میرا خیال ہے تم وہی شیریں مزاری ہو جوکہ ہمارے ساتھ 20برس تک سڑکوں پر نا انصافیوں، عورتوں کے ساتھ زیادتیوں اور جمہوری آزادی کے لئے، بھری دوپہروں میں احتجاج کرتی ہوئی چلتی تھیں، اس وقت بھی تم اپنے بالوں کو قوس قزح کے رنگ دے لیتی تھیں، ہم دوستوں کو یقین ہے کہ اس بے عدل معاشرے میں تم کچھ قوانین کو بدل پاؤ گی اور کچھ پر عملدرآمد کے لئے اس سفاک مردانہ بیورو کریسی کو نکیل ڈال سکو گی۔
بھلا میں کیوں تم سے طعنہ زنی سے مکالمہ شروع کررہی ہوں، تمہارے علم میں ہوگا کہ قصور کی زینب کے قاتل کو سزا، سال بھر بعد سنائی گئی اس پر عملدرآمد نہیں ہوا، تمہیں تو معلوم ہوگا کہ صنم تنولی نے ڈپریشن سے تنگ آکر 26سال کی عمر میں خود کشی کرلی، تمہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ دیر اور چترال میں آج کل خودکشیوں کی تعداد میں ہولناک اضافہ ہوا ہے، اس طرح فرزانہ جمالی جیسی لڑکیاں جسمانی ہراسگی سے تنگ آکر، وائس چانسلر اور پروفیسر کے خلاف کورٹ میں چلی گئی ہیں۔
تم نے کبھی غور کیا کہ ان خودکشیوں کے پیچھے محرکات کیا رہےہیں، بے شمار بچیاں اور نوجوان، فیس بک اور سوشل میڈیا کے جنون میں مبتلا ہیں، گھر والے تنگ ہوکر نوٹ کرتے ہیں کہ ہمارے بچے ساری رات فون پر گفتگو کرتے رہتےہیں اور پھر سارا دن سوتے ہیں نوکریاں نہیں ہیں، رشتے نہیں ہیں، کتاب پڑھنے کا شوق نہیں ہے، سوشل میڈیا پر لڑکے لڑکی فلموں والے ڈائیلاگ بولتے، وعدے وعید کرتے، پھرجب لڑکی کی کہیں شادی ہونے کا امکان پیدا ہوتا تو عارضی عاشق اس کو بلیک میل کرتا، یہ کام صرف نوجوان پڑھے لکھے ہی نہیں کرتے، کبھی ٹیلی فون آپریٹر، کہیں دفتروں میں کام کرنے والے ساتھی، غلیظ لطیفے اور باتیں لکھ کر بھیج دیتے ہیں، کبھی کسی دکان دار یا درزی سے زیادہ دفعہ ملاقات ہوجائے، وہ آپ کا نمبر لیکر دو گھڑی کی دلتراشی وہ بھی کرلیتا ہے، سوشل میڈیا نے ہمارے نوجوانوں کو علم دینے کی جگہ بے راہ روی سکھائی ہے۔ایک اور بہت بڑا مسئلہ جو بڑھتا ہی جارہا ہے وہ ہے غیرت کے نام پر قتل، کئی جوڑے، جن کی شادی کو کئی سال بیت گئے اور ان کے بچے بھی ہوگئے ہیں، خوشی سے والدین کو ملنے آتے ہیں اور یہ ماں باپ خود، خاندان کے سامنے غیرت مندی کے دکھاوے کے لئے، ان کو بیدردی سے قتل کرکے خود کو سرخرو سمجھتےہیں، ان کے بارے میں بس ذراسی خبر آتی ہے، معلوم نہیں کیس بھی رجسٹر ہوتا ہے کہ نہیں کہ اسی دن شام کو ایک نئی تہلکہ خیز خبر آجاتی ہے، یہی حال بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کا ہے جو روز بروز بڑھ رہےہیں، جسمانی ہراسگی دفتر میں ہوکہ سڑک پر چلتے ہوئے، ٹیکسی میں یا پھر آپ کو سڑک پرکھڑے دیکھ کر، لڑکے گاڑی میں بیٹھا کر، درندگی کا مظاہرہ کرتے ہیں، پھراس کے بعد، نئی خبر، دردنا ک واقعہ۔
شیریں! سنا ہے کشمالہ طارق بھی خواتین سے متعلق پوسٹ پر ہیں، کام کیا کررہی ہیں، اس کا پتہ تب چلے جب کوئی رپورٹ منظر عام پر آئے، ان کو اپنی سیاسی وابستگی کے باعث یہ پوسٹ بالکل ایسے ملی تھی جیسے ماروی میمن کو بے نظیر انکم سپورٹ میں عہدہ ملا تھا پھرحکومت بدلی تو ان کو تو ہٹا دیا گیا، باقی رہے نام اللہ کا۔
شیریں! تمہیں یاد ہوگا، آج سے 7سال پہلے اعلان ہوا کہ نیشنل ویمن کمیشن کو ایک علیحدہ وجود دیا جائیگا، اس کی چیئرمین اتنی با اختیار ہوگی کہ کس کو رکھنا ہے کہاں خرچ کرنا ہے (مالی امور کے مطابق) فیصلہ وہ کرسکے گی، اب تک چار چیئرپرسن ویمن کمیشن آچکی ہیں، گزشتہ سات سال سے، بیورو کریسی سروس رولز ہی پاس نہیں کر رہی۔ چیئرپرسن کو چپراسی تک رکھنے کا اختیار نہیں ہے، چیئرپرسن اے جی پی آر کی اجازت سے کوئی مالی بل پاس کروا سکتی ہے، اس لئے پوسٹیں منظور ہونے کے باوجود، کوئی پوسٹنگ بھی نہیں ہورہی، بلکہ لطف کی بات یہ ہے کہ کئی افسر تو یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ویمن کمیشن کی تو ضرورت ہی نہیں ہے۔
شیریں! انسانی حقوق کی وزارت آپ کی ہے، اب بتائو دنیا بھر میں کتنی بے عزتی ہوئی ہے پاکستان کی کہ معیشت کے ایک ماہر کو چند لوگوں کے کہنے پر نکال دیا گیا ہے، اور ان کی حمایت میں دیگر ماہرین معیشت بھی احتجاجاً مستعفی ہوگئےہیں، تمہیں یہ بھی یاد ہوگا کہ 65کی جنگ میں سیسل چوہدری نے بھی ایم ایم عالم کی طرح انڈیا کے طیارے اڑائے تھے، مگر کل اور پرسوں یوم فضائیہ اور یوم دفاع کے موقع پر سیسل چوہدری کا نام ہی نہیں لیا گیا، پاکستان کیا صرف ایک مکتب ِ فکر کے لئے بنایا گیا تھا ۔ کیا عیسائیوں اور دوسرے مکاتب فکر کے لوگوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔ تمہاری وزارت کو تو اسٹینڈ لینا چاہئے تھا اور کیا لکھوں کہ تم نئی وزیر بنی ہو اور میں تمہیں بھی دکھی کررہی ہوں۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ