جماعت اسلامی اپنے مرحوم امرا کی برسیاں منانے کی روایت نہیں رکھتی۔ جماعت کے بانی امیرمولانا مودودی اوران کے جانشین میاں طفیل محمد کی برسی منانےکا کبھی نہیں سنا بلکہ جماعت توفقہی طورپربھی قبرپرستی کوپسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھتی توپھریکا یک قاضی حسین احمد کی برسی پرتقریبات کےانعقاد کا کیا مطلب ہے۔ قاضی حسین احمد کا ایسا کون سا کارنامہ ہےجسے جماعتی اکابرین خراج عقیدت پیش کرناچاہتے ہیں۔انھوں نےجماعت اسلامی کے لئے کون سی خدمات سرانجام دی ہیں جوان کے دو پیش رو امراسرانجام دینے میں ناکام رہے تھے۔ قاضی حسین احمد ایسی جماعتی شخصیت تھےجن کا پورا پولیٹکل کئیرئیرفوجی فیصلہ سازوں کے فیصلوں کا مرہون منت تھا۔ ان کا سیاسی کئیریرمیں ان کے پختون ہونے نے بہت اہم اوربنیادی کردارادا کیا تھا قاضی حسین احمد جب امیرجماعت اسلامی منتخب ہوئےان دنوں جماعت افغان جہاد میں گوڈے گوڈے دھنسی ہوئی تھی۔ جماعت سی۔آئی۔اے اورآئی۔ایس۔آئی کے تعاون واشتراک سےجاری افغان جہاد کا عوامی چہرہ تھی اس مرحلے پرفوجی حکمت عملی کے ماہرین کو جماعت کا ایک پختون امیردرکارتھا کیونکہ مجاہدین کی اکثریت پختون اوراس جہاد کا تھیٹر بھی پختون علاقے تھےلہذا ایک جہادی ایکسپرٹ کے مطابق ایک پختون امیر جماعت اسلامی یہ سارا کام بہت اچھے اور بہتر انداز میں سرانجام دے سکتا تھا۔ چنانچہ ماہرین کی نگاہ انتخاب قاضی حسین احمد پڑی جو ان دنوں جماعت اسلامی صوبہ سرحد کے عہدیدار تھےاورانھیں انتہائی کامیابی سے امیرجماعت اسلامی پاکستان کے طور پرلانچ کردیا گیا۔ قاضی صاحب کو سب سے پہلے سینٹر منتخب کرایا گیا اور اس کا کریڈٹ گورنر سرحد جنرل فضل حق کو جاتا ہے کیونکہ 1985 کے غیر جماعتی الیکشن کے نتیجے میں سینٹ بنی تھی اس کے لئے اراکین کا انتخاب صوبہ سرحد کی حد تک انھوں نے ہی کیا تھا۔یوں قاضی حسین احمد سینٹر کیا بنے افغان جہاد کا پرچم پارلیمنٹ میں لہرانے لگا۔ جنرل ضیا الحق کی موت پر ہماے جنرلز نےجو تانا بانا بے نظیر کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لئے بنا تھا اس میں قاضی حسین کے لئے اہم رول مختص کیا گیا تھا۔ قاضی حسین احمد نے اپنا یہ کردار انتہائی مہارت،ذہانت اور کامیابی سے نبھایا اورصلے میں جماعت کی بیوروکریسی سے بہت سی مراعات حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ انھوں نے پاسبان اور شباب ملی جیسی عوامی تنظیمیں کا ڈول ڈالا تھا جن کا مقصد ان کے مطابق جماعت کو عوامی بنانا تھا۔محمد علی درانی جو بعد ازاں جنرل پرویز مشرف کے وزیر اطلاعات بنے تھے پاسبان کے پہلے سربراہ مقرر ہوئے تھے۔موصوف قاضی حسین احمد ہی کی دریافت تھے۔ قاضی صاحب نے اسلامک ڈیموکریٹک فرنٹ بنا کر الیکشن میں بہت زور شور سے حصہ لیا تھا اور خود لاہور کی سرحدی علاقوں پر مشتمل نشست سے ملک معراج خالد کے خلاف میدان میں اترے تھے اور یہ نعرہ انہی دنوں ایجاد ہوا تھا کہ ظالمو قاضی آرہا ہے۔ قاضی حسین احمد دراصل جماعت کو فوجی تعاون اور امداد سے بھرپور انداز میں اقتداری سیاست کا حصہ بنانے والے جماعتی سربراہ تھے وہ روایتی سیاسی جماعتوں کی طرح جورتوڑ، سمجھوتے بازیوں اورکچھ لو اور کچھ دو کو سیاسی ترقی کا زینہ سمجھتے تھے اور یہی وہ پالیسی جو منورحسن کی پھس پھسی قیادت کے دوران کچھ سالوں کے لئے پس پشت چلی گئی تھی۔ سراج الحق کے امیر جماعت اسلامی بننے سے ایک دفعہ پھر قاضی حسین احمد کی یہ اقتداری سیاست کی پالیسی ابھر کر سامنے آئی ہے۔ سراج الحق اپنے پختون پیش روقاضی حسین احمد کےنقش قدم پر چلتے ہوئے فوجی مربیوں کے تعاون اورمین سٹریم سیاسی جماعتوں سے جوڑتوڑ کرتے ہوئے جماعت کو اقتدای ایوانوں میں کسی نہ کسی رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ اگر جماعت پارلیمانی سیاست سے مکمل طور پر اوٹ ہوگئی تو وہ پاکستان کے سیاسی منظر نامہ پر اس کی کوئی حیثیت اوراہمیت نہیں رہ جائے گی ۔ جماعت اسلامی تو تحریک لبیک کی طرح پریشر گروپ کے طور پر بھی زندہ نہیں رہ سکے گی قاضی حسین احمد کی برسی منانے کا جماعتی فیصلہ اس طرف اشارہ ہےکہ سراج الحق قاضی حسین احمد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جماعت اسلامی کی حکمران بیورو کریسی کے لئے فوج، مذہبی سیاسی جماعتوں کے مدد سے اقتداری ایوانوں میں چھوٹی موٹی گنجائش پیدا کرنے کی سعی کرتے رہیں گے
فیس بک کمینٹ