لاہور : سابق وزیر اعظم عمران خان نے : منگل سے دوبارہ لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اتوار کے روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا لانگ مارچ وزیرِ آباد سے دوبارہ مارچ شروع ہو گا
اُنھوں نے کہا کہ مارچ 10 سے 14 دن میں یہاں سے راولپنڈی پہنچے گا اور وہ خود لوگوں سے پنڈی میں ملیں گے۔عمران خان نے کہا کہ پنڈی سے مارچ کی وہ قیادت کریں گے اور وہاں سے وہ مارچ آگے لے کر جائیں گے۔
عمران خان نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کرے۔اس کے علاوہ اُنھوں نے سائفر کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ڈرامہ تھا، اگر ڈرامہ تھا تو اس کی تحقیقات کیوں نہیں کروا رہے۔
’ آپ بار بار کہہ رہے ہیں کہ ایسے سائفر آتے رہتے ہیں، میں نے تو ایسے نہیں سنا کہ کسی سائفر میں سفیر کو کہا گیا ہو کہ وزیرِ اعظم کو ہٹا دیا جائے۔‘سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ جب قومی سلامتی کمیٹی کہہ رہی ہے کہ مداخلت ہوئی ہے تو آئی ایس پی آر کیسے اسے ڈرامہ کہہ رہا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ اعظم سواتی نے جنرل فیصل نصیر کا نام لیا اور اُنھیں پوتے پوتیوں کے سامنے مارا اور اسے کہا گیا کہ عمران خان کے ساتھ ہم یہ کریں گے۔
عمران خان نے کہا کہ ساری پاکستانی قوم اس بات سے ہل گئی ہے کہ جو انھوں نے اعظم سواتی کی اہلیہ کو ویڈیو بھیجی گئی ہے۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کو اس بات کی تحقیقات کرنی چاہییں۔
اُنھوں نے کہا کہ پورے نظامِ انصاف کی ساکھ اب داؤ پر لگ چکی ہے۔پی ٹی آئی سربراہ نے کہا کہ اعظم سواتی کے پاس اصل ویڈیو موجود ہے اور وہ جعلی نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ کوئٹہ میں سپریم کورٹ کے جوڈیشل لاجز میں یہ ویڈیو بنائی گئی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ اعظم سواتی نے اُنھیں بتایا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دیں گے اور انصاف کا مطالبہ کریں گے۔ عمران خان نے کہا کہ ہمارے سینیٹرز ان کا ساتھ دیں گے اور وکلا تنظیموں کو بھی احتجاج میں شریک ہونے کے لیے دعوت دی گئی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ملک اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ کوئی بھی لائن سے ہٹے تو بلیک میلنگ اور کنٹرول کے لیے میاں بیوی کی ویڈیو بنا کر بھیج دی گئی۔ عمران خان نے کہا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا ہو گا۔
عمران خان نے کہا کہ شہباز شریف نے جوڈیشل کمیشن کی بات کی ہے، وہ اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔تاہم اُنھوں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کیا کرے گا، جن تین لوگوں کے نام لیے ہیں ان کے نیچے سارے تحقیقاتی ادارے ہیں، تو کیسے غیر جانبدارانہ تحقیقات ہو سکتی ہیں۔
’اس لیے میں نے کہا کہ یہ لوگ استعفیٰ دیں تاکہ غیر جانبدارانہ تحقیقات ہو سکے، ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں۔‘عمران خان نے کہا کہ یہ نہیں کہ اُنھوں نے بلا ثبوت کہہ دیا کہ یہ لوگ شامل ہیں، بلکہ اس کے پیچھے ایک پیٹرن ہے۔عمران خان نے کہا کہ اُنھوں نے فوج کے ایک فرد پر الزام لگایا تو کہا گیا کہ ساری فوج بدنام ہو رہی ہے۔
’مجھے حیرت ہے کہ ڈی جی صاحب نے سوچا ہے کہ آپ کہہ کیا رہے ہیں؟‘اُنھوں نے کہا کہ یہ ایسی بات ہے کہ کسی جج کو یا کسی پی ٹی آئی کارکن کو کرپٹ کہا جائے تو مطلب کہ پوری عدلیہ یا پوری پی ٹی آئی کرپٹ ہے۔
عمران خان نے کہا کہ اُنھوں نے جب یہ کہا کہ یہ لوگ سازش میں شریک ہیں تو یہ ان کا حق ہے۔اُنھوں نے کہا کہ وہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، ان کی بات نہیں سنی جا رہی تو ’عام لوگوں کے ساتھ یہ کیا کرتے ہوں گے۔‘
عمران خان نے کہا کہ ان پر حملے کو تین روز گزر چکے ہیں مگر وہ پنجاب میں اپنی حکومت ہونے کے باوجود ایف آئی آر درج نہیں کروا پا رہے۔اُنھوں نے کہا کہ کہا جا رہا ہے کہ وزیرِ اعظم اور وزیرِ داخلہ کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے کے لیے ہم تیار ہیں مگر میجر جنرل فیصل کے خلاف ایف آئی آر نہیں ہو سکتی۔عمران خان نے کہا کہ تفتیش جب ہو گی تو پتا لگ جائے کہ وہ لوگ ملوث ہیں یا نہیں لیکن یہ ان کا حق ہے، وہ اس پر تحقیقات چاہتے ہیں اور ان پر ایف آئی آر کٹوانا چاہتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ان کی اپنی حکومت کے ماتحت پولیس کہہ رہی ہے کہ اگر آپ نے ان کے خلاف ایف آئی آر کٹوانی ہے تو ہمیں ہٹا کر کسی اور کو اس عہدے پر لگا دیں۔
فیس بک کمینٹ

