جب میں اوساکا یونیورسٹی میں تھا تو مجھے میرے رفیقِ کار یامانے نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ جاپانی دُروں بیں ہیں اپنے شخصی اور نجی قسم کی معلومات کا تبادلہ کسی سے نہیں کرتے ۔اس لئے ’اُردو بول چال کا کورس پڑھاتے ہوئے ‘ ایسے سوال پوچھنے سے گریز کریں جن میں بچوں سے نجی یا خاندانی معلومات حاصل کئے جانے کا شائبہ ہو،تو میں لرز کے رہ گیا کیونکہ میری تو یادوں کی کُل کائنات شاگردوں سے متعلق معلومات کے گرد گھومتی ہیں جو زیادہ تر ،بہت سے بچوں نے ازخود مجھ سے کی ہیں ،بعض نے تاکید سے کہا کہ یہ امانت ہیں ،بعض نے اصرار سے کہا کہ فلاں کم گو تک یہ بات پہنچا دینی ہے اور ایک آدھ نے کہا کہ صرف کبھی اللہ سے ملاقات ہو تو اُس تک ہمارا یہ شکوہ پہنچا دیجئے گا۔ ممکن ہے کبھی میں نے اپنے ابتدائی دور میں تجسس سے بھی کام لیا ہو وگرنہ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ بیشتر بچوں اور بچیوں نے مجھے اپنا بڑا اور دوست سمجھ کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کیا ،مجھے کریدنے کی ضرورت پیش نہیں آئی ۔اسی طرح میں اس بات سے واقف ہوں کہ اچھے طالب علموں کو استاد کی نظر سے گرانے کےلئے بہت ساری باتیں اُن سے منسوب کرکے وہ بھی بیان کررہے ہوتے ہیں جو اُن کی جگہ لینے کے خواہش مند ہوں۔
ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی ایسی ظاہر اور پوشیدہ صفات کا مالک تھا کہ میں پلٹ کر اپنے نصف صدی کے کیرئیر پر نگاہ ڈالتا ہوں تو اُس جیسا کوئی طالب علم مجھے نہیں ملا۔وہ لائق تھا ،تخلیقی ذہن رکھنے والا تھا ،شرمیلا تھا مگر وہ ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا جو دین دار تھا اور جو جماعت اسلامی سے بہت قربت رکھتاتھا،جبکہ جماعت سے وابستہ میرے استادوں میں بعض بے شک غیر معمولی لوگ بھی تھے اور وہ مجھ پر اپنی شفقت بھی ارزاں کرتے رہے لیکن میرے تعصبات کے مطابق شعروادب کی تفہیم اور تحسین میں بڑی رکاوٹ وہ صالحیت آسکتی ہے جس کی پرچارک یہ تنظیم رہی ہے۔
ملتان یونیورسٹی سے میں نومبر1976ءمیں وابستہ ہوا تھا ۔احمد فارو ق مشہدی سیمسٹر کی ہماری پہلی کلاس کا طالبعلم تھا ۔اس کلاس میں 17طالب علم تھے اور ان میں سے 8سے 10ایسے طالب علم تھے جن کے پرچے مجھے بار بار پڑھنے پڑتے تھے کیونکہ یہ میرا اپنا بھی امتحان تھا کہ میرا فکری میلان (تعصب؟)شاگردوں کے جوابات کی جانچ میں یا اُن کے کیرئیر میں رکاوٹ نہ بنے۔ فاروق کی کلاس میں مسرت حفیظ رولنمبر1تھی وہ بہت خوبصورت تھی اور بی اے میں پہلی پوزیشن پا کر بھی اُس نے ایم اے اُردو کرنے کا ارادہ کیا تھا ،فنون لاہور میں پروین شاکر پر اس کا مقالہ شائع ہوا تو وہ اپنے کلاس فیلوز بلکہ استادوں پر بھی سبقت لے گئی۔اسی کلاس میں شگفتہ حسین بھی تھی جو بعد میں ویمن یونیورسٹی ملتان کی پہلی اُردو کی پروفیسر بنیں اور پرووائس چانسلر بھی۔اسی کلاس میں جاوید محمود سہو(مرحوم) بھی تھا جس نے میرے سامنے اعتراف کیا تھا کہ آپ بی اے کا پوچھ رہے ہیں ایف اے کا امتحان بھی میں نے خود نہیں دیا تھا اور نہ ہمارے خاندان میں اس کا رواج ہے ۔ہم زمینداروں کے خاندان میں سے بہت سے لوگ ڈاکٹر اور انجینئر ہوئے ہیں مگر انہوں نے کبھی خود سے امتحان نہیں دیا۔ اسی کلاس میں مقصود احمد بھی تھا جو کسی ایک لمحے میں فلسفی ہوتا اور دوسرے لمحے میں اوسط درجے سے بھی کم تر صلاحیت کا ثابت ہوتا ۔ پہلے امتحان میں ہی فاروق مشہدی کا اسلوب ،خوشخطی ،جمالیاتی رچاﺅ اور اظہار کی پختگی میرے ذہن پر نقش ہوگئی اور جیسے جیسے وقت گزرا مجھے اپنی پرکھ پراعتماد بڑھتا گیا، مگر فاروق بہت شرمیلا اور دُروں بیں تھا تاہم وہ اپنے دور کے اہم ادیبوں سے خط وکتابت سے نہیں شرماتا تھا اور اُن کے جوابات استادوں کو دکھا کر اُنہیں مرعوب کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتا تھا۔ بہرطور مجھے یہی یاد ہے کہ میرے کورس میں فاروق لگاتار اول آتارہا اور یہ اُس پر کوئی احسان نہیں تھا ۔ مجھے خود اُس کے جوابات میں شعر شناسی کے بارے میں گہرے فہم کا اندازہ ہوتا تھا۔اس کلاس میں چار سے پانچ طالب علموں میں مقابلہ سخت تھا مگرچار سیمسٹر کے اختتام پر وہ ہمارے شعبے کے مختلف الخیال استادوں کی نظر میں بہترین ٹھہرا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ابھی بزنس ایڈمنسٹریشن کا شعبہ ہمارے پاس نہیں آیا تھا اور آرٹس یا ہیومنیٹیز کی فیکلٹی میں اول وہی ہوتا تھا جو شعبہ اُردو میں اول آتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس سے پہلے اسلم ادیب کو یہ اعزاز ملا اور یونیورسٹی کے قاعدے کے مطابق اُسے قائد اعظم سکالر شپ مل گیا جس پر وہ بیرون ملک جاکر پی ایچ ڈی کرسکتا تھا۔ وزارت تعلیم نے حسب ِ عادت یہ روڑے اٹکائے کہ اُردو کا طالب علم باہر سے پی ایچ ڈی کیسے کریگا تو اسلم ادیب کے ذہن ِ رسا نے یہ حل نکالا کہ میں ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہوں،چنانچہ اُس نے بریڈ فورڈ یونیورسٹی انگلستان میں داخلہ لیا اور پی ایچ ڈی کا طالب علم ہوگیا۔ اُس سے اگلی باری احمد فاروق مشہدی کی تھی اُس کو بھی یہی سکالر شپ ملا اور اس راہ میں اُس نے اسلم ادیب کی پیروی کی اور یوں علم التعلیم کو ایک بہت اچھا استاد اور قائد مل گیا مگر اس نظام کے سبب شعبہ اُردو ایک بہت اچھے طالبعلم سے محروم ہوگیا جو باہر سے پی ایچ ڈی کرکے لوٹ کے آتا توشاید شعبہ اُردو کی آج تاریخ اور روایت مختلف ہوتی۔ فاروق نے ایم اے کرنے کے بعد ایک اخبار میں کام کیا اور پھر خواجہ فرید کالج رحیم یار خان میں تدریس پر مقرر ہوا۔فاروق ایسا طالب علم تھا جس سے ناصرف اُس کے کلاس فیلو بلکہ جونیئر طالب علم بھی بہت متاثر تھے اور اِدھر اُدھر سے کچھ باتیں معلوم ہوتی رہتی تھیں جن کے مطابق ایک سے زیادہ لڑکیاں فاروق کی طرف مائل تھیں یا اُنہیں فاروق کی صورت میں بہتر مستقبل دکھائی دیتا تھا لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آخر کار ایک لڑکی اُس کی طرف بڑھے گی اور بہت سی رکاوٹیں عبور کرلے گی۔ سو جہاں تک مجھے یاد ہے فاروق سے پہلے اُس لڑکی نے مجھ سے کہا کہ آپ کی مدد کی ضرورت ہے کہ میرے خالو آپ کے استاد رہے ہیں اگر آپ جاکر اُن سے کہیں گے تو وہ میری امی ابو کو منا سکتے ہیں۔میں نے بات کرنے سے پہلے فاروق سے پوچھا تو وہ کافی شرمایا ،منہ سے تو کچھ نہ کہا البتہ میرے کچھ سوالوں کے جواب میں مشرقی لڑکی کی طرح سر ہلاتا رہا۔ چنانچہ میں اپنے اُن استاد محترم سے ملا جنہیں فارسی زبان سے زیادہ فلسفے سے دلچسپی تھی کیونکہ جب میں نے جاکر اپنی طرف سے افسانے کا ایک ٹکڑا اُن کو سنایا کہ امتحان ہورہا تھا مگر ہماری فلاں شاگرد پرچہ کرنے کی بجائے روئے جارہی تھی جب میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا پرچہ مشکل ہے ،تو اس نے کہا یہ آخری پرچہ ہے اس کے بعد فلاں سے بچھڑنا مشکل دکھائی دیتاہے وغیرہ ‘۔ تو استاد محترم نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے میری بھانجی کو روتے ہوئے خود دیکھا تھا یا اُس کے کسی کلاس فیلو نے آپ کی توجہ مبذول کرائی تھی کہ وہ رو رہی ہے۔ گویا وہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ میں اکیلا کسی لڑکی کی وکالت کررہا ہوں یا لڑکے کی منشا بھی شامل ہے، تب مجھے کہنا پڑا کہ جناب میں دونوں کی طرف سے حاضر ہوا ہوں۔ بہرطور یہ وہ مرحلہ ہے جہاں ڈاکٹر اے بی اشر ف بھی میرے ہم نوا تھے اور ہم نے لڑکی کے والدین کو ہر طرح کی ضمانت دی اور یہ بات فاروق پر چھوڑی کہ وہ خود بھی پہلے اپنی والدہ اور پھر والد کو منائے ۔جب معاملات کم وبیش طے ہوگئے تو ایک تکلیف دہ واقعہ پیش آیا ۔فاروق کے والد ِ گرامی یا بھائی جان کی طرف سے کچھ خط پیش کئے گئے جن کا مکتوب نگار گمنام تھا اور جس میں بہت دل آزار بے بنیاد باتیں لکھی ہوئی تھیں جو ایسے موقعوں پر خاندانوں میں غلط فہمیاں پیدا کرسکتی ہیں ۔دوسری طرف معلوم ہوا کہ اُس لڑکی کے والدین کو بھی اسی قسم کے خط مل رہے ہیں جس میں دھمکیاں دی گئی تھیں کہ عین شادی والے دن لڑکی کو اٹھا کر لے جایا جائے گا یا اُس کے ٹکڑے کردئیے جائیں گے۔ڈاکٹر اے بی اشرف اور میں اس طرح کی مراسلت سے پریشان ضرور ہوئے مگر اُن خطوں کو بغور دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ یہ فاروق کے ایک حاسد کلاس فیلو کا کارنامہ ہے۔ بہرطور اس کے بعد فاروق کی زندگی اللہ کے کر م سے ازدواجی آسودگی میں گزری ۔وفات سے پہلے اُس نے اپنی بیٹی اور بیٹے کی شادی بھی کی اور کسی قدر کھل کر سوشل میڈیا میں بھی ایکٹو ہوا ،گردوپیش ا ٓن لائن اور دیگر جرائد میں اُس نے دوبارہ لکھنا شروع کیا جس پر بار بار میں نے اُسے محبت سے مبارکباد بھی دی اور اُسے کہا کہ تمہاری ان تحریروں سے میری یہ کسک بڑھ رہی ہے کہ ایک نظام نے تمہیں شعبہ اُردو سے الگ کردیا ،مگر تم اب بھی ہم میں سے ہو اور ہمارے ہی شعبے کی زینت بنتے تو آج اس شعبے کی شان کچھ اور ہوتی۔
اتفاق ایسا ہے کہ فاروق کے لئے تدریس کی پہلی بڑی منزل رحیم یار خان کا خواجہ فرید کالج تھا جہاں سے اُسے سٹڈی لیو لیکر انگلستان جانا تھا اور شاید واپس آکر بھی اُسی کالج میں رپورٹ کرنا تھا ۔ اسی کالج میں میرے استاد عبدالعزیز جاوید تھے جن سے وہ بھی اُسی طرح متاثر ہوا جیسے میں جماعت اسلامی سے ’سرکشیدہ‘ ہونے کے باوجود متاثر ہوا تھا۔ اُس دور میں پنجاب کے سیکرٹری تعلیم مہر جیون خان تھے جن کو ایک مرتبہ میں نے اپنے استاد خلیل صدیقی کی بارگاہ میں نیاز مند کے رُوپ میں دیکھا تھا ۔تب پروفیسرخلیل صدیقی بلوچستان میں ڈائریکٹر تعلیمات تھے اور مہر جیون خان کی بیگم صاحبہ گرلز کالج کوئٹہ میں پڑھاتی تھیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مہر جیون نے جب اپنی تصنیفی زندگی کا آغاز کیا تو وہ بڑے نیاز مندانہ الفاظ کے ساتھ خلیل صدیقی صاحب کواپنی کتابیں بھیجتے رہے۔ چنانچہ میں نے خلیل صدیقی صاحب سے ہی درخواست کی کہ وہ ہمارے شاگرد ِ عزیز احمد فاروق کےلئے مہر جیون خان کے نام کا ایک سفارشی خط دیں تاکہ فاروق کا تبادلہ ملتان یا اُس کے قرب وجوار میں ہوسکے۔ فاروق نے اپنی طبیعت کے عین مطابق بہت عرصے کے بعد شرما شرما کے مجھے بتایا کہ مہر جیون خان نے اُس رقعے اورخلیل صدیقی صاحب کے حوالے کو قطعاً اہمیت نہیں دی ۔ بہر طور اس طرح جو صدمہ مجھے پہنچنا تھا وہ فاروق کی احتیاط کی وجہ سے دو چار ماہ تاخیر سے پہنچا اور پھر اپنے شاگردوں ،دوستوں کی محفل میں میری زبان مہر جیون خان سے جو انتقام لے سکتی تھی وہ اُن کی زندگی تک لیتی رہی۔
یونیورسٹی میں ڈاکٹر خواجہ امتیاز علی اپنے عزیز دوست خواجہ خورشید احمد کو لانا چاہتے تھے جو ایک طرح سے باغ وبہار شخصیت تھے اور کالج آف ایجوکیشن کے پرنسپل رہے تھے اور ہماری یونیورسٹی سے ابتدا ہی سے کئی حیثیتوں میں وابستہ رہے۔چنانچہ خواجہ خورشید صاحب کی نگرانی میں زکریا یونیورسٹی میں شعبہ علم التعلیم کا آغاز ہوا اور پھر ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی اس سے وابستہ ہوئے ، پھر اس کے دو حصے آرٹس ایجوکیشن اور سائنس ایجوکیشن کے ہوگئے اور ہمارے کیمسٹری کے دوست بعد میں سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ریاض الحق طارق نے سائنس ایجوکیشن کا شعبہ سنبھالا۔ اس عرصے میں شعبے میں کئی مدوجزر آئے مگر فاروق اچھے استاد ،اچھے منتظم اور صاف ستھرے رفیق ِ کار کی طرح سبھی کی نظروں میں عزت پاتا رہا۔ جس زمانے میں ڈاکٹر محمد نصیر وائس چانسلر تھے فاروق کی سلیکشن انقرہ اُردو چیئر کےلئے ہوئی۔ فاروق کا جی نہیں چاہتا تھا اُس وقت ملک کو چھوڑ کر ترکی جانے کا ۔ دوسری طرف ڈاکٹر نصیر بھی اُن کی صلاحیتوں کے بے پناہ قائل تھے ،تاہم فاروق نے مجھے بتایا کہ اس سلسلے میں اُن کی بیگم کا دباﺅ ہے ،تاہم یہ مرحلہ بھی خوش اسلوبی سے طے ہوااور فاروق یہیں رہ گیا۔
اپنی ریٹائر منٹ کے کم و بیش ایک برس بعد فاروق سوشل میڈیا پر بہت فعال دکھائی دیا،اس طرح فیس بک پر کم و بیش ہماری روزانہ ملاقات رہنے لگی،فاروق نے شیخ منظور الہٰی اور مختار مسعود کے حوالے سے اچھے مضامین لکھے،پھر اس نے اردو کے نامور شاعروں پر بھی تخلیقی مضامین کا سلسلہ شروع کیا،اسی دور میں اس نے واٹس ایپ پر مجھے شرما شرما کے بتایا کہ میں بھی ایمرسونین ہوں کہ مجھے خلاف مزاج ایف ایس سی کے طالب علم کے طور پر یہاں داخلہ لے کر امتحان دینا پڑا مگر اس کا نتیجہ اس قدر دل شکن تھا کہ میں شرم سے کسی کو بتاتا بھی نہیں کہ میں یہاں کا طالب علم ہوں،میں نے اس سے وعدہ کیا کہ کسی روز میں واپڈا ٹاﺅن میں صبح کی سیر کے بعد اسے فارم دے جاﺅں گا تاکہ وہ کالج کے سابق طالب علموں کی انجمن کا رکن ہو جائے مگر اس نے ایک مرتبہ پھر جھینپ کے کہا کہ آپ جتنی صبح یہاں سیر کرتے ہیں،اتنے بجے تو میں نہیں جاگتا مگر ایک مرتبہ ہم دونوں نے وقت بھی طے کر لیا اور میں اپنے ساتھ سہ ماہی پیلھوں کے دو شمارے بھی لے گیا مگر اس کے گھر پر تین مرتبہ اطلاعی گھنٹی بجا کر واپس آ گیا،تب اس کا معذرت کا ایک پیغام آیا جس میں پہلی مرتبہ اس نے اپنی طبیعت کی خرابی کا ذکر کیا۔اس کی ریڑھ کی ہڈی کے ایک مہرے کا مسئلہ طالب علمی کے زمانے سے تھا اور ملازمت کے ابتدائی برسوں میں وہ ڈاکٹر افتخار راجہ کے زیر علاج بھی رہا تب اس کی جاں نثار شریک حیات نے اس کی بہت خدمت کی ،پھر کئی برسوں کے بعد اس نے اس کا آپریشن بھی کرایا اور مجھے یاد ہے کہ جب میں اس کے گھر عیادت کو گیا تو اس کی بیگم نے بتایا کہ یونیورسٹی اس بل کی ادائیگی میں تاخیر کر رہی ہے اور ہمیں مالی مشکلات کا سامنا ہے کہ ہم نے ہسپتال اور ڈاکٹر کا بل خود ادا کر دیا تھا،تب میں شاید اکیڈیمک سٹاف ایسوسی ایشن کا صدر بھی تھا اور ہر مرتبہ کانٹے کے مقابلے میں فاروق کے بارے میں مجھے یقین ہوتا تھا کہ وہ میرا ووٹر ہے،ایسا نہ بھی ہوتا تو وہ اور اس کی رفیق حیات میرے بہت عزیز شاگرد تھے،مگر الجھن یہ تھی کہ وائس چانسلر ڈاکٹر خواجہ امتیاز علی مرحوم کی معیاد عہدہ گزر چکی تھی اور رجسٹرار ڈاکٹر محمد ظفراللہ نے خواجہ صاحب کے ایک دوست مرزا محمد منظور ایڈیشنل سیکرٹری تعلیمات کے ٹیلی فون کے ایک پیغام کا حوالہ دے کر ایک نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا کہ نئے وائس چانسلر کے آنے تک خواجہ امتیاز علی ہی بطور وائس چانسلر کام کرتے رہیں گے،اور اپنی مجلس عاملہ کی ہدایت پر ہم نے خواجہ صاحب کے خلاف عدالت میں رٹ کر رکھی تھی کہ وہ غیر قانونی طور پر وائس چانسلر آفس میں ہیں۔تاہم اپنی عزیز شاگرد رضوانہ فاروق کے کہنے پر میں نے بہت مشکل فیصلہ کیا کہ میں اس ’وائس چانسلر‘ سے مل کر اس بل کی منظوری اور ادائیگی کی درخواست کروں،جس کے خلاف ہم عدالت میں گئے ہوئے تھے،مجھے اعتراف کرنا چاہیئے کہ خواجہ امتیاز علی بہت بڑے آدمی تھے انہوں نے میری رٹ اور اس درخواست کے فاصلے یا تضاد کے بارے میں کچھ نہ کہا،البتہ مجھے یہ اندیشہ تھا کہ دو بجے کے بعد ان کے جو احباب انہیں اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیتے تھے،وہ اس موقع پر نہ آ جائیں اور کچھ کھنڈت پڑ جائے سو میں نے اپنی جیب سے قلم نکال کے خواجہ صاحب سے کہا’خواجہ صاحب ان چار برسوں میں آخری مرتبہ اس قلم کو اپنا احسان مند کر دیں‘ خواجہ صاحب نے دو مرتبہ کوشش کی کہ وہ اس پر اپنا حکم لکھیں مگر میرے قلم نے سرکشی اختیار کی۔اس موقع پر ہمارے باذوق خزانہ دار سعید انور نے اپنا قلم نکال کے خواجہ صاحب کو دیا اور کہا’سر،ڈاکٹر انوار کے قلم کو سرکاری زاویئے سے لکھنے کی عادت نہیں،میرا قلم حاکم کی منشا سے ہی رواں ہوتا ہے‘۔
یہ سب باتیں لکھنے کی ضرورت نہیں تھی،مگر جب ایسا پیارا شاگرد آپ کی آنکھوں کے سامنے اٹھ کے چل دے،جسے ہم سچا جہان کہتے ہیں تو پھر کسے خیال رہتا ہے کہ کیا گفتنی ہے اور کیا ناگفتنی۔
فیس بک کمینٹ