خاور سے میری پہلی ملاقات اکتوبر1948 ءمیں ہوئی جب اُس نے ایس ای کالج بہاولپور میں بی اے سال اول میں داخلہ لیا۔اُس زمانے میں ایس ای کالج میں علمی و ادبی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ ڈاکٹر شجاع ناموس، پروفیسر نورالحسن، عبدالعزیزوطنی،دلشادکلانچوی، محمد صدیق ساجد ایسے علم و ادب کے روشن ستارے کالج میں بطور اساتذہ خدمات سرانجام دے رہے تھے، جب کہ خاورجسکانی، ایس ایم اختر، مظفر ضیا، عبدالحق سہمی، صلاح الدین، اختر حسین چوہان، اصغر علی کلیم ( پروفیسر اصغر علی شاہ) ایسے ابھرتے ہوئے شاعر و ادیب طلباءمیں موجود تھے۔ان سب کی وجہ سے کالج میں آئے دن ادبی مجالس کا انعقاد ہوتا رہتا۔
بہاولپور شہر میں حیات ترین کا اخبار ”انصاف“، ولی اللہ اوحد کا ”کائنات“، علی احمد رفعت کا ”ستلج“پوری توانائیوں کے ساتھ ادب و صحافت کی خدمت کر رہے تھے، شہاب دہلوی کا ”الہام“ ابھی ہجرت کے صدمے سے بحال ہو رہا تھا۔عبدالحق شوق، خلیق ملتانی اور دوسرے شعراءشہرکی فضا میں ادبی رنگ گھول رہے تھے۔ حیات ترین مقامی نمائندہ ادب کو ”پریشان جلوے“ کے عنوان سے مرتب کرکے پیش کرچکا تھا، اس مجموعہ نظم و نثر کی تقریظ سر شیخ عبدالقادر نے لکھی تھی اور شاملِ اشاعت ادب پاروں کے خالقوں نے اپنا اپنا مختصر تعارف اور محمود اسرائیلی نے ان کا ہلکے پھلکے انداز میں تعارف لکھا تھا۔قتیل شفائی کا سب سے پہلا مجموعہ، جو گیتوں پر مبنی تھا، ”ہریالی“ کے نام سے بہاولپور ہی سے شائع ہوا تھا۔اس ماحول میں خاور کالج اور شہر کے ادبی حلقوں میں وارد ہوا۔اس نو عمر شاعر کی شاعری نے اس ماحول سے جلا پائی۔
اولین ملاقات میں، سپورٹس شرٹ میں ملبوس، چھوٹے چھوٹے بازوں اور ٹانگوں والادبلا
پتلا پھرتیلا نوجوان خاور کسی صورت شاعر معلوم نہ دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ بچپن میں خاور نے کوئی زہر پی لیا تھا جس کی وجہ سے اُس کی ٹانگوں اور بازووں کی نشوونما سست پڑ گئی تھی اور دوسرے جسم کے مقابلے میں یہ اعضاء کمزور رہ گئے تھے۔ تاہم وہ تیز تیز چلتا تھا،جس پر ہمارے ایک دوست صلاح الدین نے یہ پھبتی کسی کہ خاور ہر وقت ایمرجنسی میں رہتا ہے، جیسے زبانِ حال سے کہہ رہا ہو ”مجھے ویگن خالی کرنی ہے!“ (یاد رہے کہ 1948 ءمیں دوسری عالمگیر جنگ کو ختم ہوئے ابھی بمشکل تین سال ہوئے تھے۔اُس زمانے میں بھی زمانہ جنگ کی طرح ، نیز بنگال میں قحط کے باعث پنجاب سے گندم اور دوسری اجناس ہنگامی طور پر برِ صغیر کے مختلف حصوں میں بھیجی جاتی تھیں۔ ریلوے کی ویگنیں کہیں بھی بیکار نہیں روکی جاتی تھیں۔ ہر ریلوے سٹیشن پر بڑے بڑے پوسٹر لگے ہوتے، جن میں ریلوے کا پورٹر بھاگتا ہوا دکھائی دیتا، ساتھ ہی یہ جملہ لکھا ہوتا”مجھے ویگن خالی کرنی ہے“!)جلد ہی کالج میں ادبی مجالس اور مشاعروں کا اہتمام شروع ہوا۔ڈاکٹر ناموس اس نوجوان کی بہت حوصلہ افزائی کرتے۔ اُس کی پُرخلوص شگفتہ باتیں ہر کسی کواپنا لیتیں۔ وہ اُن دنوں ”ان کہی بات“ کا شاعر تھا۔ اُس کی یہ قطعہ بند غزل ہر کسی کے لبوں پر تھی
زلفِ رخشاں کے گھنے سایوں میں مہتاب لیے
آج برکھا کی حسیں رات بنی بیٹھی ہو
مرمریں دوش پہ آوارہ یہ زلفوں کا ہجوم
ایک شاعر کے خیالات بنی بیٹھی ہو
تپتے عارض پہ ڈھلکتے ہوئے قطروں کا وفور
آب و آتش کی ملاقات بنی بیٹھی ہو
کتنے آنسو شبِ فرقت میں بہائے ہوں گے
آج برسی ہوئی برسات بنی بیٹھی ہو
شعرِ خیام ہو تم اور نہ حافظ کی غزل
ان کہی آج کوئی بات بنی بیٹھی ہو
اس ماحول میں شعر و سخن کا ذوق پروان چڑھا، خاور کی شاعری میں نکھار آتا چلا گیا، مگر جلد ہی اُس کے والد گرامی کے انتقال نے اُس کی زندگی بدل کے رکھ دی، اُسے بہاولپور کو خیرباد کہنا پڑا ، والدہ اور بہن بھائیوں کے ہمراہ ڈیرہ غازی خاں منتقل ہو گیا اور کسی نہ کسی طرح اپنی تعلیم کا سلسلہ مکمل کیا۔ ایک ہائی سکول میں ملازمت کر لی۔ اُس کی شاعری میں بھی حُزن و ملال کی پرچھائیاں پڑنے لگیں اور اُس کے اشعار کا انداز یہ ہو گیا
غمِ ایام لے کر جی رہے ہیں
ترا انعام لے کر جی رہے ہیں
مری اُداس خلوت پر، درد و غم کا احساں ہے
ورنہ اس زمانے میں کون کس کا پُرساں ہے
بوئے گُل پریشاں ہے، لالہ داغ ساماں ہے
کیا یہی گلستاں ہے؟ کیا یہی بہاراں ہے؟
مسکراتے چہروں کی تازگی پہ مت جاو
ہر شگفتہ چہرے سے زخمِ دل نمایاں ہے
خاور نے مردانہ وار جد و جہد کی اور بی اے (آنرز)، ایم اے اور پھر پی سی ایس
وغیرہ کے امتحانات میں بیٹھ کر اپنے لیے ایک معقول ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔اُس دور میں اُس کا زندگی کے بارے میں رویہ اس شعر سے ظاہر ہے:
ہم زندہ دل تو ہنس کے یہ آلام ٹال دیں گے
یارانِ غم گسار کا دل ٹوٹ جائے گا
تحصیلداری کی ملازمت خاور کو راس نہ آئی۔ اُس کا شاعرانہ مزاج تحصیلداری کے آداب و قرینے سے نا آشنا ہی رہا۔ چنانچہ ابتدائے ملازمت ہی سے وہ پریشانیوں میں گھرا رہا۔ خوشامدی دوستوں نے اُس کا گھیراو کیا ہوا تھا وہ بد عنوانی کا مرتکب ہوتا رہا اور لوگ پلتے رہے۔ جب مواخذے کا وقت آیا تو وہ تنہا تھا! وہ دوست دور دور تک نظر نہ آئے، جن کی وجہ سے وہ ایسی غلطیوں کا مرتکب ہوتا رہاجو اُس کی ملازمت سے برطرفی کا باعث بنیں۔اس کٹھن مرحلے میں بھی اُس نے اپنا ”وقار“ اور اپنی ”آن“ بنائے رکھی اور رکھ رکھاؤ میں کوئی فرق نہ آنے دیا۔ایک مرتبہ وہ مجھ سے ملنے وحدت کالونی کی قریبی آبادی میں اپنی بیگم کے ساتھ آیا۔ اُس زمانے میں یونیورسٹی نیو کیمپس سے رنگ محل اور ریلوے سٹیشن کے لیے بس کے دو روٹ چلتے تھے۔ میرے گھر سے نکل کر سڑک پہ ٹیکسی کا انتظار کرنے لگا، اتنے میں رنگ محل والی بس آگئی، جو پرانی انارکلی کے قریب سے گزرتی تھی۔جہاں اسے جانا تھا۔ میں نے دونوں کو زبردستی بس میں سوار کرایا۔ورنہ وہ ٹیکسی پر ہی سفر کرتا .
ایک بار جب وہ اپنی ملازمت کے سلسلے میں اپیل کی سماعت کے لیے ٹریبیونل کے سامنے پیش ہونے کے لیے لاہور آیا ہوا تھا، اُس کا قیام لاہور ہوٹل میں تھا۔ میں ملنے گیا تو وہاں محفلِ شعر و ادب زوروں پر تھی، کوئی ٹھنڈا مشروب پی رہا تھا تو کسی کے ہاتھ میں چائے کی پیالی تھی۔ ایسے معلوم ہوا کہ کوئی نصف درجن سے زائد لوگ اُس کے کمرے میں بطور مہمان ٹھہرے ہوئے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر میرے منہ سے بے ساختہ نکلا ”لوگ یونہی کہتے ہیں کہ خاور پریشان ہے، اصل پریشانی تو تحصیلداری کو ہے کہ اُس کا واسطہ ایک شاعر سے پڑا ہے“۔ خاور میرے اس جملے پر چہک اُٹھا اور بولا” تم پہلے شخص ہو جس نے میری ’کیفیت‘ کا صحیح تجزیہ کیا ہے۔“
اُس زمانے میں خاور نے چند عمدہ نظمیں کہیں۔ وہ بنیادی طور پر نظم گو تھا۔ان نظموں میں ”او تھانٹ (جنرل سیکرٹری یو این او) کے نام“، ”لال قلعہ دہلی کا پیغام شاہی قلعہ لاہور کے نام“، ”بازارِ مصر“ وغیرہ ممتاز تھیں۔
تحصیلداری سے برطرف ہونے کے بعد خاور ملتان ریڈیو سٹیشن سے وابستہ ہو گیا اور اُس نے ایک صاحبِ طرز اناونسر کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔ اُسے نظم و نثرپہ عبور حاصل تھا، اُس کی تحریر کی شگفتگی، اُس کی ذاتی خوش مزاجی کی آئینہ دار تھی۔ یہی شگفتگی ادب، شاعری اور سٹیج پر اُس کی کامیابی کی دلیل تھی۔
جب 1972 ء میں قریباً دوہزار سرکاری ملازمین بر طرف کر دیے گئے تو خاور نے میرے سامنے کہا ”اللہ کا شکر ہے کہ میں پہلے ہی سے ملازمت سے نکالا ہوا ہوں ورنہ یہ ریڈیو کی ملازمت کا آسرا بھی نہ ملتا!“ اُس کے ساتھ طویل دوستی کے زمانے میں یہ واحد جملہ تھا جو اُس نے اپنی محرومیوں کے بارے میں میری موجودگی میں کہا!
ایک بار لاہور جاتے ہوئے راستے میں خاور کا اٹیچی کیس گم ہو گیا۔ جس کا اُسے ملازمت کھونے سے بھی زیادہ افسوس تھا، اس لیے کہ اُس میں اُس کا مکمل شعری اثاثہ کھو گیا تھا۔ گرچہ خاور کو بے حساب شعر یاد تھے۔ اُسے اپنا کلام تو پورا یاد تھا، مگر اُسے لکھنا خاور کے لیے انتہائی کٹھن کام تھا۔
آخری دنوں میں خاور نے قرآنِ کریم کا منظوم ترجمہ شروع کیا ہوا تھا۔ غالباً ڈاکٹرطاہر تونسوی اس کی اشاعت کا انتظام کر رہے تھے، پیشر ازیں انہوں نے خاور کے موجود کلام کو ”شاخِ زیتون“ کے نام سے مرتب کرکے شائع کرایا۔تاہم ابھی خاور کا بیشتر کلام اخبارات و رسائل میں بکھرا پڑا ہے۔
ایک زمانے میں جب خاور ڈیرہ غازی خاں میں تھا اور میں ملتان میں زیرِ تعلیم تھا، ہمارے مشترک دوست شریف نواز خاں ترین کو خاور سے شکایت تھی کہ وہ خط کا جواب نہیں دیتا، اس پر ہم دونوں نے مل کر اُس سے ایک لڑکی کے نام سے قلمی دوستی کا آغاز کیا۔ اس مراسلت کی ابتداءخاور کے لکھے ہوئے خواجہ غلام فرید کے کلام پر ماہنامہ” ماہِ نو“ کراچی میں چھپنے والے ایک مضمون کی تعریف سے شروع ہوئی۔ اس کے بعد تو خطوط کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ خاور کے پی سی ایس اکیڈمی گجرات میں تربیت کے عرصے میں بھی یہ مراسلت جاری رہی۔لطف کی بات یہ ہے کہ جب شروع میں میں ملتان میں تھا اور بعد میں لاہور میں زیرِ تعلیم تھا، تو جب کبھی خاور سے ملاقات ہوتی وہ اس سلسلے کے بارے میں مجھ سے تبادلہ خیال ضرور کرتا۔ ایک لحاظ سے میں اُس کا ”رازدان“ تھا!دو تین برس بعد جب ہم اس مشق سے اکتا گئے تو ہم نے اُس خاتون ( جس کا نام ہم نے خاور کی نسبت سے زاہدہ تنویر رکھا تھا)کے انتقال کی خبر اُس تک پہنچادی۔ اس خبر کا اُس نے شدید اثر لیا اور ایک نوحہ بعنوان ”روشنی کی موت“ لکھا۔ اس نوحے میں جذبات کی شدت اور منظرکشی ایک قادرالکلام شاعر کی عکاس ہے۔جب خاور نے مجھے یہ نظم سنائی تو میں مبہوت ہوکر رہ گیا۔ کہ کھیل ہی کھیل میں ہم نے اُس کے جذبات سے انتہائی ظالمانہ سلوک کیا ہے۔ اگر اُس وقت اُسے معلوم ہوجاتا کہ زاہدہ تنویر ایک خیالی کردار تھا جو خادم علی ہاشمی اور شریف نواز خان ترین کی مشترکہ تخلیق تھا، تو وہ یقیناً ہم دونوں کو قتل کرنے سے بھی نہ چوکتا۔ اُسے قریباً آٹھ سال بعد 1963 ءمیں جب اصل حقیقت معلوم ہوئی تو حیران رہ گیا۔ اُسے یقین نہیں آتا تھا کہ وہ خطوط کسی لڑکی کی بجائے کسی ”غیر ادیب“ لڑکے نے لکھے تھے!
خاور ایک غمگسار دوست، شفیق انسان اور صاحبِ دل آدمی تھا۔ اُس نے دوستی نبھاتے ہوئے اپنے نفع و نقصان کی کبھی پرواہ نہیں کی ورنہ اُس کی زندگی کا آخری دور اس قدر پریشانی اور مایوسی میںنہ گزرتا۔ آخری زمانے میں اُس کی شاعری میں نکھار آگیا تھا۔اُس کے کلام میں درد اور آفاقی آگہی نظر آتی ہے۔ مگر افسوس کہ اُس کا کلام محفوظ نہ رہ سکا۔ اے کاش وہ کچھ دن اور زندہ رہتا! اُس کا اپنا شعر:
کیسی کیسی ناز پروردہ بہاریں لُٹ گئیں
کیسے کیسے رہرووں کو کھا گیا منزل کا غم
خود اُس کی اپنی ذات کی عکاسی کرتا ہے۔ انتقال سے کچھ عرصہ پہلے اسے توقع تھی کہ ملتان میں نئی قائم ہونے والی ملتان آرٹس کونسل کا اسے سربراہ بنا دیا جائے گا، مگر وہ اس خواب کی تعبیر نہ دیکھ سکا۔ زندگی کی تلخیوں کو چھپائے، لوگوں کو ایک خوش گوار شخصیت کا تاثر دیتے دیتے وہ اپنے دل کے ہاتھوں مات کھا گیا اور 1976 ءکی جولائی کی ایک سہ پہر جب وہ لاہور آرٹس کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے گیا ہوا تھا، وہیں انتقال کر گیا۔یوں لگا کہ ”روشنی کی موت “کا شاعراپنے گرد پھیلے ہوئے اندھیروں کو اجالنے کی ناکام اور ناتمام کوشش کے ہاتھوں تاریک راہوں میں مارا گیا:
تیرے اجڑے ہوئے کمرے کی ہر اک شئے سے مجھے
تیری باتوں کی، ترے پیار کی بو آتی ہے
زخم سینے کے مہکتے ہیں تیری خوش بو سے
وہ مہک ہے کہ مری سانس رکی جاتی ہے
خاور بنیادی طور پر نظم کا شاعر ہے، اُس کا ابتدائی کلام بھی مسلسل غزل کی نشان دہی کرتا ہے۔ ذیل میں اُس کے کلام کا ایک مختصر انتخاب دیا جاتا ہے۔ اس میں بیشتر کلام اُس کی ابتدائی شاعری سے لیا گیا ہے اور اس میں غزل کا حصہ خود اسی کا 1953 ء میںکیا گیا انتخاب ہے جو اُس نے ایک مکتوب میں بھیجا۔ طویل نظمیں بعد کی ہیں۔اُس کے کلام میں شدتِ جذبات ، بے ساختگی اور شگفتگی کے عناصر بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔
( جاری )