یا خدا! ہماری قوم پر کیا ادبار آیا ہوا ہے؟ کبھی سیالکوٹ میں اور کبھی خانیوال میں، مذہب کے نام پر انسانیت سوز اقدامات کرکے ساری دنیا میں اسلام، پاکستان اور پیغامِ رسالتؐ کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ کتنے لوگ یہ کرتے ہیں۔ کہیں یہ سینکڑوں سے کم نہیں ہوتے؟ ریاست مجبور ہوتی ہے کہ وضاحت کرے کہ یوں کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی مگر یہ بار بار غلط فہمی اور وحشیانہ رویئے ہمیں کہیں کا نہیں رہنے دیں گے۔ لاڑکانہ ہو کہ بلوچستان کہ میڈیکل کی طالبات کو جنسی حملوں کے بعد، خودکشی کہہ کر پنکھوں سے لٹکا دیا جاتا ہے۔ اب تو پنجاب میں کام اور آسان ہوگیا ہے۔ کوئی مائی لڑکی کو کھیتوں میں لے جاتی ہے۔ اجتماعی زیادتی ہوتی ہے، اس کے بعد لڑکی کو زہر پلا کے، قصہ ختم کر دیا جاتا ہے۔ رند کے رندرہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی۔ ایسے موقعوں پر مولوی حضرات کیوںنہیں بولتے، البتہ حجاب کا نام درمیان میں آجائے تو تقلید فرماتے ہوئے، سب خواتین کو حجاب پہننے کی نصیحت کرتے ہیں۔ ہر چند مسکان میں وہ ہمت تھی کہ بی۔ جے۔ پی کے درندوں کا مقابلہ کیا۔ اس کی ہمت اور حوصلے پر کوئی بات نہیں کرتا، ساری بات خواتین کو حجاب پہنانے پر آکے اڑ جاتی ہے۔ جیسے پہلے بھی وزیراعظم خود خواتین کے لباس پر اپنی بڑی مستحکم آواز اُٹھا چکے ہیں مگر میری تتلی جیسی بچیاں، کبھی بلوچستان سے کوک اسٹوڈیو میں آجاتی ہیں تو کبھی کرکٹ کھیلنے لگتی ہیں اور کبھی تھرپارکر کے لڑکے اور لڑکیاں ایسے سروں میں گاتے ہیں کہ خوشی کے آنسو نکل آتے ہیں۔
دشمنی میں مارنے والے، چاہے نواب شاہ ہو کہ تانندلیانوالہ ایک دوسرے قبیلے کے خاندانوں کو مار ڈالتے ہیں اور پولیس والے جس طرح خانیوال اور سیالکوٹ دونوں جگہ پہنچ چکے تھے مگر سینکڑوں کی موجودگی میں ان کی جرأت نہیں ہوئی کہ کوئی قدم اٹھاتے۔ اب نوابشاہ میں تو زرداری قبیلے کی حکومت ہے۔ خدا کرے کہ زرداری صاحب صحت مند ہوں اور خاک و خون کے کھیل کو آئندہ نہ ہونے دیں۔ کچھ تو بدلیں جو بلاول سیکھ سکے۔
ادھر ادب پر بھی ایسی ہی کیفیت طاری ہے۔ یاد کریں ہمارے بچپن میں ساقی نیکتا تھا۔ شاہد احمد دہلوی اس کے مدیر تھے۔ ان کے جانے کے بعد، ’’ساقی نامہ‘‘ ہوگیا’’ادبی دنیا‘‘مولانا صلاح الدین کے دم سے تھا۔ ’’نیا دور‘‘ پہلے ممتاز شیریں نکالتی تھیں پھر ڈاکٹر جلیل جالبی نکالتے تھے۔ ان کے زندگی سے منہ موڑنے کے بعد کہاں کی عقیدت کہاں کے حوالے۔ صہبا لکھنوی ’’افکار‘‘ چالیس پچاس برس تک ایک چھوٹے سے دفتر سے نکالتے رہے۔ دو تین سیڑھیاں تھیں چڑھتے ہوئے سائیڈ پر اوپر کے نلکے کا پانی بہتا تھا۔ اس سے بچ کر دفتر میں پہنچنا ہوتا تھا۔ وہ منحنی جسم کے ساتھ قاسمی صاحب اور فیض صاحب پرضخیم نمبر نکالتے رہے۔ وہ گئے تو ’’افکار‘‘ ہی نہ رہا۔ خود قاسمی صاحب تیس برس تک’’ فنون‘‘ نکالتے رہے۔ اس طرح ڈاکٹر وزیر آغا ’’اوراق‘‘ نکالتے رہے۔ پشاور میں تاج صاحب رسالہ ’’قند‘‘ نکالتے رہے وہ گئے تو کسی نے اس بھاری پتھر کو نہ اٹھایا۔مارشل لاؤں نے سول ملٹری گزٹ سے لے کر ’’امروز‘‘، ’’پاکستان ٹائمز ‘‘اور’’ لیل و نہار‘‘ کا گلاگھونٹ دیا۔ ’’ماہ نور‘‘ کچھ سال چلا۔ پھر بجھ گیا۔ معلوم نہیں کہ کس قبر میں گیا۔
ڈاکٹر آصف فرخی نے دنیا زاد پرچہ اتنی محبت اور محنت سے نکالا کہ ہر لکھنے والا ان کی طرف کھنچتا چلا گیا۔ وہ آفتاب بے وقت غروب ہوگیا۔ اور اب ’’لوح‘‘ بھی آسمان پہ خدا کے پاس چلا گیا۔ ممتاز شیخ جو صرف ادب سے محبت میں سال میں دوضخیم پرچے نکالتا تھا۔ وہ بھی آناً فاناً پاکستان میں معیشت کے ساتھ، قبر کے قریب ہوگیا۔
اب دیکھیں تو سال میں دو ایک دفعہ اجمل کمال کوئی پرچہ نکال لیتا ہے۔ کراچی میں انجمن کا پرچہ ہے جو بھولے بسروں کو یاد کرلیتا ہے یا پھر لاہور میں اظہر جاوید کا بیٹا ’’تخلیق ‘‘کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ورنہ سرکاری پرچے، بس نکل رہے ہیں۔ کراچی میں مبین مرزا نے ادبی محاذ سنبھالا ہوا ہے البتہ جو کچھ کوئی لکھ دے اس کو بلا کسی قطع و بدیر کے شائع کر دیتے ہیں۔ کسی کی پگڑی اچھلتی ہے کہ کوئی بڑھاپے میں ذلیل ہوتا ہے تو یہ ان لوگوں کا مقدر کہ اس زمانے میں کیوں زندہ ہو۔
بالکل ایسا ہی ماحول سیاست میں ہے۔ اب وہ لوگ چوہدری شجاعت کو یاد کر رہے ہیں جو ان کے خلاف سالوں بولتے رہے۔ یہ الگ بات کہ کسی نے کبھی نہیں پوچھا کہ آپ کا نظریۂ سیاست کیا ہے مگر یہ تو بے تکی بات ہوگی کہ مارشل لائوں نے، ہر شخص یعنی سیاست دان کو ’’جھولی چک ‘‘بنا دیا ہے۔ گلہ کس سے کرنا کہ آپ کا نظریہ کیا ہے۔ اس لیے ہم سیاسی تنہائی بھی کاٹ رہے ہیں اور بیچ بیچ میں سی۔ پیک جیسے شوشے بھی چھوڑ رہے ہیں۔ بہانہ یوکرین اور روس کی لڑائی کا اور ہر دسویں دن کبھی تین اور کبھی تیرہ روپے پیٹرول اور بجلی کی قیمت بڑھا کر، ترین صاحب کی بھی زبان بندی کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ بار بار پوچھ رہے ہیں کہ ’’مجھے کیوں لائے تھے؟‘‘۔ اب تو لگتا ہے عمران خان بھی اپنے لانے والوں سے یہی پوچھ رہے ہیں ’مجھے کیوں لائے تھے‘‘۔ اور اس طرح ان کے سارے ترجمان ڈاکٹر معید یوسف کے ’’انگشت بدندان‘‘ کبھی آگے دیکھتے ہیں اور کبھی نظریں نیچی کرکے۔ باہر نکلنے کا راستہ، بالکل اس طرح ڈھونڈ رہے ہیں کہ جیسے جسٹس (ریٹائرڈ) گلزار صاحب نے بھی امریکہ جانے میں ہی عافیت جانی۔ منہ لپیٹ کے نکل گئے۔
اب کراچی میں سندھ حکومت نے ایک شوشہ چھوڑا ہے کہ طلبہ انجمنوں کو بحال کیا جائے۔ مگر فی الوقت پورے پاکستان میں طلبا انجمنوں کے نام پرصرف شور ہی ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ اس وقت پرانے ریٹائرڈ فارن سیکرٹریز بھی، چونکہ زندگی بھر حرفِ حرف نہیں بولا تو اب ہلتی گردن کے ساتھ کاہے کو قیامت کے بورے سمیٹیں۔ ان کو معلوم ہے کہ جو کچھ کمانا تھا۔ اس کو ضائع کیوں کریں۔ یہ زمانہ تو ایچ ای سی کے چیئرمین ہوں کہ وائس چانسلرز ان کے استعفےلیے جارہے ہیں۔ ویسے بھی کوئی شریف آدمی اس ماحول میں وائس چانسلر بننے کو تیار نہیں ہے۔
میرے گھر کے سامنے ایک درخت ہے جس کو خزاں نے ٹنڈ منڈ کر دیا ہے مگر چیل کا حوصلہ ہے کہ وہ باریک سی ٹہنی پر بڑے اطمینان سے بیٹھتی ہے۔ ایسا اطمینان، کسی انسان کو میسر نہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ