیت کو ماننے پر آمادہ نہیں ہیں۔ یا کم از کم یہ تاثر قوی ہو رہا ہے کہ سیاسی پارٹیوں اور فوج کی طرح اب سپریم کورٹ بھی ملکی سیاسی فیصلوں میں زیادہ حصہ لینے کی زور آزمائی میں شامل ہوچکی ہے۔
الیکشن کمیشن کے نام اسپیکر کے خط کے بعد سپریم کورٹ سے پارلیمنٹ کی محاذ آرائی کھل کر سامنے آئی ہے۔ سپریم کورٹ اس لڑائی کو بڑھا بھی سکتی ہے ۔ ایک نئے حکم میں الیکشن ایکٹ کی ترمیم کو ’غیر آئینی ‘ قرار دے کر خود کو بالادست قرار دینے کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔ تاہم ایسا کوئی ڈرامائی اقدام کرتے ہوئے معزز جج حضرات کو خوب غور کرلینا چاہئے کہ عدالتی احکامات کے ذریعے پارلیمنٹ کے حق قانون سازی پر پابندیاں لگانے سے کیا ملک میں جمہوریت مستحکم ہو گی اور کیا اس طریقے سے انصاف کی بالادستی ممکن ہوسکے گی؟ اس کے برعکس ملک کے یہ دونوں اہم ادارے کسی مفاہمانہ حل پر راضی ہوکر سپریم کورٹ کے داخلی انتشار کے علاوہ ملک میں موجود عمومی بے یقینی کو ختم بھی کرسکتے ہیں۔ تاہم دیکھنا یہ ہوگا کہ اس حوالے سے بارش کا پہلا قطرہ کون بنے گا۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ