سنا ہے آج اقلیتوں کا قومی دن ہے ، یہ کرشمہ کب ہوا، معلوم نہیں ، شاید قائد اعظم کی گیارہ اگست کی آئین ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر اِس کی شان ِ نزول ہے، اگر ایسا ہے تو غنیمت ہے، یہ دن نہ بھی مناتے تو اقلیتیں کیا کر لیتیں۔
ایک روز یونہی بیٹھے بیٹھے دل میں خیال آیا کہ غیر مسلم اقلیتوں کے بارے میں ہمارے وچار کیا ہیں ، ہم اِن کے مذاہب کے بارے میں کیا جانتے ہیںاور اُن کو کس حد تک سمجھتے ہیں؟ ہمارے ہاں اقلیتوں میں زیادہ تعداد چونکہ مسیحیوں کی ہے تو انہی سے شروع کرتے ہیں۔ مسیحیوں کے تین بڑے تہوار ہیں، کرسمس، گُڈ فرائڈے اور ایسٹر۔ کرسمس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ یہ حضرت عیسیٰ ؑ کا یوم پیدائش ہے، گُڈ فرائڈے اُس دن کی یاد میں منایا جاتا ہے جب حضرت عیسٰی ؑ مصلوب ہوئے اور ایسٹر ایک طرح سے عید کا دن ہے جب مصلوب ہونے کے تیسرے دن حضرت عیسیٰؑ خدا کی قدرت سے مُردوں میں سے جی اٹھے۔ مسیحیوں کے عقیدے کے مطابق چالیس دن بعد انہیں خداوند نے آسمان پر بلا لیا اور اب وہ قیامت کے روز ظاہرہوں گے۔ اِس ضمن میں مسلمانوں کا عقیدہ قرآن کی سورۃ النسا آیت 157اور 158 سے واضح ہے :’’اور یہ کہا کہ :ہم نے اللہ کے رسول مسیح ابن مریم کو قتل کردیاتھا حالانکہ نہ انہوں نے عیسیٰ ؑ کو قتل کیا تھا ، نہ انہیں سولی دے پائے تھے، بلکہ انہیں اشتباہ ہو گیا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے، وہ اِس سلسلے میں شک کا شکار ہیں، انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اِس بات کا علم حاصل نہیں ہے، اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ وہ عیسٰی کو قتل نہیں کرپائے…اور نہیں رہے گا اہلِ کتاب میں سے کوئی بھی مگر اُس پر ایمان لا کر رہے گا، اُس کی موت سے قبل۔‘‘ ڈاکٹر اسرار احمدنے اِس آیت کی تفسیر یوں بیان کی ہے کہ ’’حضرت مسیح ؑ مرے نہیں ہیں،زندہ ہیں، وہ دوبارہ آئیں گے اور دوبارہ جب آئیں گے تو اہلِ کتاب میں سے کوئی شخص نہیں رہے گا جو اُن پر ایمان نہ لے آئے…‘‘ مسلمانوں کا عمومی عقیدہ یہی ہے۔ اب فرق صرف اتنا ہے کہ مسیحی سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کو مصلوب تو کیا گیا مگر خدا نے انہیں تیسرے دن زندہ کر دیا اور بعد ازاں آسمانوں پر اٹھا لیا، مسلمان کہتے ہیں کہ مصلوب تو نہیں ہوئے البتہ آسمان پر اٹھا لیے گئے۔ اور رہی بات حضرت عیسیٰ کے یوم پیدائش کی تو اُس میں کوئی اختلاف کم از کم میرے علم میں نہیں ہے۔ اب ایسے میں ہم کیوں مسیحیوں کے تہواروں میں شرکت نہیں کرتے یا انہیں مبارکباد کیوں نہیں بھیجتے، یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔ مسیحی اہل ِ کتاب ہیں اور اِس ناطے سے ہمارے پیٹی بند بھائی ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہم بھی پیغمبر مانتے ہیں اور اِن دو تین تہواروں کی حد تک ہمارے عقیدے میں بھی کوئی جوہری فرق نہیں ہے، تو پھر ہم سانجھی خوشی کیوں نہیں منا سکتے!
دوسری بڑی اقلیت ہندوؤ ں کی ہے، اِن کے بارے میں ہمارے وچار خاصے قابل اعتراض ہیں، عام لوگوں کی کیا بات کروں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ ہندوؤ ں سے سر عام نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ دو مثالیں پیش خدمت ہیں۔ ایک تو عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس گزرے ہیں جن کا نام تاریخ میں بہت سے ’کارناموں‘ کی وجہ سے کوئلے سے لکھا جائے گا (اسے نسل پرستانہ بات نہ سمجھا جائے)، موصوف نے ایک مرتبہ تقریر میں ہندوؤں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں تو اِن کا نام بھی اپنی زبان سے نہیں لینا چاہتا۔ یقیناً آپ جان گئے ہوں گےکہ یہ کن صاحب کی بات ہو رہی ہے۔ دوسری مثال ایک سابق جرنیل کی ہے جنہیں مشرف دور میں سول سروس افسران کی تربیت سے وابستہ ادارے میں بطور ریکٹر تعینات کیا گیا تھا، موصوف کو زیر تربیت افسروں کو خطاب کرنے کا بہت شوق تھا، اُن کا خطاب صبح شروع ہوتا تھا اور شام تک جاری رہتا تھا، اِس دوران وہ سوائے ہندوؤں کے خلاف نفرت پھیلانے کے اور کوئی بات نہیں کرتے تھے۔ اِن دو باتوںسے اندازہ لگائیں کہ اگر نام نہاد پڑھی لکھی اشرافیہ کا یہ حال ہے تو عام آدمی کیا سوچتا ہوگا!
ہندو دھرم میں وید سب سے قدیم اور مقدس سمجھے جانے والے صحیفے ہیں جو ہزاروں سال پرانےہیں ، اِن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ براہ راست روحانی تجربے کے ذریعے قدیم بابوں (رشیوں) پر نازل ہوئے تھے۔ یہ وید بھجن، رسومات اور منتروں کا مجموعہ ہیں جو ہندو مذہبی اور فلسفیانہ فکر کی بنیاد ہیں اور اعلیٰ شاعرانہ زبان میں لکھے گئے ہیں، رگِ وید کا ایک نمونہ دیکھیں : ’’جب نہ عدم تھانہ وجود، نہ اقلیم ِخلا تھی اور نہ ہی اُس پار افلاک کی تہیں۔ کس شے نے تحرک پیدا کیا! کہاں؟ کسی کی حفاظت میں؟ کیا وہاں پانی تھا ، بے انت گہرا؟ جب نہ فنا تھی نہ بقا، جب دن اور رات کی کوئی تفریق نہیں تھی…یہ کب تخلیق پذیر ہوئی، غالباً اِس نے خود اپنی تخلیق کی، یا شاید ایسا نہیں۔ وہ جو عرشِ معلیٰ کی جانب سے نیچے کی طرف دیکھتا ہے، صرف وہی جانتا ہے، یا شاید وہ بھی نہیں جانتا۔‘‘ ہزاروں سال پہلے لکھے گئے اِس نغمہ تخلیق میں وہی سوالات کیے گئے ہیں جو آج بھی انسانوں کیلئے معمہ بنے ہوئے ہیں۔ وید کے علاوہ بھگود گیتا بھی ہندوؤں کی مقدس کتاب ہے جو مہا بھارت کا حصہ ہے، یہ خیر و شر کے درمیان کشمکش کی کہانی ہے، اسے بھگوان کرشن اور ارجن کے درمیان ہونے والی گفتگو کی شکل میں لکھا گیا ہے، اِس گنجلک اور تہہ در تہہ پیچیدہ کہانی میں بھی گہرے فلسفیانہ اور اخلاقی سوالات کو پیش کیا گیا ہے جو ازل سے انسانی دماغ کو جھنجھوڑ رہے ہیں، اِس کے علاوہ بھگود گیتا میں دھرما، کرما، یوگااور خالق اور خلق کی خصوصیات جیسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
جس خطے میں ہم رہتے ہیں وہ کبھی متحدہ ہندوستان تھا اور یہاں مساجد، مندر، گوردوارے اور گرجاگھر تھے، کچھ رہ گئے، کچھ ڈھا دیے گئے اور کچھ تاریخ کے جبر کا شکار ہو گئے۔ ہزاروں سال کی جس تہذیب اور تاریخ پر ہم فخر کرتے ہیں وہ تاریخ صرف مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ دیگر تمام غیر مسلم قوموں کی بھی ہے جو قدیم صحیفوں، مقدس عمارتوں اور عبادت گاہوں سے عبارت ہے۔ اِس بچی کھچی تاریخ کو سمیٹ لیں تو کچھ بچت ہوجائے گی، ورنہ دیر تو پہلے ہی بہت ہو چکی ہے۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ